لاہور(حنیف خان)محکمہ آبپاشی پنجاب میں اربوں روپے کی مبینہ کرپشن ،بے ضابطگیوں اور پانی چوری میں ملوث افسروں کے کیس نمٹانے میں سیکرٹریز کی تبدیلیاں رکاوٹ بن گئیں اور افسروں کے تبادلوں کے باعث کرپٹ افسروں کے خلاف کارروائیاں ٹھپ ہوکر رہ جاتی ہیں ۔موجودہ دور حکومت میں محکمہ آبپاشی پنجاب کے پہلے سیکرٹری سید علی مرتضی 17اکتوبر2018کوتعینات کئے گئے ، ان کا تبالہ چھ ماہ بعد ہی کردیا گیا ،ان کے بعد 17اپریل 2019کو ڈاکٹر احمد جاوید قاضی کو سیکرٹری محکمہ آبپاشی پنجاب لگایا گیا ان کو بھی تین ماہ بعد ہٹا دیا گیا ۔اس طرح 15جولائی 2019کو سیکرٹری آبپاشی پنجاب سیف انجم کو تعینات کیا ان کا بھی چار ماہ بعد عہدے سے تبادلہ کردیا گیا ۔پنجاب حکومت نے 2018ء میں تعینات ہوکر چھ ماہ بعد ہٹائے جانے والے سیکرٹری سید علی مرتضی کودوبارہ دو دسمبر 2019میں تعینات کردیا ،ان کو پھر ڈیڑھ ماہ بعد ہٹادیا گیا، ان کے بعد 19فروری 2020کو زاہد اختر زمان کو سیکرٹری تعینات کیا جو کہ چار ماہ تک رہ سکے اور ان کی جگہ اب پھر سیکرٹری محکمہ آبپاشی پنجاب سیف انجم کو لگادیا گیا ۔اس اہم محکمہ کے سربراہ کی تبدیلی نے انتظامی معاملات کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ،محکمہ آبپاشی پنجاب میں مبینہ کرپشن ،بے ضابطگیوں اور پانی چوری کے تین درجن سے زائد کیس ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ آبپاشی پنجاب میں قومی خزانے سے کم وبیش 25ارب روپے سے زائد رقم خرچ ہوتی ہے لیکن اس محکمہ کو سخت نظم و ضبط کے ساتھ چلانے کی پالیسی سامنے نہیں آرہی ۔سزا اور جزا کا نظام کمزور ہونے کے باعث بعض بااثر ایکسین اور ایس ڈی اوز ماضی کے عمل میں اب بھی ملوث ہورہے ہیں جس سے محکمہ کو مالی اور انتظامی نقصان پہنچ رہا ہے ۔