ممتاز شاعر انور مسعود مزاح کے پیرائے میں جو جاندار تبصرہ اور تجزیہ ہمارے سماج سیاست اور انسانی نفسیات کا کرتے ہیں وہ انہی کا خاصہ ہے مزاح سے شروع ہونے والی نظم بسا اوقات ایسی تلخ حقیقت پر اختتام پذیر ہوتی ہے کہ قاری پڑھتے پڑھتے سنجیدہ اور کبھی رنجیدہ ہو جاتا ہے۔مزاح میں فکر انگیز بات کہنے کا ہنرصرف انور مسعود صاحب کو آتا ہے ہے اسی لیے بہت سے لوگوں کی طرح میرے بھی پسندیدہ شاعر ہیں۔انور مسعود صاحب کے ساتھ مجھے کچھ مشاعرے بھی پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ایک تو شاعری کمال اور اس پر انور مسعود صاحب کا پڑھنے کا خاص انداز جو ان کے کلام کو دو آتشہ کر دیتا ہے۔ڈاکٹر خورشید رضوی خاکوں کی کتاب بازدید میں انور مسعود کے خاکے میں لکھتے ہیں۔ًَانور مشاعرہ مار آدمی ہے، اس کے جوہر تبھی کھلتے ہیں جب پنڈال بہت بڑا اور کھچا کھچ بھرا ہوا ہو۔مائیک کے سامنے آ کر اس کی شخصیت کی سب فریکوئنسیاں جڑجاتی ہیں،،آواز کے زیرو بم اور اتار چڑھاؤ کے ساتھ وہ اپنی نظم سناتے نہیں ،سامعین کی سماعتوں میں انڈیل دیتے ہیں۔ نظم کی معنویت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ آج کالم کا محرک انور مسعود صاحب کی ایک پر مزاح نظم کوفتہ ہے اور نظم کے یاد آنے کا محرک ہمارا سیاسی منظر نامہ ہے۔پہلے ذرا نظم سے لطف اندوز ہو لیں۔نظم کا عنوان ہے کوفتہ۔بوٹی لئی تے ٹوکے نال قیمہ قیمہ کیتی محنت کرکے ایس قیمے دی فیر سی بنائی بوٹی فیر بنایا قیمہ ایسدا رکھ کے دنداں تھلے شاہ وا بلے بلے۔۔ میں سالن کھاواں تے نالے ھنساں نما نما/بوٹی قیمہ قیمہ بوٹی، مڑ بوٹی دا قیمہ/کوفتے ورگا لگا مینو سارا سفر اساڈا/پانی دے وچ پینڈا کچھیا کھا کھا لمے غوطے/جیہڑی تھا تو ں ٹرے ساں انور اوتھے آن کھلوتے ایسا لگتا ہے کہ انور صاحب وطن عزیز کے 73 سالوں میں سیاست اور جمہوریت کے سفر کو اس نظم میں بیان کرکے رکھ دیا ہے۔تبدیلی سرکار تبدیلی تبدیلی کا کھیل کھیل رہی ہے اور تبدیلی کا یہ سارا زور اطلاعات کے وزیر کو بار بار بدلنے کے گرد گھوم رہا ہے فیاض الحسن چوہان کو ایک بار پھر وزیر طلاعات کے عہدے سے ہٹادیا گیا ہے اور ان کی جگہ سنبھالی ہے فردوس عاشق اعوان نے جو اس سے پہلے مرکز میں مشیر اطلاعات تھیں۔اور ہماری حکومتوں میں اطلاعات کے وزیر مشیر کے ذمے جو کام ہوتا ہے ،فردوس عاشق اعوان تو دن رات اس کی انجام دہی میں لگی رہتی تھیں۔ دن رات عوام کو یقین دلاتیں کہ دنیا کے بہترین حکمران تمھیں میسر ہیں جن کی سرپرستی میں پاکستان دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ دور دور تک غربت اور غریب کا نام و نشان نہیں تمام گھروں میں خوشحالی رقص کر رہی ہے۔