پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مذہبی علماء کی سیاست اور اِس سیاست کے سماجی و ثقافتی اثرات کو اس انداز سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔مغل بادشاہت کے دَور سے انگریزسرکار کے اقتدار تک ،وہاں سے تقسیمِ ہند اور تخلیقِ پاکستان کے بعد ضیاء الحق کے اقتدار تک اور ضیاء کے دَور سے نائین الیون اور مابعد نائین الیون کے زمانہ تک۔مگرمذہبی سیاست نوآبادیاتی دور سے اہمیت اختیار کرگئی تھی،علماء کو سیاسی جماعتوں کا حصہ بنایا جانے لگاتھاتاکہ مذہبی سوچ رکھنے والے عوام کی مدد حاصل کی جائے۔جو مسلم عوام تھے ،اُن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مسلم لیگ او رکانگریس نے علماء کو اپنے اپنے پلیٹ فارم پر جگہ دی۔ اس کی ایک توجیح یہ بھی دی جاسکتی ہے کہ کانگریس کے قیام سے قبل تک ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی کی قیادت علمائے کرام کررہے تھے لہٰذا اُن کی اہمیت کو نظرانداز کرنا اتنا آسان بھی نہیں تھا۔علماء کی جانب سے بھی سیاسی جماعت بنانے کی کوششیں کی جانے لگیں ،ایسا اُن اختیارات کو دوبارہ حاصل کرنا تھا ،جو انگریزوں کی آمد سے پہلے اِن کے پاس تھے۔علماء سیاست میں عملی طورپر اس لیے حصہ لینا چاہتے تھے کہ برطانوی دَورِ حکومت سے پہلے اِن کے جواختیارات تھے ،اُنہیں دوبارہ حاصل کیا جائے اور اپنی سرگرمیوں کو صرف مذہبی معاملات تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس سے اور آگے بڑھ کر دنیاوی اُمور میں بھی ان کی رہنمائی کی جائے،اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری تھا کہ نئے سیاسی ڈھانچہ میں ،اپنی مذہبی و سیاسی جماعتیں بنائی جائیںاور اس پلیٹ فارم سے اپنے مطالبات کے لیے جدوجہد کی جائے،اسی قسم کی ایک جماعت جوعلماء نے بنائی اس کا نام مجلس معریدالاسلام تھا،جس کے قیام میں فرنگی محل کے علماء پیش پیش تھے اور جس کا مقصد شریعت کا قیام اور مسلمانوں کی ترقی تھا۔اس کے بعد ہی دوسرے مذہبی فرقوں کی جانب سے بھی جماعتیں بننا شروع ہو گئیںکیونکہ ہر فرقہ کے مذہبی عقائد مختلف تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ایک جماعت تمام فرقوں کی نمائندگی کرتے ہوئے مطالبات پیش کرے۔ تاہم ابتدائی زمانے میں ان کا تصور ِ سیاست بہت ہی محدود اور عقیدے کی قید میں تھا(یہ اب بھی ویسا ہی ہے)علماء کو سیاسی تربیت دینے کا کام ،اولین طورپر مولانا ابوالکلام آزاد نے کیا۔وہ علماء کو جدید ذہنوں کا حامل بناناچاہتے تھے ،ایسے جدید ذہن جو تبدیل ہوتے وقت اور زمانے کی نبض کو پہچان سکیں اور اپنا سیاسی کردار ادا کرسکیں۔ہندوستان میں چونکہ مسلمانوں کی معقول تعداد تھی اور یہاں سیاسی تبدیلی لانے کے لیے مسلمانوں کی حمایت کی اشد ضرورت تھی۔مولانا ابوالکلام آزاد کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے علماء کی مدد لی جائے اور ان کا سیاسی کردار بڑھایا جائے۔جب مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تو اُ س میں پڑھا لکھا طبقہ تھا۔