تا حد نگاہ،عوام کا جم غفیر۔نعروں کی گونج پرچموں کی بہار۔کوئٹہ کا جلسہ بہت حد تک کامیاب رہا۔ایک دہشت گردی کا الرٹ نیکٹا نے جاری کیا، جس کو پیروں تلے روندتے ہوئے ،جلسہ کیا گیا اور انجام بھی آنکھوں کے سامنے۔ بلوچستان حکومت کی اپیل ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی گئی۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اپوزیشن کا کام حکومت کو ٹف ٹائم دینا ہے مگر کیا اس میں ان تمام جانوں کو قربان کرنا بھی شامل ہے۔ جو ایسے حالات میں بلائے یا زبردستی لائے جا تے ہیں۔جب دہشت گردی سمیت کرونا سے بیمار یا ہلاک ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ ہارون الرشید صاحب بجا ہیں یہ کہنے میں کہ ہم ایک ذہنی غلام قوم ہیں، جن کی اپنی کوئی سوچ نہیں،بس آقاؤں کا طرز اور انکی خوشنودی زندگی کا محور ہے۔ہم آزاد ہو کر بھی آزادی کی نعمت کا لطف اٹھانے سے محروم ہیں۔کورونا وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا، بچنے کا کوئی راستہ نہیں سوائے احتیاط۔ تاکید تبھی موثر ثابت ہوتی ہے اگر خود بھی تقلید کی جائے۔ بائیس کروڑ کی آبادی، معیشت محدود، وسائل کم، قرضوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ، کرپشن کا بلند پہاڑ ، سیاسی عدم استحکام اور ایسے میں لاک ڈاون یقینا جانتے بوجھتے خود کشی کے مترادف تھا۔ مگر قوم نے تب ہی ساتھ دیا جب آقاؤں نے روایت قائم کی۔ بلوچستان کی تازہ صورتحال یہ ہے کہ 12.34 ملین آبادی کے اس صوبہ میں پندرہ ہزار آٹھ سو سے زائد کورونا متاثرین کنفرم کیسز ہیں جبکہ اب تک ایک سو اڑتالیس ہلاکتیں ہو چکی ہیں مگر سیاستدانوں کو بس اپنے ایک پائو گوشت سے رغبت ہے، پھر چاہے پورا اونٹ ہی کیوں نہ ذبح کرنا پڑے،ہو بھی یہی طریقہ رہا ہے جلسوں کو کامیاب کرنے کے لئے۔ پیسہ تو پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے مگر اس وبا سے بچنے کے لئے سٹیج پر تن کر بیٹھے کسی ایک شخص نے بھی نہ تو ماسک پہنا اور نہ سماجی فاصلے کا خیال رکھا،تو پھر پیروی کرنے والوں سے کیسی امید۔ اکثر سنا کہ پاکستانی لکڑ ہضم پتھر ہضم قوم ہیں، تب تک اس کا مفہوم میرے ذہن میں بس اتنا سا تھا کہ سب کچھ کھا پی جانے والی قوم ،مگر اب دھیرے دھیرے اس کا مفہوم وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اوائل میں ہو نے والی بدترین دہشت گردی نے ایک ایسی فضا بنا دی تھی کہ کوئی ایک سانس بھی پر سکون نہ تھی مگر پھر ایسا ہم نے بحیثیت قوم اس صورتحال کو اپنے اندر سمویا کہ یہ سب ہمیں نارمل محسوس ہوتا گیا، یہی رویہ کورونا وبا کے ساتھ روا رکھا ہے۔ پہلے تو یہ حالات تھے،میڈیکل اسٹورز پر ماسک اور ہینڈ سینیٹائزرز نایاب ہو گئے۔اسٹورز اور لوگوں نے اپنی سہولت کے مطابق ایسی ذخیرہ اندوزی کی، قیمتیں 100 گنا تک بڑھیں، دیکھتے ہی دیکھتے ہم نے اس وائرس سے بھی ایسی انسیت پیدا کی کہ اب قوم کا حال اس پہلوان کی مانند ہے جو کچھ مقابلے جیتنے کے بعد ایسا confident over ہے، جو بنا تیاری اکھاڑے میں اس ھلے کے ساتھ اترتا ہے کہ اس بار بھی فتح کا اعلان سن کر ہی نکلے گا۔ اس وبا کو پھیلانے میں تو سبھی اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، شاپنگ مالز کا حال بھی اس معاملے میں بہت پتلا ہے۔ ایک بھیڑ جلسوں اور دوسری مالز میں نظر آتی ہے۔ چھٹی کے دن یہ دیکھنے کا اتفاق ہوا ،غلطی سے مال میں جا گھسی ایسی پابندی ہے s o p کی۔ کہ باہر لگے سٹال سے ماسک خرید کر اندر جانا لازمی ہے مگر اندر داخل ہوتے ہی ماسک اتار کر چاہے آپ اسے کچرے کی ٹوکری کی نظر کریں یا جیب کی۔ انتظامیہ کی کوئی سر دردی نہیں۔ لفٹ پر صاف mention تھا کہ لفٹ مین سمیت صرف چار لوگ ایک وقت میں آ سکتے ہیں مگر لفٹ مین کی بلا سے۔۔ موصوف نے کم سے کم 10 لوگوں کو لوڈ کر رکھا تھا۔سماجی فاصلہ اس حد تک نظر آتا ہے کہ ایک طرف کپڑوں کی سیل دوسری طرف سستی کھانے کی ڈیلز۔ عجب عالم تھا۔ یہ ہم کیا کر رہے ہیں ہم حکومت کی تمام کوششوں اور محنت پر پانی پھیر رہے ہیں، اپنی ہی جانوں کے دشمن ہو گئے ہیں۔ مشہور شاعر زاہد آفاق کی ایک غزل یاد آگئی " یہ مشغلہ ہے کسی کا نہ جانے کیا چاہے " اس پر گل بہار بانو کی آواز آج بھی گونجتی ہے کیا خوبصورت شعر ہے: ہزاروں ڈوبنے والے بچا لئے ‘لیکن اسے میں کیسے بچائوں جو ڈوبنا چاہے یہی عالم قوم کا ہے، اکیلا عمران خان کیا کرے گا ، کچھ ذمہ داری ہمیں بھی تو پوری کرنا ہو گی۔ بار بار کی تاکید کے باوجود ہم اب احتیاط کو ترجیحات میں شامل نہیں کر رہے۔کیا ہم واقف نہیں، حکومت کنگال ہے کیونکہ گزشتہ حکمرانوں نے کچھ نہیں چھوڑا، معیشت بیساکھیوں پر ہے کیونکہ کرونا نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ روزگار چھن رہے ہیں کیونکہ اداروں کے پاس دینے کو پیسے نہیں۔ ذاتی کاروبار خسارے میں ہیں۔ دو روز سے چلنے والی ٹھنڈی ہوا نے بدلتے موسم کی نوید تو سنا دی مگر خطرے کی گھنٹیاں بھی بج اٹھی ہیں۔ڈینگی آ چکا۔ اسموگ بھی پھن پھیلائے انتظار میں ہے کہ کب حملہ آور ہو اور ایسے میں کرونا کی دوسری لہر پہلے کی نسبت شدید ہونے کا خطرہ۔ یہ سب ایسا ہی ہے جیسے ہم موت کے جبڑوں میں پڑے ہیں اب دو ہی راستے ہیں احتیاط برتی جائے یا لقمہ بنا جائے۔