موت کو تھوک کے حساب سے بانٹنے والا کرونا وائرس پوری آب وتاب کے ساتھ ملک دَرملک ، شہر شہراور قریہ قریہ محو ِ سفر ہے ۔جائے پیدائش اس کا چینی شہر ووہان تھا لیکن اب اس کا ایپی سنٹر یورپ اور امریکہ بن چکاہے۔ تازہ ترین اطلاعات کی رو سے اس وبا سے صرف یورپ کے شہراٹلی میں اب تک دس ہزار سات سونواسی افراد ہلاک جبکہ ساڑھے ستانوے ہزار افراد متاثر ہوئے ہیں۔گزشتہ چند دنوں سے تو وہاں پر یہ وبا اتنی شدت اختیار کرگئی ہے کہ ایک ہی دن میں نوسوسے ایک ہزار افراد جان کی بازی ہاردیتے ہیں۔ اٹلی میں ہزاروںہلاکتوں کے بعدیورپ میں دوسرے نمبر پر سپین اس وباسے سب سے زیادہ متاثر ہواہے جہاں اب تک چھ ہزار آٹھ سوتین لوگ ہلاک ہوئے ہیںجبکہ فرانس دوہزار چھ ہلاکتوں کے ساتھ تیسرے اوربرطانیہ بارہ سواٹھائیس ہلاکتوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق کرونا وائرس سے دنیا بھر میں اب تک سات لاکھ چونتیس ہزار لوگ متاثرجبکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد تینتیس ہزار نو سو ترانوے بتائی جاتی ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ کی بجائے اس وبا کا مرکز اب امریکہ بنتا جارہاہے کیونکہ وہاں پر ایک ہفتے کے اندراندر کرونا وائرس سے ایک لاکھ چالیس ہزار افراد متاثرجبکہ اموات کی تعداد چوبیس سوتک جاپہنچی ہے ۔اسلامی دنیا میں ایران واحد ملک ہے جو کرونا وائرس کی وبا سے شدید متاثر ہواہے جہاں پرچھبیس سو لوگ ہلاک اوراڑتیس ہزار سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔اس وبا کو لوگ لاکھ موسمی یا بے احتیاطی کی وجہ قرار دیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے اور اسے عذاب ہی کہنا چاہیے ۔ کسے خیال تھا کہ چند سو نینو میٹر جسامت رکھنے والا یہ معمولی وائرس اٹلی، فرانس،اسپین اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملکوں کو چند ہفتوں میں ایک ہولناک قیامت سے دوچار کرے گا؟ کون سمجھتا تھا کہ یہ جرثومہ اس امریکہ کو بھی تگنی کا ناچ ناچنے پر مجبور کرے گا جو دنیا کا سب سے بڑافرعونی طاقت بناہواہے اور کئی دہائیوں سے اپنی مادی طاقت کے بل بوتے پر کمزور ملکوںپر اپنی ریشہ دوانیوں کی صورت میں تباہی مسلط کئے ہوئے ہے؟ دنیا تو سمجھ بیٹھی تھی کہ یہ عالمی سپر طاقت صرف دوسروں پر راج کرے گی اور غیر طبعی موت کے علاوہ کوئی اس کا بال تک بیکا نہیں کرسکے گا ، لیکن کرونا کی وبا نے ان مفروضوںاور خیالات کو غلط ثابت کرکے انہیں یہ باور کرایا کہ موت امریکہ اور یورپ میں بھی کھلبلی مچاسکتی ہے۔کون مانتاتھاکہ کرونا امریکی سینیٹرریڈ جان پال اوررکن کانگریس بین میک ایڈمزاور برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانس کو بھی یہ وائرس لگ کر انہیں خودساختہ تنہائی پر مجبور کرے گا؟سچی بات یہ ہے کورونا کے غیر مرئی وائرس نے بڑی بڑی مادی طاقتوں کے بارے میں بہتوں کی سوچ بدل کے رکھ دی۔ صرف امریکہ میں اس وقت کرونا وبا کے ایک لاکھ چالیس متاثرین اور چوبیس سو سے زیادہ لوگ جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ صدرڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو نوازنے اور ایران اور شام جیسے ملکوں کو دیوار سے لگانے کی بجائے اپنے ہم وطنوں کو اس آفت سے بچانے کیلئے حواس باختہ دکھائی دیتے ہیں۔ جمعہ کو انہوں نے اس آفت سے اپنی قوم کوبچانے کیلئے دواعشاریہ دو ٹریلین ڈالرز کے ریسکیو بل پر دستخط کردیئے۔کرونا وبا اللہ تعالیٰ کا عذاب نہیں تو کیاہے کہ پَل پَل انہی ملکوں سے بے دریغ اموات کی خبریں آرہی ہیں جو عذاب الٰہی کونہیں مانتے تھے بلکہ معاشی بدحالی اور بھوک کو انسانی موت کا اصل سبب سمجھتے تھے ۔ یہ لوگ اب بتائیں کہ معاشی خوشحالی، دنیا جہاں کے وسائل اور بے لگام سرمایہ رکھنے کے باوجود یورپ اور امریکہ میں یہ آفت کہاں سے نازل ہوئی ہے اور اس کا سدباب کون کرسکتاہے ؟کہنے کا مدعا ہرگز یہ نہیں کہ عذاب الٰہی صرف غیر مسلموں پر مسلط ہوگا اور کلمہ گو مسلمان اس سے بچ پائیں گے۔ بلکہ مقصود یہ بتاناہے کہ انسان کو ایک ایسی طاقت کے وجود کا بھی اعتراف کرنا ہوگا جو تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود اسے انتہائی معمولی سبب کے ذریعے کم سے کم وقت میں بے بس اور مجبور کرسکتی ہے ۔اس ذات نے اپنی کتاب میں دوٹوک الفاظ میں انسان کو مخاطب کیاہے کہ یعنی ـ ؛ تم جہاں کہیں ہوگے موت تمہیں آکرپکڑے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہی ہو‘‘۔بلاشبہ مضبوط قلعے انسان کے یہی مادی اسباب ہیں جسے وہ اپنے بچاو کا ذریعہ سمجھتاہے ۔ مضبوط قلعے وائٹ ہائوس، پینٹاگون ، ٹین ڈائوننگ اسٹریٹ اورکریملین جیسے طاقت کے مراکزہیں مگر موت ان سبھی قلعوں میں سرایت کرچکی ہے اور اس کے اندر رہنے والوں سے نپٹ سکتی ہے ۔آئیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ مشکل کی اس گھڑی میں ہم سب کی مددفرمائیں اور اپنی قائم و دائم ذات پر ہم سب کا ایمان پختہ کرے ، آمین۔