کسی بھی زندہ تہذیب کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کی ترجیحات اہمیت کے اعتبار سے درست ہوتی ہیں۔ معاشرے کے تمام طبقے اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ ایک دائرہ دیگر تمام دائروں کو اپنی لپیٹ میں لے کر جملہ ترجیحات کو باہم گڈمڈ کر دے۔ اس وقت ہمارے معاشرے کی یہی کیفیت ہے۔ مثلاً ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر ایک زرعی معاشرہ ہے لیکن ہماری خواہشات صنعتی معاشرے کی ہیں اور صنعتی معاشرہ صارفین کا معاشرہ ہوتا ہے۔ آدمی، آدمی کی حیثیت سے نہیں پہچانا جاتا، صارف یا خریدار کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ ہر چیز ایسے معاشرے میں بکائو مال بن جاتی ہے۔ یہاں تک علم بھی، فن بھی اور دیانت و امانت بھی۔ دوسرے لفظوں میں جب مادہ پرستی عام ہوتی ہے تو چیزیں آدمیوں سے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہیں بلکہ خود آدمی کی اہمیت کا تعین بھی اس کی دولت و وسائل سے کیا جانے لگتا ہے۔ وہ معاشرہ دم توڑ چکا ہے جس میں انسان کو اس کے علم یا مرتبۂ انسانیت سے پہچانا جاتا تھا۔ ایک اچھا آدمی وہ تھا پچھلے معاشرے میں جو نیکوکار تھا، اپنی خواہشات اور ضروریات کو اقدار کے ماتحت رکھتا تھا۔ آج وہ آدمی اہم ہے جو اپنے اثرورسوخ کی بنا پر دوسروں کے لیے ’’مفید‘‘ ہو۔ یہ افادیت پسندی جدید معاشرے کی نمایاں پہچان ہے۔ جو تعلق ’’مفید‘‘ نہ ہو وہ تعلق بھی دو کوڑی کا ہے۔ کسی ایسے آدمی سے خلوص و محبت کا معاملہ رکھنا جو مجھے فائدہ نہ پہنچائے فضول ہے۔ خواہ وہ میرا رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔ نئے معاشرے میں جو خرابیاں درآئی ہیں وہ اسی صنعتی ترقی کا نتیجہ ہیں۔ اس میں لفظ ’’ترقی‘‘ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ گھر کی چار دیواری میں بھی وہی اولاد لائق تکریم ہے جس میں ترقی کرنے کی صلاحیت دوسروں سے زیادہ ہو۔ پچھلے معاشرے میں کیریئر کے لفظ سے ناآشنائی تھی، آج کا معاشرہ نوجوانوں میں ’’کیریئر‘‘ کے گرد گھوم رہا ہے۔ کیریئر وہی اچھا اور مطلوب ہے جس میں نوجوان تیزی سے ترقی کی سیڑھیاں طے کرتا جائے اور اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے آسودہ حالی کے دروازے زیادہ سے زیادہ کھول سکے۔ آج کا معاشرہ مقابلہ اور مسابقت کا معاشرہ ہے۔ دوسروں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جانا، یہاں تک کہ دوسروں کے حقوق کو تلف کر کے آگے بڑھ کے اپنا حق یا اپنے حق سے بھی زیادہ چھین لینا، اسمارٹنس کی نشانی ہے۔ اب عقل کے معنی یہ نہیں رہے کہ آدمی اس کائنات میں اپنے مقام کو پہچانے اور اپنے اور اپنے خالق کے رشتے کو تلاش کرے۔ اپنے لیے ایک متوازن زندگی اور ایک ایسا لائحہ عمل تیار کر سکے جس سے وہ ذہنی اطمینان اور قلبی سکون سے خود کو ہم آہنگ کر سکے۔ اب عقل کا مطلب سادہ لفظوں میں ’’عقل معاش‘‘ ہے۔ عقل معاش یہ بتاتی ہے کہ کس طرح اقدار و روایات کو نظرانداز کر کے تم اپنے لیے دولت کے انبار سمیٹ سکتے ہو۔ دولت تمہیں ایک ایسا مضبوط اور عمدہ صارف بنا دیتی ہے کہ تم اپنے اور اہل خانہ کے لیے جو چاہو خرید سکتے ہو۔ جو چاہو جمع کر سکتے ہو، تحفے تحائف سے دوسروں کا تعاون حاصل کر سکتے ہو۔ آج کی اچھی تعلیم بھی وہی ہے جو عقل معاش اور معاشی سوجھ بوجھ آدمی کے اندر پیدا کر دے۔ آج کی زندگی اور آج کا معاشرہ اخلاقی اقدار پہ نہیں معاش اور عقل معاش پر کھڑا ہے۔ جس آدمی میں شعورِ معاش نہیں، وہ ناکام آدمی ہے۔ اچھا آدمی اپنی خوبیوں اور بھلائیوں کے باوجود ناکام ہے اور بڑا آدمی اپنی جملہ خود غرضیوں اور نالائقیوں کے باوجود محض اپنی عقل معاش کے سبب کامیاب اور قابلِ رشک ہے۔ تو پھر ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ راہ نجات کیا ہے؟ ستم ظریفی یہی ہے کہ راہ نجات کوئی نہیں۔ معاشرہ اور تاریخ کا سفر آگے اور آگے ہی کی سمت ہوتا ہے۔ ہم وقت کے پہیے کو ریورس گیئر میں ڈال کر پیچھے نہیں لے جا سکتے۔ اس صورت حال کی ناگزیریت ایسی ہے کہ نتیجے میں پورا معاشرہ اعصابی بیماروں سے بھرتا جاتاہے، سائیکائٹرسٹ اور سائیکالوجسٹ کے چیمبر آباد اور بارونق ہوتے جاتے ہیں۔ ذہنی تنائو، قلبی تشویش اور گھبراہٹ کی شکایتیں عام ہوتی جاتی ہیں۔ قہقہے اور چہچہے کم اور حزن و فکر مندی میں بڑھوتری آتی جاتی ہے۔ ہم نے اعتدال اور توازن سے عبارت معمولات کو چھوڑ کر زندگی کا جو چلن اختیار کیا ہے،سارے عوارض اسی کا منطقی نتیجہ ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ تبدیلی لانا کسی کے اختیار میں نہیں رہا۔ میں اپنے آپ کو بدلنا بھی چاہوں تو نہیں بدل سکتا۔ کیوں کہ میرے جملہ معاملات کا انحصار دوسروں پہ ہے اور دوسرے ہماری خاطر خود کو کیوں بدلیں؟یہ جو وجودی فلسفی کہتے تھے کہ دوسرا آدمی ہی ہمارا جہنم ہے تو بات کچھ ایسی غلط بھی نہ تھی۔ ہماری ساری اذیتیں، کلفتیں اور پریشانیاں دوسروں کی وجہ سے ہیں۔ ہمیں ساری لغو اور بیہودہ باتیں دوسروں ہی سے سننی پڑتی ہیں۔ ہمیں دوسروں کے سامنے ہی ہر روز نکو بننا پڑتا ہے۔ دوسرے ہی اپنی کامیابیوں کی داستان بنا کر ہمیں احساس محرومی اور احساس شکست سے دوچار کرتے ہیں۔ ہمارے اہل خانہ ہی روزانہ یہ کہہ کر کچوکے لگاتے ہیں کہ فلاں کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور تم ابھی تک وہیں کے وہیں ہو۔ یہ سارے مسائل الجھنیں اور پیچیدگیاں ایسی ہیں جنہیں اچھی سے اچھی حکومت بھی حل نہیں کر سکتی۔ ہماری محبوب سے محبوب سیاسی پارٹی بھی ہمارے ان دکھڑوں کو سننے کے لیے تیار نہ ہو گی اس لیے کہ سیاسی پارٹیاں اور حکومتیں خارج سے تعلق رکھتی ہیں اور ہمارے دکھ اور الجھنیں ہمارے باطن سے اور اندرونی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں اندر سے کون مطمئن کر سکتا ہے۔ کوئی بھی نہیں سوائے ہمارے۔ ہم اپنی ترجیحات کو اگر درست کر لیں اور خود ضبطی یا سیلف کنٹرول کے ذریعے چاہیں تو اکثر عوارض اور بیماریوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ انسان کی ذہنی اور قلبی صحت کا بڑا دارومدار اس کے تصور زندگی پر ہے۔ زندگی کی بابت ہم اپنے تصورات کو ٹھیک کر لیں تو کم از کم اپنے آپ کو بہت سے جذباتی صدموں سے بچا سکتے ہیں۔ یہ جذباتی صدمات ہی ہیں جن کے نتیجے میں ہمارے پورے وجود پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ احساسِ شکست، ناکامی کا بوجھ اور جذباتی سطح پر اپنے آپ کو ٹوٹے ہوئے پلیٹ کی طرح چکنا چور محسوس کرنا، اگر ان عوارض سے ہم اپنے آپ کو نکال سکیں، تو کم سے کم بہت سی اذیتوں سے چھٹکارہ پا سکتے ہیں۔ ہمار تہذیبی المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے سوچنا چھوڑ دیا ہے بلکہ سوچنا ہمیں آتا ہی نہیں۔ ہمیں سوچتا ہوا آدمی کسی مہلک مرض میں مبتلا نظر آتا ہے۔ حالاں کہ انسان نے محض اپنی سوچ کے ذریعے ہی اس کائنات یا اس دنیا کو بدل ڈالا ہے۔ سوچنا بھی ایک کام ہے۔ یہ قول کہ مصنف یا شاعر جب کوئی چھت پر لیٹ کے آسمان کو تک رہا ہوتا ہے تو دراصل وہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ ہم اپنی سوچ سے ہی اپنے آپ کو ایک حد تک بدل سکتے ہیں اور سوچنے کا مطلب مثبت سوچ۔ مثبت سوچ میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ جس طرح منفی اور تخریبی سوچ آدمی کو ہلاکت کی دہلیز تک پہنچا دیتی ہے۔ ویسی ہی مثبت اور تعمیری سوچ آدمی کو اپنی ذات سے اوپر اٹھا کر دوسروں سے جوڑ دیتی ہے۔ تب دوسروں کا وجود جہنم نہیں لگتا۔ ہماری جنت بھی دوسرے ہی ہیں!