عام دنوں کی طرح اس دن بھی مظفرآباد اوربالاکوٹ میں انسانی آبادی خوشی کی چہک اور خواب کی مہک میں مگن تھے کسی کویہ پتا نہ تھاکہ آن کی آن میںوہ فنا کے اندھیرے میں اتر جائیں گے۔کوئی اس حقیقت سے انکارنہیں کرسکتاکہ انسان اس مقام موعود سے کلی طوربے خبرہیں جس کے نام پر عازم سفر ہوئے۔قیامت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ وہ اچانک آکررہے گی۔بس اسی طرح یہ قیامت صغریٰ تھی جوہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔جب یہ قیامت خیززلزلہ آیاتومیں مظفرآباد کے شہرمیں عارضی طورپرمقیم تھا۔ایک ہی جھٹکے نے ہنستے بستے شہرمظفرآباد کوبربادکرکے رکھ دیا۔اسی پہلے جھٹکے کے ساتھ جب میں اورمیرے بچے قیام گاہ سے باہرآئے تومحلے کے بیشترمکانات کوزمین بوس ہوئے دیکھا۔میں نے اپنے گیٹ سے باہرقدم نکالاتوزمین شق ہوچکی تھی اوراس پرخوفناک دراڑیں پڑی تھیں۔گھرکے سامنے والی پہلی گلی بچوں ،جوانوں ،بوڑھوں اور خواتین کی لاشیں سے اٹی پڑی دیکھ کرالٹے قدم پھرگھرکے صحن میں اپنے بچوں کے پاس پہنچا۔اللہ رب العالمین کے کرم سے ہماراگھرمحفوظ رہالیکن گھرکے اندرجتنی الماریاں اورٹرالیاں تھیں سب کی سب گرچکی تھیں۔گھرکے صحن میں بیٹھے ہم مظفرآباد کی پہاڑوںکی طرف دیکھ رہے تھے توان پرکپکپی طاری تھی اوروہ ہل رہے تھے جبکہ زمین مسلسل کانپ رہی تھی اوردویوم تک آفٹر شاکس کی وجہ سے کانپتی رہی ۔ہمارے گھرکے عین سامنے ہمارے انتہائی شفیق اورہردلعزیز ہمسایے انجینئربشیرصاحب کے تمام اہلخانہ بحفاظت گھرسے باہرآئے لیکن ان کی بہونے ان سے کہاکہ ان کی کوئی چیزاندررہ گئی ہے وہ اسے لے آتی ہیں جونہی وہ گھرمیں داخل ہوئیں توپوری کوٹھی گرگئی اوروہ وہیں جان بحق ہوئیں اس طرح ان کے دوماہ کے شیرخواربچے کے سرسے ماں کاسایہ اٹھ گیا۔ میرے پڑوس میں انتہائی کنہ مشق لیکچرار افتخار احمدبھی اپنے گھرکے ملبے کے نیچے آکرجان بحق ہوئے۔سری نگرسے تعلق رکھنے والے میرے پڑوسی حیدرصاحب ایک بچے کوسکول چھوڑ کرآئے تھے جونہی وہ گھرمیں داخل ہوئے توزلزلہ ہوا،تین منزلہ مکان جس میں وہ عارضی طور پرزیرقیام تھے زمین بوس ہوگیاوہ خود اور انکی اہلیہ جوضلع پلوامہ سے تعلق رکھتی تھیں جان بحق ہوئے لیکن ان کاپانچ سالہ بچے کئی گھنٹوں کے بعدمکان کے ملبے سے زندہ باہر آگیاجس پرسب متعجب ہوئے۔ موبائل فون نہیں تھے البتہ لینڈلائن فون کے کنکشن ہمارے گھروں میں نصب تھے لیکن زلزلے کے پہلے ہی جھٹکے نے لینڈ لائن کاخاتمہ کردیایوں مظفرآبادشہرکاتمام مواصلاتی نظام آن واحد میں ختم ہوگیا۔اس لئے اسلام آبادمیں ہمارے رفقاء کو کسی کویہ پتاہی نہ چل سکاکہ مظفرآباد میں زلزلے نے کس قدرقیامت ڈھائی ۔اگرچہ اسلام آباد راولپنڈی میں بھی زلزلے کے جھٹکے محوس کئے گئے تھے اوراسلام آبادکامارگلہ ہوٹل تباہ ہو چکاتھا لیکن یہ جھٹکے اس قدر قیامت خیز نہیں تھے جو شدت اسکی مظفرآبادیابالاکوٹ میں تھی۔ظہرسے قبل ہم دوسرے محلے میں پہنچے جہاں کچھ اراضی خالی تھی تودیکھاکہ زلزلے سے بچ نکلنے والے آس پاس کے تمام محلے والے جزع وفزع کے عالم میں ہم سے پہلے اس اراضی میں پہنچ چکے تھے اورتوبہ واستغفارسب کا ورد کر رہے تھے۔