یہ جمہوریت ہی کا حُسن ہے کہ بھوکے ننگے عوام دم سادھے انتظار کر رہے ہیں کہ کون جیتے گا؟ نون کہ جنون۔ مولانا کہ عمران۔ مریم کہ بلاول۔ حالانکہ موضوعات یہ ہونے چاہئیں تھے کہ ہم نے اور ہمارے پڑوسیوں نے ایک ہی وقت میں آزادی حاصل کی۔ہمارے ایک حصے نے بہت بعد میں ہم سے علیحدگی اختیار کی ۔وہی حصہ جو جُدا ہوا تو اُس وقت ہم آبادی میں کم تھے۔اب آبادی میں وہ کم ہیں۔بعض معاملوں میں ہمارے پڑوسی بھارت سے بھی آگے۔مگر سیریس باتوں اور بحثوں کا رواج ہمارے ہاں ہے ہی نہیں۔ابھی کل میں پڑھ رہا تھا۔10اپریل1988ء میں اوجڑی کیمپ نامی ایک واقع ہوا تھا۔جس میں حضرت غازی ضیاء الحق کا کابینہ کے ایک اہم وزیر خاقان عباسی بھی ایک میزائل کی زد میں آ کر اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ اس کی رپورٹ کہاں گئی؟کتابوں میں تو یہی لکھا ہے کہ پہلے ایک جنرل صاحب نے ایک رپورٹ بنائی ۔پھر ایک وزیر ہوتے تھے اسلم خٹک صاحب۔میرا خیال ہے وزیرِ داخلہ تھے مگر شیخ رشید صاحب سے بالکل مختلف مزاج کے وزیرِ داخلہ۔اُن کی قیادت میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے ایک کمیٹی بنائی، تحقیقاتی کمیٹی۔اس کمیٹی کی انگلیاں کچھ مقدس ناموں کی طرف اٹھیں تو حکومت ہی فارغ ہو گئی۔ پھر فضا میں ایک طیارے میں آموں کی پیٹیاں پھٹیں تو بہت بڑے بڑے عسکری نام اس حادثے کی زد میں آ گئے یہاں تک کہ صدرِ پاکستان بھی اور امریکی سفیر رافیل بھی۔مگر اس کی رپورٹ بھی بیچاری کہیں کھو گئی۔بے نظیر بھٹو لیاقت باغ راولپنڈی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں مگر آج تک تمام شہر نے دستانے پہنے ہوئے ہیں۔لیاقت علی خان سے گیٹ اُسامہ آپریشن تک ہم اس سب کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم عادی ہیں سطحی باتوں کے۔سوچنے کا رواج ہی نہیں۔ہر حکمران سے فوجی ہو کہ سول نجات پانے کی جلدی ہوتی ہے۔1968ء میں بھٹو صاحب،جنر ل ایوب کے خلاف نجات کی تحریک چلا رہے تھے۔پاکستانی مڈل کلاس بڑی بڑی پگوں اور جُبوں سے نجات کیلئے یکجا ہو گئی۔پھر سوشل ازم کے نام پر مڈل کلاس ایک حکومت کو اقتدار میں لے آئی۔ روٹی کپڑا اور مکان کیا ملنا تھا بات آپ سے پھر تم ہوئی اور پھر"تو"کا عنواں ہو گئی۔ اور پھر مولانا کوثر نیازی کی کتاب کے مطابق "لائن کٹ گئی"۔ تب سے اب تک، جنرل ضیاء سے جنرل مشرف تک اور بے نظیر سے نواز شریف تک ہر بار،بار بار لائن کٹ رہی ہے۔ ہم ٹھہرے پاکستانی ،ہر بار چندھیائی آنکھوں سے نیا لیڈر ،مسیحا اور نجات دہندہ تلاش کرتے ہیں۔ کلاس رومز سے بار رومز تک اور کالموں سے پروگراموں تک یہی بتایا جاتا ہے کہ ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔زرخیزی چیک کرنا تو محکمہ ایگریکلچر کا کام ہے مگر ہر بار پھسل بیچارے عوام جاتے ہیں اور لیڈر بھی۔ سیاسی اُتار چڑھائو ہمارے سابق بھائی بنگلہ دیش میں بھی آئے۔مجیب الرحمن سے مشتاق خُندکر تک اور جنرل ارشاد سے جنرل ضیاء الرحمن تک،مگر وہ سنبھل گئے۔ان کی آبادی،اُن کی شرح خواندگی،اُن کی برآمدات، اُن کی کرنسی،اُن کی خواتین میں ورکنگ کلاس کا تناسب۔۔۔قابلِ رشک بھی ہے اور قابلِ مثال بھی۔مگر ماضی کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان کے ساتھ کوئی آسیبی سا مسئلہ ہے۔