ان دنوں جب ہم ابھی یہ خواہش کر ہی رہے تھے کہ کاش ہمیں فردوس عاشق اعوان کی عینک میسر آ جائے تاکہ ہم بھی اس عینک کو لگا کر وہ مائیکرو اسکوپک خوش حالی اور ترقی دیکھ سکیں جو عام آدمی کو دکھائی نہیں دیتی کہ فردوس عاشق اعوان کو بحکم سرکار ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ظاہر ہے عہدے سے تبھی ہٹایا جاتا ہے جب کارکردگی تسلی بخش نہیں ہوتی اس کے بعد سابق مشیر اطلاعات عاشق اعوان سیاسی منظر سے بالکل غائب ہو گئیں۔ اور اب اچانک وہ پنجاب میں نمودار ہوئی ہیںاس وقت وہ حکومت پنجاب کی وزیر اطلاعات ہیں۔ انہیں یہ عہدہ فیاض الحسن چوہان کو ہٹائے جانے کے بعد ملا ہے۔ جبکہ چوہان صاحب بزدار حکومت کے پہلے وزیر اطلاعات تھے، اپنی شعلہ بیانی کی بدولت وہ پنجاب کے سیاسی منظرنامے اور چینلوں کی سکرین پر چھائے رہتے تھے،مخالف سیاستدانوں کے لیے نت نئی اصطلاحات استعمال کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا کپتان ان کی کارکردگی سے بہت خوش تھے۔کپتان کو ہمیشہ فیاض الحسن چوہان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے دیکھا گیا لیکن پھر ایک روز جانے کیا ہوا کہ انہیں اس عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ صمصام بخاری کووزیر اطلاعات پنجاب لگا دیا گیا جو اپنی طبیعت کی شائستگی اور تہذیب کے دائرے میں گفتگو کرنے کی بنیاد پر اس عہدے کے لیے نہایت ناموزوں انتخاب تھے۔سو جس روز انہوں نے یہ قلمدان سنبھالا تھا اسی روز یہ خبریں گردش کرنے لگی تھیں کہ صمصام بخاری زیادہ دیر تک یہ عہدہ نہیں سنبھال سکیں گے ۔سو ان کا جانا اسی روز سے ٹھہر گیا تھا۔اور وہ چلے گئے۔صمصام بخاری کو ہٹانے کے بعد اطلاعات کا قلمدان میاں اسلم اقبال کو دے دیا گیا۔اس کے بعد پھرچوہان صاحب کو اس مسند پر بٹھا یا گیا۔ وزارت اطلاعات کا جو چلن ہے اسکے کارن چوہان صاحب ایک موزوں ترین انتخاب تھے۔وہ خود کو وزیراعظم کا ادنی سپاہی کہہ کر بلاتے ہیں اور سپاہی اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اگلے مورچوں پر برسرپیکار تھا کہ اچانک انہیں اطلاع دی گئی کہ آپ محاذ چھوڑ دیں کیوں کہ بحکم سرکار آپ کو اس ذمہداری سے ہٹا دیا گیاہے۔ستم ظریفی تو یہ ہوئی کہ دنیا کو ہر خبر کے اطلاع دینے والے کو جب اس کی برطرفی کی اطلاع دی گئی تو وہ اس سے بے خبر تھا یعنی، ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی۔ اور اب موصوف پنجاب کے وزیر جیل خانہ جات ہیں۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ فیاض الحسن چوہان کو وزیراعظم مرکز میں لے کے آئیں گے جس طرح شہباز گل کو پنجاب سے اٹھا کر مرکز میں لے کر آئے ہیں اسی طرح فیاض الحسن چوہان کو بھی مرکز میں حکومت کا ترجمان مقرر کریں گے۔ وزیر اطلاعات کی یہ بار بار تبدیلی بوٹی کا قیمہ قیمے کی بوٹی اوراس بوٹی کو پھر دانتوں تلے رکھ کر قیمہ بنانے کی ایک مضحکہ خیز داستان ہے انور مسعود کے الفاظ میں بوٹی قیمہ قیمہ بوٹی ،مڑ بوٹی دا قیمہ/ کوفتے ورگا لگا مینوں سارا سفر اساڈا/ پانی دے وچ پینڈا کچھیا کھا کھالمے غوطے/ جیہڑی تھا توں ٹرے ساں انور اوتھے آن کھلوتے۔۔