رات ہم نے کھلے آسمان کے نیچے اس عالم میں گزاری کہ دائیں بائیں لاشیں ہی لاشیں تھیں کیونکہ جن لوگوں کے عزیرواقارب پہلے جھٹکے میں جان بحق ہوئے تھے وہ انہیں اس کھلی اورخالی ارضی میں اپنے ساتھ لائے تھے ۔انہیں دفنانے کے لئے قبرستانوں تک پہنچنے کی کسی میں تاب تھی اورنہ قبرستانوں کی طرف جانے والے راستے موجودرہے تھے کیوں سڑکیں پھٹ چکی تھیں اوران پرمکانات آکرگرے تھے۔کفن دستیاب تھانہ ہی جنازہ پڑھانے والے علماء یاائمہ مساجد۔ان میتوں کی لاشوں سے تعفن پھیلااورایک مشکل صورتحال کاسامناتھا۔دوسرے روز ہم اپنے دفترسنٹرل پلیٹ فارم قلعہ مظفرآبادمیں لائے گئے کئی میتوں کاجنازہ پڑھایااورہمارے دفتر کے سامنے ایک خالی جگہ پڑی تھی لوگوں نے اپنے عزیزوں کی میتوں کودفنانے کے لئے اسی میں قبریں کھودیں۔اگلے روزہم نے قریبی قبرستانوں میں جاکردیکھاکہ ایک ہی قبر میں کئی کئی لاشوں کوبغیرجنازہ دفنایاجاتارہا۔غسل یاکفن ممکن ہی نہ تھا۔ ہمارے اس وقت کے ناظم دفترشاکرعلی خان کی اہلیہ اس زلزلے میں اپنے چارماہ کے شیرخواربچے کے ساتھ جاں بحق ہوئیں۔ہمارے اس وقت کے کمپوٹرآپریٹر محمدحنیف اعوان جو آجکل چیف جسٹس آف آزادکشمیرکے پرنسپل سیکریٹری ہیں کی بیٹی کرن بھی اس زلزلے میں شہیدہوئیں۔کرن کاجنازہ پڑھنے والاکوئی دستیاب نہ تھابس نفسی نفسی کے عالم میں سب لگے ہوئے تھے ۔بس قیامت کاعالم تھا۔اب کی صورتحال یہ ہے کہ سانحہ8 اکتوبر2005 میں تباہ ہونے والے شہر پہلے سے کہیں بہتر آباد ہو چکے ہیں، لیکن ان شہروں کے مکین اپنے ان پیاروں کونہیں بھلا پائے ،جو ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہو کر ان قبرستانوں میں آبسے ہیں ۔ آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلے کوآج مکمل 15سال بیت چکے ہیں۔لیکن لوگ رب العالمین کے احکامات پرعمل پیراہونے کے بجائے اپنے رب کوبھول رہے ہیں۔ اس زلزلہ کا مرکز مظفرآباد سے بیس کلومیٹر شمال مشرق میں تھا ۔ نقصان کا تخمینہ تقریبا 124ارب روپے لگایا گیا۔ا سکول، ہسپتال، سڑکیں اور سرکاری دفاتر سب کچھ ڈھیر ہو چکا تھا۔ دنیا میں ہر قوم سانحات اور حادثات کا شکار ہوتی ہے، مگر ان حوادث اور المیوں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہوئے بطورمسلمان ہمیں چاہئے کہ ہم ہروقت اپنے رب سے لولگاکربیٹھیں اس سے اس کے قہراوراسکے عذاب یاپھراسکی طرف سے آنے والی شدید آزامائش سے پناہ مانگیںلیکن ہماراحال بھی شائدپہلی امتوں ہی کی طرح ہوچکاہے ۔اگرچہ اس طرح کاکوئی عذاب اس امت پرنہیں آئے گاجس طرح پچھلی امتوں کوعذابوں کا شکار ہونا پڑا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمانی آفتوں کی صورت میں عذاب الہی کا سلسلہ بالکل منقطع نہیں ہوا بلکہ امت محمدیہ پر آنے والی اس قسم کی آفات کو خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب اور عقاب کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے اللہ تعالی نے یہ وعدہ فرما رکھا ہے کہ پوری امت مجموعی طور پر ایسے کسی عذاب کا شکار نہیں ہوگی۔