مکرمی !پاکستان اور ہندوستان کی مسئلہ کشمیر پر حالیہ صورت حال پر بہت سے اندرونی و بیرونی عناصر یہ گمان باطل کر رہے ہیں کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو ہندوستان بڑی ریاست،وافر اسلحہ اور جنگی جنون میں مبتلا ہونے کی بنا پر خدانخواستہ پاکستان کو جانی،مالی اور عسکری نقصان پہنچا سکتا ہے۔اب اگر دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو کچھ زیادہ دن نہیں چل سکے گی وغیرہ وغیرہ۔مجھے لگتا ہے کہ ہماری سیاسی وملٹری قیادت ایسے انتشار ی اذہان سے پوری طرح سے باخبر ہیں ،جبھی تو انہوں نے گذشتہ روز غزنوی بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ کر کے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ بھا رت کے وہ علاقے جو 290 کلومیٹر کی دوری پر ہیں ہمارے میزائلوں سے اب چند منٹ کے فاصلہ پر ہیں۔اگر پاکستانی میزائل ٹیکنالوجی کی بات کی جائے تو پاکستان کے پاس زمین سے زمین پر ہدف بنانے والے چار اقسام کے میزائل موجود ہیں جس کا پاکستان نے کامیاب تجربہ کر رکھا ہے۔رہی بات جنگی جنون،بڑی ریاست،عوامی وعسکری تعداد میں زیادتی کی تو جنگ تعداد سے نہیں ،جذبات سے نہیں جذبے سے،ایمان کی مضبوطی اور حکمت عملی سے لڑی جاتی ہے۔اور یہ سب ہمارے ایمان کا جزولاینفک ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہئے کہ ہمارا دین امن و آشتی کا سب سے بڑا پیامبر ہے،ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم نے جن ریاستوں کی بھی فتح کیا پہلا پیغام امن،دوسراجزیہ اور تیسرا اعلان جنگ ہو کرتا تھا۔تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ جن مسلمان اعلان جنگ کرتا ہے تو پھر فتح یا شہادت ہی اس کا مطلوب ومقصود ہوا کرتا ہے۔ غزنوی بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ کر کے یہ پیغام بھی دشمن تک پہنچا دیا ہے کہ مسلمان اپنے چالاک سے چالاک اور طاقتور سے طاقتور دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے ہمہ وقت اپنے گھوڑوں کو تیار رکھتا ہے۔ (مراد علی شاہدؔ دوحہ قطر)