آج اگر بھارت کے مشہور صحافی اور ادیب خشونت سنگھ زندہ ہوتے تو وہ اپنے ناول ’’دلی‘‘ کے دوسرے ایڈیشن میں ایک باب کا اضافہ ضرور کرتے۔ وہ باب دلی کے علاقے کھجوری خاص میں ہونے والے حملوں کے بارے میں ہوتا۔ وہ حملے جو انتہا پسند ہندوؤں نے کیے۔ وہ انتہا پسند ہندو بھارت کی حکمران جماعت کے چہیتے ہیں۔پولیس کو خاص ہدایت ہے کہ ان پر ہلکا ہاتھ رکھا جائے۔ ورنہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ تشدد کی لپیٹ میں آئے ہوئے شہر کے ایک محلے سے ایک مسلمان فون کرکے پولیس سے کہے کہ بلوائی میرے گھر کے دروازہ توڑ رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں لاٹھیاں؛ خنجر اور پیٹرول کی بوتلیں ہیں۔ یہ ہمیں قتل کرکے ہمارے گھروں کو جلادیں گے مگر پولیس چھ گھنٹوں کے بعد پہنچتی ہے ۔ تب تک ایک پرامن اور غریب مسلمان کا گھر مکمل طورپرلٹ چکا ہے اور لوٹنے کے بعد اس کو نظر آتش کیا جا چکا ہے۔دلی میں گھر نہیں جلے بلکہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی امیدیں جل کر خاک ہو چکی ہیں۔ اب وہ کس دل سے اس دلی میں رہیں جس دلی میں کبھی محبت اور بھائی چارے کی عظیم روایات تھیں۔ دلی میں جو کچھ ہ رہا ہے وہ گجرات سے مختلف نہیں ہے۔ گجرات میں بھارتی مسلمانوں کے ساتھ جس ظلم اور بربریت کا مظاہرہ کیا گیا اس کے پیچھے نریندر مودی تھے۔ آج نریندر مودی ملک کے پردھان منتری ہیں۔ آج بھارت میں مسلمان مخالف جو سارا زہر ابھر کر آیا ہے اس کے سبب نریندر مودی ہیں۔ مودی مسلسل ہندوؤں کو انتہاپسندی اور فاشزم کی طرف لے جانے کی کوشش میں مصروف تھا مگر اس کی مخالفت کرنے کے لیے کوئی بھی پارٹی آگے نہیں آئی۔ کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ بھارت کے دارالحکومت میں مسلمانوں کے مال اور جان سے خونی کھیل کھیلا جا رہا ہو اور عام آدمی پارٹی کا وزیر اعلی اروند کیجریوال بے بسی سے دیکھتا رہ جائے؟ وہ وزیر اعلیٰ ہیں۔ دلی میں ان کی حکومت ہے۔ وہ مذہبی شدت پسندی کا مخالف ہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اچھا آدمی ہے۔ کرپشن نہیں کرتا۔ لوگوں کی خدمت میں مصروف رہتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ساری باتیں درست ہیں مگر جن لوگوں کی خدمت کرنے کے وہ دعوے کرتا ہے ان لوگوں میں دلی کے مسلمان شامل کیوں نہیں؟ دلی میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 12 فیصد سے زائد ہیں۔ دلی کے مسلمانوں کے بارے میں عام آدمی پارٹی اچھی طرح جانتی ہے کہ دلی کا مسلمان اس کا ووٹر ہے۔ عام آدمی پارٹی مسلمانوں کو نہ بچاتی کم از کم اپنے ووٹر توبچاتی۔ عام آدمی پارٹی نے دلی کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بھارت کی بڑی اور پرانی پارٹی کانگریس ہے۔ کانگریس کا دعوی ہے کہ اس نے انگریز کے خلاف آزادی کے لیے جدوجہد کی مگر اس کے بعد کانگریس برسوں تک اقتدار میں رہی۔ آج کانگریس حزب اختلاف میں ہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ جمہوریت کا حسن اس میں پوشیدہ ہے کہ ایک اصول پرست پارٹی اقتدار کی لالچ میں نہ آئے مگر یہ کیا ہے کہ کانگریس اپنی پوری طاقت کے ساتھ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کانگریس نے اس وقت بھی کچھ نہیں کیا جب مودی حکومت نے کشمیر کو دنیا کا سب سے بڑا جیل بنا دیا۔ مودی حکومت جب شہریت کے متنازعہ قانون کو آگے لاکر مسلمانوں کے پیروں تلے بھارت کی دھرتی کھینچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس وقت بھی کانگریس خاموش تھی۔ آج بھی کانگریس خاموش ہے، جب دلی میں مسلمان لٹ رہے ہے ۔ مر رہے ہیں۔ ان کے گھر جل رہے ہیں۔ اس صورتحال میں سونیا گاندھی نے صرف ایک بیان دیا ہے کہ امیت شاہ کو مستعفی ہونا چاہئیے۔ کیا یہ عامیانہ سا بیان بھارتی مسلمانوں کا تحفظ کر سکتا ہے؟کیا یہ بیان انہیں تحفظ دلوا سکتا ہے؟سب کو پتہ ہے کہ نہیں۔ پھر اس صورتحال میں بھارت میں بسنے والے مسلمان کہاں جائیں؟ کس سے پوچھیں؟ آج بھارتی مسلمان شدت کے ساتھ محسوس کر رہے ہیں کہ قائد اعظم کا دوقومی نظریہ مکمل طور پر درست تھا۔ تاریخ نے اس پر حالیہ دنوں میں بھی صحیح ہونے کی مہر لگائی ہے۔قائد اعظم نے کانگریس میں رہتے ہوئے محسوس کرلیا تھا کہ ہندوؤں کے دل میں مسلمانوں کے لیے نفرت کی آگ دہک رہی ہے۔ اس آگ کو جب بہی موقعہ ملتا ہے، وہ باہر نکل آتی ہے۔ وہ آگ حالیہ دنوں کے دوران دلی کو اپنے حصار میں لے چکی ہے۔ اس آگ کا ایندھن صرف مسلمان ہیں۔اگر بی بی سی اور دیگر عالمی نیوز ایجنسیز کی رپورٹس کو غور سے دیکھا جائے تو صاف نظر آ رہا کہ یہ دہشت گرد جو ’’جے شری رام کی‘‘ ٹائپ نعرے لگا کر مسلمانوں کے گھروں؛ دوکانوں اور مساجد پر حملے کرتے ہیں۔ ان حملہ آوروں کی مقامی ہندو آبادی والے خفیہ طریقے سے مدد کرتے ہیں۔ اس لیے جب کسی محلے پر حملہ ہوتا تو وہاں پر مسلمانوں کے گھروں اور دوکانوں کو چن چن کر لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اگر مقامی ہندو آبادی چاہے تو وہ اپنے مسلمان پڑوسیوں کو بچانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں مگر وہ بھی بھارتی مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ انہیں بھی بھارتی مسلمانوں کے ساتھ رہنا پسند نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دلی کے شہری علاقوں میں بسنے والے مسلمان اپنے گھر اور کاروبار سستے داموں بیچ کر انہیں دیں اور خود وہاں سے چلے جائیں۔ مودی حکومت کروڑوں مسلمانوں کو غیر ترقی یافتہ علاقوں میں دھکیلنے کے منصوبے پر عمل کر رہی ہے اور اتنی بڑی سازش کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج کی کوئی لہر نہیں ابھری۔ بھارت میں مسلمان مخالف حملے اس وقت شروع ہوئے جس وقت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ وہاں پر موجود تھا۔ آج خشونت سنگھ ہوتے تو اپنے محبوب شاعر سے مخاطب ہوکر لکھتے کہ ’’یہ دھواں بھارت کے مسلمانوں کے دل اور جان سے اٹھتا ہے‘‘