روز مرہ کا معاشرتی مشاہدہ ہے اور یہ مشاہدہ ماضی‘ حال ‘ مستقبل پر بے روک ٹوک احاطہ کئے ہوئے ہے۔ جس فرد نے بھی شعور درد کے ساتھ اس زندگی کو ٹٹولنا چاہا یہ مشاہدہ آخر میں کھڑا نظر آتا ہے مشاہدہ ہے کیا؟ یہی ہے کہ مصلحت کا سہارا لے کر آگے بڑھو یہاں تک کہ پہلے روز جو منزل مقصود طے کی تھی‘ وہ اتنی اوجھل ہو جائے کہ پریشان منزل پر نئی بات ‘ نئی عادت ‘ نئی نیت اورنئے ارادوں کو شامل سفر کرنا پڑے۔ قومیں وقت کو ہاتھ میں کر لیا کریں تو غلبہ ان کے لئے اعلان نوید‘ وقت ہاتھ میں کیوں ٹھہرے۔زندگی کو زندگی دینے کا فن ان مخلصین کو میسر ہوتا ہے جو زندگی کے لاحقہ اور سابقہ کو اپنی نظر کا ہدف بنا کر رکھتے ہیں۔ ابھی کل راز داران درون میخانہ نے وقت تہجد بیدار کیا اور پوچھا جاگتے ہو۔ عرض کیا ہاں بیدار ہوں‘ پھر گویا ہوئے کہ وقت تہجد روح سمیت بیدارہونا ہی شعوری بیداری کے زمرے میں آتا ہے۔ حدیث قدسی میں مہربان رب کی اپنی زبانی نوید ہے۔ ہم بھی اپنی مخلوق کے دل کی قربتوں سے اپنی تجلیات کو جوڑتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ موت و حیات کی تخلیق میں وہ اہتمام نہیں جو لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم میں حسن و توازن اور اپنی خالقیت کی ہمہ جہتی کا بیان نظر آتا ہے۔ پھر فرمایا کہ آہ سحر گاہی کا ہدف بلند ہی حسن تقویم کی بقاء کا سوال ہے۔ جانو‘ پہچانو اور پھر ٹپکتے آنسوئوں سے الفاظ دعا کو سیراب کرو جن پر وقت کروٹ پہ کروٹ لیتا نئے مناظر سے آشنا کر رہا ہے۔ ہر شخص نئے مناظر سے شاکی نظر آتا ہے۔ اسے معاش ‘ معاشرت میں جگہ جگہ بے سروسامان کے مناظر کا سامنا ہے۔ ناامیدی اورمایوسی کا فروغ ہے کہ لوٹ مار کرنے والے اب بہت ہی اناڑی ہیں۔ سمجھے ہیں کہ کفن چوروں نے جب اپنے پیشے کو فروغ دیا تو متاثرین بلبلائے اور دست بدعا ہوئے کہ مالک اس قوم کو نابود فرما۔ دعا قبول ہوئی لیکن متاثرین کے لچھن بھی کچھ زیادہ پسندیدہ نہیں تھے۔ دعا تو قبول ہوئی لیکن منظر نامے میں ایک تنبیہ بھی رکھ دی گئی اب نئی ٹیم نے اصلاح کے نام جبر کا اختیار ازخود حاصل کیا اور اس جبر کے جواز میں نیا فارمولا یہ بتایا کہ ہم اب چوروں کی قبر وںسے انتقام لیں گے۔ انتقام کا بدلہ سزا بمطابق جرم اور مزید ارتکاب جرم کی سزا۔ یوں کفن چور کی قبر سے کفن کھسوٹنے کے ساتھ ساتھ اس کی قبر پر ایک تعزیراتی میخ بھی گاڑنے کا اعلان ہوا۔ غریب ہے کہ فٹبال کے میدان میں پائوں تلے روندا جا رہا ہے۔ ہروہ خطہ غربت سے نیچے آ گرا ہے اب دوسرے غریب کھلاڑیوں کی لغزش پا میں روندے جائیں گے اور وہ بھی خط غربت سے نیچے پٹچ دیے جائیں۔ اور جغرافیے کی نئی اٹلس میں ایک نیا خطہ تمام خطوی سے بڑھ جائے گا۔ معاشرت کا خط استوار اور معیشت کا ربع مسکون پر سونامی بپھرے گا۔ اب ایک خط جبر اور خط غربت ہے۔ یہ زندگی کے جغرافیے سے بالکل خارج نہیں ہو گا۔ انقلابی شاعر عدم آباد میں اپنے بے معنی لفظ کو غصے سے گھورتے ہیں اب نہ تخت اچھالے جاتے ہیں۔ نہ تاج زیرپا آتے ہیں اب تو دھنکی ہوئی روٹی کا بامحاورے ترجمہ غربت ہے۔ نہیں رکتے دھینگا مشتی سے ‘ہر اجلاس کے شرکاء ایک سے ایک بھمبھیری اڑائو خطیب ہے ۔ایوان بالا میں اور ایوان زیریں کی زینت وہ مقررین بے نیام ہیں جن کی زبان کی کاٹ سے اچھے نہ ہونے والے زخم ابھرتے ہیں۔ ایوان سے باہر وہ محترمات اور زیرک خیال خواتین اپنی پارٹیوں کی زبانی نمائندگی فرماتی ہیں۔جن کا احترام سب پر لازمی ہے ان کے بیانات میں جس طرز کی طعنہ زنی ہوتی ہے آبادی کا ایک بڑا حصہ جو خواتین پر مشتمل ہے۔ وہ بہت متاثر ہوتا ہے۔ گھریلو خواتین آٹے نمک کا بھائو بھلا بیٹھی ہیں۔ ٹھنڈے چولہے کو بھی فراموش کر دیتی ہیں۔ زنانہ بیان بازی میں طعنوں کی نزاکت پر داد دیا کرتی ہیں۔ باورچی خانے کا سارا مزاج تلپٹ ‘ مردوں پر آفت برپا کہ بازار سے کھانا لایا جائے۔ عقل کے بیوپاری چند ٹکوں سے محبت کی خاطر راجہ کی عقل کے عقاب کو سست روی پر مشق کرواتے ہیں راجہ اور منتری سب کسی گرو کو قول الاپتے ہیں کہ مہنگائی تو ہو رہی ہے اور ہو گی۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مہنگائی ایک صبح شام کے موسم ہوا کے دبائو کی طرح یا نمی کے تناسب کی طرح ایک قابل برداشت خوشگوار معمول ہے لیکن شدت آلام سے بے خبر اقتدار کے سنگھاسن پر جھولتے راجہ اور منتری یہ بالکل بھی نہیں جانتے کہ مہنگائی زندگی کی اس رسوائی کا نام ہے جس میں عزت‘ سیرت‘ شرافت اور اعتبار سب ہی نیلام ہو جاتے ہیں۔ حق بات مانے بغیر ایمان جاتاہے کہ نباض فطرت رسول محتشم حضور ﷺنے فرمایا ‘ ’’اور بہت ممکن ہے غربت و تنگدستی کسی کو کفر کے گڑھے میں دھکیل دے‘‘۔ شکوہ کس کریں۔ جس سے شکوہ کرتے ہیں وہ کہیں پر عقل کے غریب ہیں اور کسی کے ہاں غیرت کا گھاٹا ہے اور کچھ میں جہاں امانت کی قلت ہے اور ایک منظم گروہ ایسا بھی جہاں صدق و دیانت کا اتنا زیادہ قحط ہے کہ اصلاح و خیر کا امکان نابود نظر آتا ہے۔ ضروریات کیا ہیں؟ ترجیحات میں عوام کے نان شبینہ کو فی الحال طاق نسیان کی دائمی دستاویز بنا کر رکھ دیا ہے۔ سارے عوام اس طرح بھولے بچے ہیں اورکچھ لوگ بھولے بادشاہ ہیں بھول پن کا یہ کھیل قوم سے سورج ڈوبنے کا انتظار کرتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ کھیل شام کے اندھیرے سے جا لگے اور اس اندھیرے میں راجہ پرجا کا دھیان بدل جاتے کھیل لڑائی میں بدلے۔ ایک دوجے کی شناخت ختم ہو اور گھر میں لڑائی کی مشق شروع ہو کہ بھوکے پیٹ امان نہیں رہتی۔ نہ بھوکے پیٹ بھجن ہوتے ہیں‘ خواص کو خواص ہوتے ہیں‘ ان کی نیتیں خالص ہوتی ہیں۔ وہ حیا دار ہوتے ہیں باطن کی حیات سے لے کر آنکھ اور زبان کی حیا ماں‘ بہن بیٹی کی شرم آگیں عزت و احترام سے معاشرے مضبوط ہوتے ہیں۔ جہاں مادیت کی گرد میں حیا کا وجود عنقا ہونے لگے تو یہ فطری کلیہ سارے معاشرے کو غربت اور افلاس کی آندھی میں اندھا کئے دیتا ہے۔ حیا سے رزق اور اخلاق بڑھتا ہے۔ بے حیائی سے رزق اور اخلاق کو باریک دیمک لگتی ہے ۔پوری قوم اسی آندھی میں آنکھیں مسل رہی ہے۔ ثمرات آندھی میں جھڑ رہے ہیں۔ درخت بے اولاد ہو گئے ہیں۔ راستے سنسان اور ذہن بانجھ ہو رہے ہیں ہم سب بہت دیر سے سو رہے ہیں۔