اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا مسکن ''داستان سرائے'' بھی بک گیا۔ اسے بکنا ہی تھا، ہم نے پہلے کونسی اہل علم و دانش کی نشانیاں سنبھال رکھی ہوئی ہیں۔ کوئی جانتا ہے کہ مال روڑ اور ہال روڈ لاہور کے سنگھم پر ایک خوبصورت عمارت لکشمی مینشن ہے جسے پلازوں کی بھرمار اور بل بورڈوں کی یلغار چھپائے بیٹھی ہے۔اس بے ہنگم ترقی کے شور میں دبی ہوئی اس عمارت میں کبھی سعادت حسن منٹو رہا کرتا تھا، ایک دنیا آج جس کے افسانوں کی دیوانی ہے، جہاں اردو کے صاحب طرز ادیب مولانا محمد حسین آزاد کا گھر تھا۔اسی عمارت کے ایک فلیٹ میں پاکستان کا درویش صفت سابق وزیراعظم،سابق وزیراعلی پنجاب اور سابق سپیکر قومی اسمبلی ملک معراج خالد رہا کرتا تھا۔ اسی لکشمی مینشن میں قائد اعظم پر لکھی جانے والی عالمی شہرت یافتہ کتاب ''Sole Spokesman'' کی مصنفہ عائشہ جلال رہتی رہی ہے۔ یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ اس ملک میں سفر نامہ نویسی کو بام عروج پر پہنچانے اور ناول کی دنیا میں نئی زندگی بھرنے والا مستنصر حسین تارڑ بھی تو یہیں رہتا تھا۔ کبھی کبھار کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر محمودعلی ملک کے کلینک میں جو اس بلڈنگ میں ہے،جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو ان کے پاس بیٹھ کر صرف نوحہ گری کے اور کوئی موضوع یاد نہیں رہتا۔ لکشمی مینشن کو تو ہال روڈ اور بیڈن روڈ کی معروف کاروباری دنیا کھا گئی۔ ایک ایک فٹ پر لڑنے والے دکانداروں کی ہوس زر نے اسے برباد کر دیا،لیکن اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا گھر ''داستان سرائے'' تو لاہور کی قدیم اشرفیہ اور آج کے دولت مند وں کے علاقے، ماڈل ٹاؤن میں 121-سی تھا۔ مجھے اس نمبر سے اس لیے بھی ایک تعلقِ خاطر ہے کہ جب اشفاق صاحب اور بانو آپا کوئٹہ تشریف لائے تو میرے گھر میں داخل ہوتے ہوئے لگی ہوئی تختی کو دیکھ کر چونک گئے کہ اس پر بھی 121-سی لکھا ہوا تھا۔ لیکن ماڈل ٹاؤن کا 121-سی تو'' داستان سرائے''بھی تھا۔اپنے اندر کئی کہانیاں لئے ہوئے۔قدرت اللہ شہاب جیسے ''مردِ ابریشم '' کے قدموں کے نشان کا امین۔ اگر ماڈل ٹاؤن میں آباد اہل ثروت ہی معمولی سی رقم فی کس جمع کرلیتے تو یہ گھر بکنے سے بچ سکتا تھا۔پاکستان ٹیلی ویژن جس کی آبیاری میں بانو آپا اور اشفاق صاحب کے قلم کی سیاہی اور راتوں کی شب بیداریاں شامل تھیں، وہی ٹیلی ویژن جو عوام سے بجلی کے بلوں پر زبردستی جگا ٹیکس وصول کرتا ہے، اسی ٹیکس کی رقم کے ایک فیصد سے بھی کم خرچ کرکے اس گھر کو بچایا جا سکتا تھا۔ وہ لوگ جو زاویہ سن کر اپنی زندگیاں تبدیل کرتے رہے، وہ سب ہی مل کرہی اسے خرید سکتے تھے۔ لیکن ان سب کے ہوتے ہوئے یہ گھر بک گیا بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھالیا اسکی بلا سے بوم بسے یا ہمُا رہے ہم نے ان ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، اور صاحبان علم کے گھروں کا کرنا بھی کیا ہے۔ انکی دیکھ بھال پر کتنا خرچ آئے گا، کون دے گا۔ اسے لائبریری بنا دیں یا میوزیم۔ لیکن شاید لوگوں کو سن کر حیرت ہو کہ پاکستان بننے کے ٹھیک چھیاسٹھ سال بعد پاکستان کے صرف ایک صوبہ پنجاب میں جب لمبی تگ و دو کے بعد لائبریری کا الگ محکمہ قائم ہوا۔ مجھے بحیثیت پہلے سیکرٹری خدمت کا موقع ملا تو میرے لئے یہ مزید حیرت ناک نہیں عبرتناک بات تھی کہ جب مریدکے کا نوجوان علم دوست ممبر اسمبلی خرم چٹھہ اور میں اس قصبے میں ایک شاندار لائبریری کا آغاز کر رہے تھے تو ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ سرکاری طور پر اس پورے ملک میں چالیس سال بعد کوئی لائبریری بن رہی تھی۔ہے نہ ڈوب مرنے کا مقام۔کیا اس زندہ دلان لاہور میں کوئی جانتا ہے کہ اس شہر کا نوحہ گر ناصر کاظمی کہاں رہتا تھا۔تلاش رزق نے اسکے شاعر بیٹے باصر کاظمی کو مانچسٹر میں لائبریری کا انچارج بنا دیا لیکن لاہور اسے کوئی علم پرور ٹھکانہ نہ دے سکا دل تو میرا اداس ہے ناصر شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے ہر سال فیض ملا منانے والے اور ''جب لال لال لہرائے گا'' گانے والوں کو کیا معلوم ہے کہ اسی ماڈل ٹاؤن میں وہ انقلابی شاعرفیض بھی رہا کرتا تھا جس نے ایک زمانے کو متاثر کیا اور اسی گھر سے اس نے سفر آخرت کا آغاز کیا تھا۔ ''موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے'' لکھنے والا ظہیر کاشمیری بھی تو بڑھاپے میں سرخ قمیض پہنے منٹو والے لکشمی مینشن کے آس پاس نظر آیا کرتا تھا۔ انارکلی کے پڑوس میں چائنیز لنچ ہوم جو حبیب جالب اور انکے طرح دار دوستوں کا ٹھکانہ تھا، جس کے چند قدم کے فاصلے پر پاک ٹی ہاؤس، جہاں شاید ہی کوئی برصغیر پاک و ہند کا ادیب ایسا ہو جس نے وقت نہ گزارا ہو۔ کیا یہ دونوں ٹھکانے آج بھی ویسے ہی آباد ہیں۔اس کے پڑوس میں وائی ایم سی اے ہال کا وہ کمرہ جہاں حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس ہوا کرتے تھے۔ میں نے اپنا پہلا افسانہ ''ایلی! ایلی! لما شبقتنی '' 1973 میں یہیں پڑھا تھا۔ اشفاق احمد صدارت کررہے تھے اور کیا کیا لوگ تھے جو اس محفل میں، میرے لئے اعزاز کا باعث تھے، ڈاکٹر انور سجاد، انتظار حسین، ڈاکٹر سہیل احمد اور ہمارا انتہائی پڑھا لکھا ادیب سراج منیر۔ کوئی جانتا ہے انور سجاد کا کلینک اور گھر کہاں چلا گیا، انتظار حسین کی رہائشگاہ کس حال میں ہے۔ٹوٹ بٹوٹ والے صوفی تبسم کا سنت نگر کس حال میں ہے ۔مریم جمیلہ جو امریکہ چھوڑ کر یہاں آئی اور کیا کچھ تحریر کر گئی۔اس کا سنت نگر والا ڈیڑھ مرلے کا مکان کیسا ہے۔