نک سک کچھ کچھ دکھائی دینے لگے ہیں، بلکہ سدھرنے لگے ہیں۔ پنجاب کی حد تک تصویر خاصی واضح ہو چکی ہے۔ وزیراعلیٰ جو بھی ہوگا، دیکھا جائے گا مگر دو بنیادی عہدوں پر دو جہاندید سیاستدانوں کی تقرری بہت معنی خیز ہے۔ ایک تو اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ عمران پنجاب کو رواداری میں نہیں لے رہے، وہ اس بڑے صوبے کو تجربات کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتے۔ یہ دو چوہدریوں کے درمیان ایک مضبوط حصار میں ہوگا۔ پرویزالٰہی کا سپیکر بننا اس بات کا اعلان تھا کہ پنجاب کے گھاگ سیاستدانوں سے معاملات کرنے کا کام کسی کھلنڈرے پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ چوہدری صاحب اور ان کے بزرگ پنجاب کی سیاست کا مرکز و محور رہے ہیں۔ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویزالٰہی کا دور تو میں نے کراچی میں گزارا مگر چودھری ظہورالٰہی کی سیاست کا عروج دیکھا ہے۔ وہ کس طرح پوری سیاست کو ساتھ لے کر چلنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ یہ میں جانتا ہوں، خود پرویزالٰہی ایک اچھے منتظم اور پنجاب کی سیاست کے مرکزی کردار کے طور پر نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف چوہدری سرور کو گورنر بنا کر انہوں نے گویا اس قلعے کو مضبوط کیا ہے۔ چوہدری صاحب بھی جہاں پنجاب کی جمہوری سیاست پر گرفت رکھتے ہیں، برادریوں کے جوڑ توڑ کو سمجھتے ہیں، وہاں انہیں انگلستان میں کامیاب سیاست کرنے کا عملی تجربہ ہے۔ دونوں مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی کام کرتے رہے ہیں۔ ایک انگلستان سے آ کر ان کے گورنر بنے تھے تو دوسرے شہبازشریف ہی کی وزارت اعلیٰ میں سپیکر رہے ہیں۔ وہ گویا لیگی سیاست سے بھی واقف ہیں۔ اس وجہ سے شک کرنے والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ ن لیگ کے اندر فارورڈ بلاک بنانے کی ابتدا ہے۔ ایسا ہو نہ ہو، وہ پنجاب کے سیاستدانوں کے لیے اجنبی نہیں جس طرح مثال کے طور پر علیم خان ہو سکتے ہیں۔ پھر خود تحریک انصاف کی سیاست میں عمران خان نے ایک دھڑے کے بہترین آدمی کو چن لیا ہے۔ اب نظریں اس پر ہیں کہ کون وزیراعلیٰ ہو سکتا ہے۔ اس کے آنے کے بعد اندازہ ہو سکے گا کہ وہ کس حد تک آزاد ہوتا ہے یا اسے اپنے ان دو سینئر رہنمائوں کی سرپرستی درکار ہوگی۔ یوں لگتا ہے وہ لوگ جو یہ محسوس کر رہے تھے کہ پنجاب ان کے لیے بالکل اجنبی ہو جائے گا، وہ اب یقین رکھ سکتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ وفاق میں اگرچہ سپیکر کا اعلان اور خیبر پختونخوا میں وزیراعلیٰ کا اعلان یہ بتارہا ہے کہ وہاں بھی معاملات کس طرف جا رہے ہیں مگر ابھی انتظار کرنا چاہیے۔ میں نے انتخابات کے بعد کوشش کی تھی کہ جماعتی سیاست کے معاملات پر قلم روکے رکھوں مگر تازہ اعلان کے بعد کچھ ایسا اطمینان ہوا کہ بولے بغیر نہیں رہ سکا۔ دراصل میرا تعلق اس مکتب فکر سے ہے جو سمجھتا ہے کہ چاہے ان انتخابات کے نتیجے میں کتنی بھی خرابی پیدا ہوتی ہو یہ ضروری ہو گیا ہے کہ معاملات حکومت سلیقے سے چلیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ میں مطمئن ہوگیا ہوں، صرف یہ کہہ رہا ہوں یہ بہتر اقدامات ہیں۔ کوئی اجنبی سا نظام حکومت نہیں آ رہا۔ مجھے جو تشویش ہے، وہ دو باتوں پر ہے۔ ایک اقتصادی، دوسری خارجہ امور کے حوالے سے۔ کئی حوالوں سے یہ ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ہماری نگران وزیر خزانہ نے جو کام دکھائے تھے، وہ صاف بتا رہے تھے کہ وہ قوم کو آئی ایم ایف کی طرف ہانک رہی ہیں۔ حکومت کے لیے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ اسے کشکول اٹھانا پڑے گا۔ اس کے پاس جواز ہوگا کہ خزانہ خالی ہے، گزشتہ حکومت کی اقتصادی پالیسیاں سب کچھ لٹا چکی ہیں۔ اسد عمر نے صاف کہا ہے کہ پہلے چھ ماہ بہت مشکل ہیں۔ میں یہ بھی عرض کر چکا ہوں کہ موجودہ اقتصادی صورتحال کی ذمہ دار سابقہ حکومت نہیں، حالیہ سیاسی بحران ہے۔ ہمارے ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے ایک تجزیے میں کہا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں اس ملک کے دولت مندوں نے سیاسی حالات سے خوف کھا کر دھڑا دھڑ ڈالر باہر منتقل کئے۔ وہ ان دنوں کوئی 15 ارب ڈالر باہر لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہی ان بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے جس نے حالیہ بحران پیدا کیا ہے۔ اب ہم ڈالر مانگتے پھرتے ہیں۔ ہمیں اتنے ہی ڈالر چاہئیں بلکہ اس سے کم جیتنے ہم باہر لے گئے ہیں۔ چین نے دو ارب ڈالر ہمیں منتقل کئے تو ڈالر کی قیمت نیچے آئی۔ اب اسلامی ترقیاتی بینک 4 ارب ڈالر دے رہا ہے۔ یہ کام جانے والی حکومت کر گئی ہے یا ہماری معاشی اسٹیبلشمنٹ نے اس کا بندوبست کر رکھا ہے۔ کچھ بھی کہیے، اس کا بندوبست موجود ہے۔ جو بات تشویشناک ہے، وہ سی پیک کے حوالے سے ہے۔ اسد عمر نے ایک اور نعرہ لگایا ہے کہ وہ سی پیک کو پارلیمنٹ میں لے کر جائیں گے۔ انہیں ایسی باتیں کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔ اسحاق ڈار نے بھی ایسی حرکت کی تھی جب وہ پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحادی کے طور پر بننے والی حکومت میں وزیر خزانہ بننے والے تھے تو انہوں نے کہیں یورپ میں بیان دے ڈالا تھا کہ ہماری سابقہ حکومت اعداد و شمار غلط پیش کرتی رہی ہے۔ ایسا ہی بیان شمشاد اختر نے دے ڈالا ہے۔ وہ تو ایک ایجنڈے کے تحت ہمیں آئی ایم ایف میں لے جانا چاہتی تھی، اسد عمر کو کیا پڑی تھی کہ وہ یہ فرما دیں کہ ہمارے پاس آئی ایم ایف ہی ایک آپشن ہے۔ امریکی پہلے ہی ایسے بیانات کے منتظر تھے۔ فوراً سیاسی بیان آ گیا کہ خبردار یہ قرضہ ہمارے ڈالروں سے دیا جائے گا اور ہوسکتا ہے پاکستان اسے چین کو قرض ادا کرنے کے لیے استعمال کرے۔ اسد عمر بھی ابھی سیاسی فریم آف مائنڈ میں ہیں، ترت جواب دیا، امریکہ بہادر ہمارے چینی قرضے بھول جائے، اپنے چینی قرضوں کی فکر کرے۔ ان کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ امریکی معیشت اس وقت چینی قرضوں پر استوار ہے جو اب شاید ان کے جی ڈی پی سے بھی بڑھ گئے ہیں یا اس کے برابر ہیں۔ یہی کوئی 16 ٹریلین ڈالر۔ بات تو مزیدار کی مگر ہم اس وقت ایسی باتوں کے متحمل نہیں ہوسکتے جب تک اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے جتن نہ کرلیں۔ یہ جو اسد عمر نے سی پیک کو اسمبلی میں لے جانے کی بات کی تو اس کے پیچھے یہ راز ہے کہ چین اور ترکی بھی اپنے غیر ملکی معاہدے اس شرط پر کرتے ہیں کہ وہ خفیہ رکھے جائیں گے۔ پاکستان میں سی پیک کی گارنٹی فوج نے دے رکھی ہے۔ یہ معاہدے اس لیے خفیہ رکھے جاتے ہیں کہ چین نے کئی ممالک سے اس طرح کے معاہدے کر رکھے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی ملک دوسرے کا حوالہ دے کر رعایتیں مانگتا پھرے۔ ہمیں یقین کرلینا چاہیے کہ چین نے پاکستان سے معاملات بہتر شرائط پر کئے ہوں گے۔ حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ میں بھی ان معاہدوں کو کھلم کھلا پیش کرنے سے معذرت کرلی تھی۔ خیال رہے ریاست پاکستان اور اس کا ہر ادارہ اس معاہدے کا ضامن ہے، خاص کر پاک فوج۔ بلکہ فوج کی تو الگ سے ضمانت ہے۔ ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ امریکہ پر ہماری عسکری انحصاری بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہماری خودمختاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی تو ہے۔ سو سمجھ لیجئے کہ یہ جو میں نے اوپر چند باتیں بیان کی ہیں، یہ صرف اقتصادی ہی نہیں، خارجہ اور عسکری امور سے بھی متعلق ہیں۔ اگست کا مہینہ ہماری آزادی کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی اندازہ ہو جائے گا کہ کیا ہونے والا ہے۔ بدقسمتی سے مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی اسمبلی سے باہر ہیں اور یہ بہت خطرناک صورتحال ہے۔ وہ دونوں سمجھتے ہیں کہ انہیں ہرایا گیا ہے۔ وہ غصے میں ہیں اور سخت چڑے ہوئے ہیں۔ فضل الرحمن نے تو اسمبلیوں کے بائیکاٹ کی بات تک کردی تھی، انہیں بھی آپے میں رہنا چاہیے۔ ان اجتماعات میں ان کی موجودگی کی وجہ سے جو نعرے لگ رہے ہیں، وہ تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ مجھ جیسے لوگوں کو تو پہلے ہی ڈر تھا کہ ملک کے حالات جس ڈگر پر لے جائے جا رہے ہیں وہ درست نہیں۔ اس پر قصور موجودہ اپوزیشن ہی کا نہیں، سابقہ اپوزیشن کا بھی ہے اوران قوتوں کا بھی ہے جو اس زمانے کی اپوزیشن کی مدد کرتی رہی ہیں۔ اب تک یہ تاثر ہے کہ آنے والی حکومت اپنی طاقت سے نہیں، کسی کی مدد سے بنی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس سال ہم یوم آزادی نہیں منائیں گے۔ یہ ماضی کی مٹی کو کریدنے کی دعوت دیتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں آپ منایا ہی کب کرتے تھے۔ آپ تو یہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں اور بہت سی باتیں۔ کانگرس علماء کا طعنہ پھر سے زندہ ہورہا ہے۔ اس ملک کے جمہوریت پسندوں نے بڑی مشکل سے خدائی فوجداروں اور کانگرسی پس منظر رکھنے والوں کو مین سٹریم میں شامل کیا تھا۔ لوگوں کو سمجھاتے تھے، ملک بن گیا، اب ان باتوں کو بھول جائو۔ دیکھو، بھارت میں کس طرح سیاسی نقشہ بدل رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ سچ پوچھئے، گاہے گاہے بعض باتیں اب بھی کھٹکتی ہیں مگر مصلحت کے تحت ہی خواہش کی جاتی ہے کہ سب مل کر چلیں۔ غور فرمائیے جس طرح تحریک لبیک والے ابھر کر سامنے آئے ہیں، اس سے کم از کم مذہبی طبقے کو سنبھل جانا چاہیے بلکہ سدھر جانا چاہیے۔ یہ بہت تکلیف دہ بات ہوگی اگر ہم ماضی کی بحثوں میں الجھ جائیں۔ بحثیں بھی وہ جنہیں نظریاتی کہا جاتا ہے۔ اب اس کے ساتھ مسلکی معاملات بھی چلے آئے ہیں۔ خدا کے لیے سمجھئے۔ یہ آپ کے لیے اچھا ہے نہ ملک کے لیے۔ بہرحال، آئندہ دو تین ہفتوں میں نقشہ اور واضح ہو جائے گا۔ ہماری جنگ کسی حکومت سے نہیں ہے، نہ ہمدردیاں کسی اپوزیشن سے ہیں، ہماری اصل پارٹی پاکستان ہے اور ہم پاکستان کے لیے سربکف ہیں۔