کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ ہمارے کالموں میں آئے دن اسلام، اسلام، اسلام کی تکرار دیکھ کے ایک دن اپنے ایڈیٹوریل انچارج جناب توصیف احمد خاں مرحوم پوچھنے لگے: ’’ تمھارے نزدیک ہمارے قومی اور ملکی مسائل کا واحد حل اسلام کا نفاذ ہی ہے؟‘‘ ہم نے فوراً سے بھی پہلے جواب دیا: جی سو فی صد!! جھٹ بولے: ’’کون سا اسلام نافذ کرو گے؟ مولوی فضل الرحمن کا اسلام یا قاضی حسین احمد کا اسلام؟… ساجد میر کا اسلام یا ساجد نقوی کا اسلام؟ … مفتی منیب کا اسلام یا طاہر اشرفی کا اسلام؟… طالبان کا اسلام یا طاہر القادری کا اسلام… سعودی عرب کا اسلام یا ایران کا اسلام؟‘‘ ہم نے سوالات کی اس اچانک یلغار پہ کسی حد تک کھسیانے ہوتے ہوئے کہا: ’’ جناب تھوڑی کوشش کر کے ان سب کو ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھا بھی تو کیا جا سکتا ہے۔ اختلافات تو فروعی ہیں ، بنیاد ی اسلام تو ایک ہے!‘‘ کہنے لگے: ’’تمھارے پیارے جنرل ضیا الحق نے بھی یہی سوچ کر پورے خلوصِ نیت سے سب مکاتبِ فکر کے لوگوں کو بلایا تھا۔ گھنٹوں لمبی چوڑی تقاریر اور بھاشن کے بعد سب لوگوں نے نماز اپنے اپنے امام کے پیچھے ہی پڑھی تھی!! تمھارے شاعرِ مشرق ایسے ہی نہیں کہہ گئے: یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟ دوستو! یہ پرانی بات اس رمضان المبارک میں اس لیے یاد آ گئی کہ ان دنوں مسلمانوں میں اسلامی جذبہ پھر سے جوش مار رہا ہے۔ بہت اچھی بات ہے، اللہ کرے یہ جوش، یہ ولولہ ہمیشہ تازہ رہے۔ ہمارا اپنا یہ مضبوط موقف ہے کہ جس ملک میں بھی ہمارے محسن اعظمﷺ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب ہو، اس کے سفیر کو فوراً سے پہلے ملک سے نکال دینا چاہیے لیکن اس کے ساتھ دل میںیہ خیال بھی انگڑائیاں لینے لگتا ہے کہ ہم اپنے اندر پتھلّا مار کے بیٹھے ملاوٹ، دکھاوے اور جعل سازی کے سفیر کو کب نکالیں گے؟ اپنے باطن کے مستقل رہائشی جھوٹ، فریب اور منافقت کے سفارت کار کو کب ملک بدر کریں گے؟ ناانصافی، لُوٹ مار، فرقہ پرستی اور حد سے بڑھی ہوس کے اتاشیوں کو دیس نکالا دینے کے لیے ڈنڈے لے کر گھر سے کب نکلیں گے؟ دانائے راز نے ہمیں دین کی یہ بنیادی شرط بھی تو یاد کرائی تھی: زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل؟ دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں آج دنیا بھر میں اخلاقیات کے اعداد و شمارسوشل میڈیا کی غلیل میں رکھ کے ہمارے منھ پر مارے جا رہے ہیں۔ کافروں اور مومنوں کے ملکوں میں ہونیوالے عدل و انصاف کے تناسب کے گوشوارے میڈیا کے فریم میں لگا لگا کے ہماری خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ انصاف کے بارے میں تو کسی تیکھے انقلابی کا یہ قول ہمیں راتوں کو آ آ کے ڈراتا ہے، جس نے منھ بھر کے کہا تھا: ہم ایسا انصاف چاہتے ہیں جس میں قاتل اور مقتول کا جنازہ ایک ساتھ اُٹھے!! ہمارے جاپان میں عرصے سے مقیم بعض احباب نے ایک انتہائی مال دار جاپانی کے بارے میں بتایا کہ قرآن کی کچھ آیات اس کے دل میں اس طرح گھر کر گئیں کہ اس نے نہ صرف باقاعدہ عربی زبان سیکھی بلکہ اسی حسنِ عمل کے دوران سچا پکا، ایمانی قرآنی مسلمان ہو گیا۔ ٹوکیو جیسے بڑے شہر میں عظیم الشان مسجد تعمیر کرائی، جہاں ہم ’عادی‘ مسلمان بھی گاہے گاہے جانے لگے۔ وہیںاتفاق سے اس جاپانی نو مسلم کے کچھ ایسے رشتے داروں سے ملاقات ہو گئی جو ابھی اپنے پرانے دھرم پہ قائم تھے۔ ہم نے ایک دن باتوں باتوں میں ان سے دریافت کر لیا کہ آپ کے خاندان کے اک سرکردہ ممبر نے اسلام قبول کر لیا۔ اب آپ کے سامنے کیا رکاوٹ ہے؟ انھوں نے بغیر کوئی لگی لپٹی رکھے جھٹ بتایا:’’ آپ لوگ!!!‘‘… مزید وضاحت میں کہا کہ ہم اپنے قابل بھائی کی باتوں اور تعلیمات سے بہت متاثر ہیں لیکن جب ہم بہت سے اسلامی ملکوں کے اخلاقی، قانونی، تعلیمی، کاروباری حالات دیکھتے ہیں تو دل کھٹا ہو جاتا ہے۔ہمیں پھر حکیم الامت یاد آ گئے: وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود تم وہ مسلم ہو جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود ہماری استقامت کا عالم دیکھیے کہ اقبال ہی کے ایک برطانوی ہم عصر ادیب برنارڈ شا کا تبصرہ ہم نے سو سال بعد بھی پرانا نہیں ہونے دیا، جس نے برملا کہا تھا کہ دنیا کا سب سے بہترین مذہب اسلام ہے اور سب سے بد ترین قوم مسلمان… چلیں ہم ماضی کے غیر مسلمتجزیہ نگاروں کو بھی چھوڑیں،ہمارے آج کے اور اپنے معروف ادیب جناب مستنصر حسین تارڑ فرماتے ہیں: ’’اگر ہمیں موجودہ دور میںاپنی مسلمانی کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنا پڑے تو سوائے ختنہ کے ہمارے پَلّے کچھ بھی نہیں…کوئی مرنے لگے تو ہم سورہ یٰسین لے کے اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں تاکہ اس کی روح آسانی سے نکل جائے۔ ہم نے قرآنِ حکیم سے صرف مرنا ہی سیکھا ہے کاش! اس سے جینا بھی سیکھ لیتے!!!‘‘ اس وقت سوچنے کی بات یہ ہے کہ کہیں ہماری یہی معاشرت کہ جہاں وقار، دبدبے کی ڈگڈگی پر ناچتا ہے اور تہذیب سرِ بازار، زَر کے آگے دُم ہلاتی ہے۔ پھر ہماری رہتل میں جا بہ جا جھلکتی بے عملی، اخلاقی پستی، ژولیدہ فکری، کاسہ لیسی، خوشامدی و سفارشی کلچر، دین کی روح سے دُوری، محض ذاتی مفاد والی سنتوں پہ عمل، قرآن جیسی سرمدی حکمت کو فہم و عمل کی بجائے طاقوں میں سجا کے رکھنے کی خصلتِ بد ہی تو ان بدبختوں کو ہماری معتبر ومکرم ترین ہستیوں کی شان میں گستاخی کا حوصلہ نہیں عطا کر رہی؟ حقیقت یہ ہے کہ لمحۂ موجود میں بیرونی شیاطین سے زیادہ اپنے گریبانوں میں جھانک کے اپنے اندر چھپی طاغوتی خواہشوں کی سرکوبی کی ضرورت ہے۔ ہمارے ایک صحیح معنوں میں مِلّی ہیرو مولانا الطاف حسین حالی نے ہمیں مَت دیتے ہوئے دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کا یہی راستہ دکھایا تھا: حملہ اپنے پہ بھی اِک بعدِ ہزیمت ہے ضرور نظر آتی ہے یہی فتح و ظفر کی صورت