اس سے ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ اُس وقت مذہب اور سیاست کو الگ رکھا گیا ۔مذہبی طبقہ کی سیاست برصغیر کی مسلم سیاست میں اُس وقت ضرور ت محسوس ہوئی جب خلافت کی تحریک شروع ہوئی۔یہ تحریک مذہبی بنیاد رکھتی تھی۔اس تحریک کو مؤثر بنانے اور انگریز حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے مذہبی علماء کی حمایت ضروری تھی۔ 1918ء میں مسلم لیگ کے اجلاس میں ڈاکٹر انصاری نے ہندوستان کے سرآوردہ علماء کو دعوت دی کہ وہ اس اجلاس میں شرکت کریںاور خلافت کے مسئلہ پر ایک متحدہ پالیسی کو اختیار کریں۔اس دعوت نے علماء میں ایک نیا جوش اور ولولہ پید اکردیا ،مولانا کفایت اللہ،مولانا عبدالباری ،مولانا احمد سعید اور مولانا آزاد سبحانی نے اس میںشرکت کی۔علماء کے اس تعاون نے سیاسی طبقہ کے اندر اعتماد پید اکردیا تھا لیکن دوسری طرف چودھری خلیق الزماں جیسے سیاست دان پریشان تھے۔ چودھری خلیق الزماں کا خدشہ درست نکلا،تحریکِ خلافت کے دوران برصغیر میں مذہبی علماء اور اِن کی سیاست کی اہمیت بڑھ گئی اور اس عرصہ میں مسلم لیگ کی سیاست پس پشت چلی گئی تھی۔جمعیت علمائے ہندکا قیام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ چودھری خلیق الزماں کا خیال درست تھا۔ تحریکِ خلافت نے پہلی مرتبہ علماء کو اپنی سیاسی اہمیت کا احساس دلایا۔چونکہ اِن کی اہمیت مذہبی تسلیم کی گئی تھی اور اسی اہمیت کے پیشِ نظر اِن کی خدمات لی گئی تھیں،نتیجہ کے طور پر مذہبی سیاست کا آغاز ہوا۔اِن کی سیاسی حیثیت بڑھی تو دائرہ اختیار بھی بڑھااور سماجی سطح پر یہ بڑے کردار کے طورپر خود کو پیش کرنے لگے۔یہ انگریزوں کے خلاف اس لیے بھی ہوگئے کہ اِن کے نزدیک انگریز کسی طور خلافت کو قائم نہیں ہونے دیں گے۔ قیامِ پاکستان کے بعد علما کی سیاست ستر کی دہائی سے شروع ہوگئی تھی۔ضیاء کے دور میں اس سیاست کو نیا موڑ ملا۔نوے کی دہائی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے باری باری اُدھوری حکومتیں کی ،پھر دوہزار دو کے انتخابات میں مذہب سیاست کو خود کو مضبوط کرنے کا موقع ملا۔مگر یہاں کسی مذہبی سیاسی جماعت پر عوام کا اعتماد اُس طرح نہیں قائم ہوسکا،جس طرح کا اعتماد سیاسی جماعتوں کو عوام کا میسر رہا ہے۔ملک کی مذہبی سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس ملک کی فلاح اور عوام کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ عوام کے اعتماد کو حاصل کیا جائے۔دوہزار اَٹھارہ کے عام انتخابات میں تحریکِ لبیک ایک بڑی پارٹی کے طورپر سامنے آئی۔مگر دوہزار اَٹھارہ کے بعد یہ کالعدم کے درجہ پر پہنچ گئی۔اگر کسی دوسری سیاسی جماعت کو اس قدر بڑے پیمانے پر ووٹ پڑا ہوتا تو اس کا سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوشش ضرورکرتی۔پنجاب میں جس قدر کالعدم تحریکِ لبیک نے ووٹ لیا تھا،وہ بہت حیران کن تھا۔اس ملک کی بقا باہمی رواداری اور سیاسی عمل میں ہے۔