کرشن نگر جو اب اسلام پورہ بن چکا ہے اس میں کیسے کیسے لوگ آباد تھے، کوئی فہرست ہی مرتب کرے تو حیرتوں میں ڈوب جائے۔ کاش احمد بشیر صاحب کی بیٹی بشریٰ انصاری ہی یہ کام کر جائے، یا پھر اللہ کشور ناہید کو یہ ہی توفیق دیکہ اس نے بھی ایک عمر وہاں گزاری ہے۔ لیکن اس کا اپنا خوشحالی کے عالم کا گھر، جو اقبال ٹاؤن میں تھا، جہاں دنیا بھر کا شاعر، ادیب، مصور، اداکار اس کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتا تھا، وہ کس حال میں ہوگا۔ سامنے سے گزرتا ہوں تو ایک ویرانی کا عالم نظر آتا ہے۔ کیا سرمائے کی دوڑ یا جدید دنیا کی بے حسی لوگوں کو ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو برمنگھم سے تھوڑی دور ایوان دریا کے کنارے شیکسپیئر کا چھوٹا سا شہر سٹریٹ فورڈ بالکل ویسے ہی محفوظ نہ ہوتا جیسے وہ اس عظیم ڈرامہ نگار کے زمانے میں تھا۔ آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں آپ کو انکے قدیم گھروں، گلیوں، بازاروں اور عمارتوں پر چھوٹی چھوٹی تختیاں لگی ہوئی نظر آئیں گی کہ یہاں فلاں ادیب، شاعر، مصنف فلاں عرصے رہائش پذیر رہا۔ جو جہاں سے بھی آیا اور جتنی دیر رہا اس کی تاریخ محفوظ ہے۔ برسلز کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑا احاطہ ہے جسے گرینڈ پیلس کہتے ہیں۔ اس کی ایک خوبصورت عمارت کی کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر جب میں نے تصویر بنوائی تو اس میں میرے ساتھ تصویر میں ایک تختی کی تصویر بھی آ گئی جس پر لکھا تھا کہ اس کمرے میں کارل مارکس کچھ عرصہ مقیم رہا اور اس نے مشہور کیمونسٹ مینی فیسٹو یہاں تحریر کیا۔ امجد اسلام امجد ترکی سے ایوارڈ لے کر آیا تو اسکے اعزاز میں منعقد تقریب میں میں نے کہا تھا کہ انہیں ایوارڈ تو ترکی نے دے ہی دیا، کاش ہم گڑھی شاہو میں واقع اس مکان کے باہر ایک ایسی تختی ہی لگا دیتے کہ ''یہ گھر امجد اسلام امجد نے بڑی محنت سے بنایا تھا اور وہ اسکے باہر اپنے نام کی تختی لگا کر اس قدر خوش ہوا تھا کہ اس نے خوبصورت نظم تخلیق کر دی''۔ ان چیزوں کا تعلق سرمائے سے نہیں ہے، ہمارے ذوق جمال سے ہے۔ جو قوم شالامار باغ کے مغلیہ دور کے شاندار ترسیل آب کے نظام کو گرا کر جی ٹی روڈ بنانے، پورے لاہور کو میٹرو کی چھتوں والے پلوں سے بدنما کرنے پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ ایسے رہنماؤں کو ووٹ بھی دے تو پھر ایسی قوم کے ہر ادیب، شاعر، فنکار، صاحب علم، عالم، مبلغ اور کھلاڑی کے گھر کو مسمار کر کے اس پر اورنج ٹرین کی پٹری بچھا دینی چاہیے،پلازے تعمیر کر دینے چاہییں۔ اگر ترقی کا معیار میٹرویا اورنج ٹرین کی پٹریاں ہوتیں تو لندن، پیرس، برلن، روم کے سارے بازار بدنما طریقے سے میٹرو کے پلوں سے چھتے ہوئے ہوتے۔