ہم نے کبھی سنجیدگی سے جاننے کی کوشش کی ہی نہیں۔ہم آج بھی این اے302اور پی پی307سے ٹکٹ لے کر الیکشن لڑتے ہیں۔ مونچھوں کو تائو دیتے ہیں، ہائی روف ڈالے پر جھنڈا لہراتے ہیںاور طاقت کے ذریعے دولت اور دولت کے ذریعے طاقت کی تلاش میں پورا معاشرہ تہس نہس کر دیتے ہیں۔ نام کس کا لیتے ہیں؟ جمہوریت، مذہب اور عوام۔ مگر حکومت کس کی ہوتی ہے؟ پتہ نہیں۔ کیا ایسی حکومتوں، ایسی باریوں، ایسے انتخابوں، ایسے نظاموں سے بھی کبھی خیر کا جنم ہوا ہے؟تقسیم صرف ایک ہی ہے۔حکمران اور وہ جن پر حکومت کی جاتی ہے۔باقی نام آپ کچھ بھی رکھ سکتے ہیں۔ الیکٹیڈ، سلیکٹیڈ یا بالکل ہی نان الیکٹیڈ۔۔وغیرہ وغیرہ۔ پون صدی اس پُرانی واردات اور وکٹ پر مسلسل کھیل جاری ہے۔ جمہوریت کا چوتھا ستون بھی فروعات میں اُلجھ گیا ہے۔محکوم اور محروم بڑے شوق سے اپنے قاتلوں میں سے کسی ایک کو ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے چُن لیتے ہیں۔گھسی پِٹی بات ہے "چہرے نہیں نظام بدلو"۔جس نے یہ نعرہ بنایا ہو گا وہ بھی اب تک منوں مٹی تل سو چُکا ہو گا۔ایک پنڈت کے مطابق نہ عوام بدل سکتے ہیں نہ حکمران تو جتنی مرضی جمہوریت جمہوریت کھیل لو۔نتیجہ ہمیشہ ایک ہی آئے گا۔آج کی تازہ ترین تھرل کیا ہے؟ کیا عمران کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جائے گی یا نہیں؟کوئی یہ نہیں پوچھ رہا اگر وہ چلا گیا تو بھی اس جمود اور دلدل سے بائیس کروڑ شناختی کارڈ نمبروں کو کیا مسلسل قید سے رہائی مل جائے گی؟ یقینانہیں۔۔ قطعاً نہیں۔ کسی زمانے میں رومن ایمپائر میں رومن اکھاڑے ہوتے تھے۔اُن میں گلیڈی ایٹرز ہوتے تھے۔لوگ بادشاہوں کی وارداتوں کو بھول کر اُن اکھاڑوں میں لڑائی دیکھ کر تالیاں بجاتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔آج کا رومن اکھاڑہ کون سا ہے؟میڈیا اور سوشل میڈیا۔بڑا بڑا عظیم دانشور ہے جو ہیجان کے ایکسیلیٹر پر پائوں رکھ کر ہم سب کے اعصاب سے کھیل رہا ہے۔اللہ کے بندویہ ایک گلوبل کھیل ہے۔دو بلاکس کا۔لکھ چُکا ہوں۔ چین روس اور ایران کا بلاک۔امریکہ، بھارت، سعودیہ اور اسرائیل کا بلاک۔جنگ ہے معاشیات کی، اکنامکس کی۔پاکستان اپنے محلِ وقوع کی وجہ سے سینڈوچ بن گیا ہے۔ایسے میں آئی ایم ایف بھی ہے اور گرے لسٹ بھی۔سی پیک بھی ہے اور بھارت سے تجارت بھی۔کہیں اسرائیل بھی ہے اور کہیں کشمیر بھی۔گردشی قرضہ بھی ہے اور گرتی ہوئی کرنسی بھی۔قرض کی مے بھی ہے اور بڑھتا ہوا امیر غریب کا فاصلہ بھی۔کہیں فائیو اسٹار ہوٹلز میں رش اور کہیں فاقہ زدہ جھگیاں۔سیاست اور امن و امان پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ایسے میں سیاست اور جمہوریت کے راگ الاپنا کارِ لا حاصل ہے۔لگتا ہے جمہوریت نہیں ایک مسلسل انتقام ہے۔میرے ملک کا دانشور اسے آخری حل سمجھتاہے۔ہر شام سُرخی پائوڈر اور مائیک کے ساتھ دانشوری کی دُکان پر ایک سے ایک سقراط اور ارسطو موجود ہے۔ بال ٹو بال کمنٹر ی کا سلسلہ کبھی نہ ختم ہونے کیلئے جاری و ساری ہے۔سنجیدہ باتوںاور بحثوں کارواج ختم۔ چھوڑیے ان فلسفیانہ باتوں کو۔ آئیے گیس لگائیں،یہ تو تحریکِ عدمِ اعتماد ہے،یہ جمہوریت کا مزاج ہے۔ہر پارٹی کا نصاب ہے،شاید یہ سسٹم ہی قصاب ہے۔