ان تمام پاکستانیوں کو دلی عید مبارک جو اس عید پر بھی اپنے بچوں کو نئے کپڑے اور جوتے خرید کر نہ دیکھ سکے، عید ان لوگوں کو بھی مبارک جنہوں نے ماہ مقدس میں دوسروں کا خیال رکھا،عید یقینا روزہ داروں کی ہوتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں یہ خیال بھی سو فیصد درست ہے کہ عید بچوں کی ہوتی ہے، عام آدمی نے تو صرف گھر والوں کی خوشیوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے چاہے اس نے روزے رکھے ہوں یا نہ رکھے ہوں ، اسے ہرطور عید پر اپنے کنبے کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں اور گھر کی ضرورتیں پوری کرنا ہوتی ہیں، جو نام نہاد سفید پوش اس فرض کی ادائیگی میں ناکام رہتے ہیں ان پر جو گزرتی ہے اسے صاحب حیثیت لوگ محسوس بھی نہیں کر سکتے، بڑے لوگ تو عید پر قصابوں سے پورا پورا بکرا خرید کر فریزر میں رکھ لیتے ہیں کیونکہ ان کے گھروں میں عید کے دنوں میں مہمانوں کی بہت آمد و رفت رہتی ہے،دوسری طرف بے کس لوگ عید الفطر پر بھی گوشت پکانے کیلئے عید الاضحی کا انتظار کرتے ہیں، یہاں تو غریبوں کا یہ حال ہے کہ عید سے چار دن پہلے ایک ہی اسپتال میں ان کے آٹھ نومولود بچے اس بنیاد پر دم توڑ دیتے ہیں کہ ان معصوموں کو 48درجے کی گرمی سے بچانے کیلئے ٹھنڈی ہوا کا کوئی انتظام نہ تھا، کچھ دہائیاں پہلے معاشرے میں جو سانجھ تھی اب وہ ٹوٹ چکی ہے، آج لوگ گلے لگتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے خوفزدہ رہتے ہیں، پہلے ایک دوسرے کو عید مبارک کہنے کا جو شور سنا جاتا تھا وہ بھی مدھم پڑ چکا ہے، گلیوں محلوں میں جو بچے عید کا چاند نظر آنے کے بعد جشن منایا کرتے تھے وہ بھی اب نظر نہیں آتے، ماضی میں یہ ہوتا تھا کہ مفلوک الحال گھرانوں کے بچے عید والے دن لوگوں کے دروازے کھٹکھٹا کر عید مانگا کرتے تھے، اب دنیا بدل چکی ہے پاکستان میں، پوش علاقوں میں نام نہاد لوئر مڈل کلاس گھرانوں کے بچے نئے کپڑے پہن کر گروپوں کی شکل میں عیدی لینے کے لئے گھروں میں بیل دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ، ہم ان حالات کو از خود درست کر سکتے ہیں مگر ہمارے پاس وقت ہے نہ سکت، جن گھروں میں بے حساب پھل آتا ہے ان گھرانوں کی بیگمات کو توفیق نہیں ہوتی کہ اس پھل کا کچھ حصہ گھر کے نوکروں، نوکرانیوں میں ہی تقسیم کردیں، ہم واقعی بے حس معاشرے میں ڈھل چکے ہیں، ہمارے اندر کی انسانیت کو گھن لگ چکی ہے، میں کئی سال سے ان رویوں کا مطالعہ کر رہا ہوں لیکن اب تو اخیر ہی ہوچکی ہے، پاکستان میں غربت اور بے روزگاری کے سوا کچھ بچا ہی نہیں ، ہزاروں، لاکھوں گھر ایسے ہیں جنہیں عورتیں اور بیٹیاں مزدوری کرکے چلا رہی ہیں، ہزاروں لاکھوں بیٹے اعلی تعلیم پانے کے باوجود بیکار بیٹھے ہیں، گھروں میں بیمار ماں باپ اور بیماربچوں کے لئے دوائیاں نہیں ، بیماروں کو اس وقت اسپتالوں میں لیجایا جاتا ہے جب ان کی عمر کی نقدی ختم ہوجاتی ہے، کیونکہ انہیں اسپتالوں میں پہنچانے کے لئے اکثر گھروں میں ایمبولینس کا کرایہ تک نہیں ہوتا اے میرے وطن کے لوگو ! ایک بات پلے باندھ لو ، اس ملک اور اس ملک کے عوام کے مسائل کبھی کوئی حکمران اور کوئی سیاستدان حل نہیں کرے گا، مسائل صرف اور صرف سماج کی سانجھ سے حل ہونگے اور ہم عوام ہیں کہ حکمرانوں سے بھی زیادہ بے رحم ہو چکے ہیں، یہاں سب سے بڑا جرم یہ ہورہا ہے کہ غریب، غریب کا گلہ کاٹ رہا ہے، غریب غریب کی جیب کاٹ رہا ہے عید جب بھی آتی ہے ،میرے لئے ڈھیروں نئی نئی کہانیاں لاتی ہے، مگر اس بار کی عید توبہ، عشرتوں کی یہ نوید توبہ۔۔۔ چھوٹی تنخواہوں اور تھوڑی کمائی والے لوگ اپنے جاننے والوں سے یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ اگر آپ کا کوئی صاحب حیثیت جاننے والا ہے تو اسے امداد و زکوٰۃ کے لئے میرا موبائل نمبر دیدینا، اس سال بچوں کی خوشیاں پوری نہ کرنے پر صرف باپ اور شوہروں نے انفرادی خود کشی ہی نہیں کی، لوگوں نے بیوی بچوں کو قتل کرکے خود کشیاں کیں، گھروں میں لڑائی جھگڑوں کے بعد ایسے سانحات تبھی رونما ہوتے ہیں جب لوگوں کے لئے سارے راستے بند ہوجاتے ہیں، مارکیٹوں میں اس عید پر بھی بیٹیوں کے لئے پانچ پانچ سو روپے مالیت کے ریڈی میڈ کپڑے موجود تھے جنہیں خرید کر ایسے گھروں میں تحفے کے طور پر بھیجا جا سکتا تھا، حکمرانوں کو کیا پتہ کہ جب خوشیوں سے محروم بچے ایسے تہواروں پر راتوں کو سونے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی معصوم آنکھوں سے آنسوؤں کے کتنے دریا بہتے ہیں، اور ہم ہیں کہ بے بسوں کی تصویروں میں آرٹ تلاش کرتے ہیں، جب زندہ تصویریں مرجاتی ہیں تو ان کے عکس لاکھوں میں خرید کر اپنے ڈرائنگ روموں کی زینت بنا لیتے ہیں،پاکستان میں جو کام کرنے بہت ضروری ہیں ان میں ایک تو ہے پیشہ ور بھکاریوں کا مکمل قلع قمع، دوسرا یہ کہ ہم اپنی روزانہ کی کمائی، ہفتے کی کمائی یا ماہانہ آمدن سے کچھ حصہ ناداروں کے لئے رضاکارانہ طور پر مختص کریں، اور اپنے ارد گرد، گلی محلوں میں، علاقوں میں اور اپنے دفاتر یا کام کے مقامات پر لوگوں کا دھیان رکھیں، ایک دوسرے سے ربط بڑھائیں، ایک دوسرے کو دوست بنائیں تاکہ لوگ دل کی بات کر سکیں،ایک دوسرے پر اعتماد کو بڑھاوا دیا جائے، اے لوگو ! آؤ، ہم ایک خاندان، ایک کنبہ بن جائیں، تاکہ ہمیں حکمرانوں اور بالادست طبقات کی جانب دیکھنا ہی نہ پڑے، 70سال سے ظلم کی چکی میں پسنے والے محکوموں نے مڈل کلاسیہ حکومت بنا کر بھی دیکھ لی، پہلی حکومتوں کی طرح اس کے اقرباء پروری کے اسکینڈل باہر آنے لگے ہیں، اس حکومت کی بھی ،،عوام دوستی،، عیاں ہو چکی ہے، عوام سے دو سال مزید صبر کی تلقین کرنے والے دو سال بعد نہ جانے خود کہاں ہوں گے، ؟ ہمیں اگر کوئی توقع رکھنا چاہئیے تو صرف اپنے آپ سے، ہماری تقدیر کوئی اور نہیں بدلے گا، ہر انسان کی تقدیر اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے، اگر بائیس کروڑ عوام اپنی تقدیر خود بدلنے کا فیصلہ آج کر لیں تو اگلے سال کی عید ہم سب کیلئے مساوی خوشیاں لا سکتی ہے، ہم اپنے تہواروں پر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے خوشیوں کے جھومر ڈال سکتے ہیں، ہم اپنی خوشیوں کا اہتمام خود کیسے کر سکتے ہیں، اس حوالے سے ایک چھوٹی سی مثال آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ چار سال پہلے میں ایک بے حس نو دولتئیے کے جال میں پھنس کر ایک سو سے زیادہ افراد کو اپنے ہاتھ سے ملازمتیں دے بیٹھا، جو لوگ جانتے تھے کہ اس سرمایہ دار کا مقصد اپنے کالے دھن کو سفید کرنا ،معاشرے میں اور حکومتی حلقوں تک رسائی اور خود نمائی حاصل کرتا ہے۔ تو متحارب حلقوں نے پروپیگنڈا شروع کر دیا، سب متاثرہ لوگ اندر کی کہانیوں سے ناواقف تھے، اس سارے عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نودولتئیے نے ملازمین کی تنخواہیں بند کر دیں، متاثرین کے بچوں کو فیسوں کی عدم ادائیگی پر اسکولوں سے خارج کیا جانے لگا، کرایہ داروں سے گھر خالی کرا لئے گئے، دکانداروں نے ادھار دینا بند کر دیا، دودھ والوں نے دودھ کی فراہمی بند کردی، ان حالات میں ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کو سہارا دینا شروع کیا، ان حالات میں ہمارے دوست ساتھ آن ملے، سول سوسائٹی متحرک ہوئی، متاثرین کے لئے لوگ دو وقت کا کھانا لانے لگے، جس کی کوئی بھی ضرورت ہوتی ہماری حتی المقدور کوشش ہوتی کہ اسے پورا کیا جائے، انہی حالات میں عید الفطر آگئی، یہ دوستوں، ساتھیوں اور مہربانوں کا اتحاد تھا جس کے نتیجے میں عید پر ہر ایک متاثرہ ملازم کی بیوی بچوں کے لئے نئے لباس بنوائے گئے، ہر بچے بچی کو کھلونے دیے گئے، متاثرین کی فیملیز کو تفریح فراہم کرنے کے لئے ایک بڑے پارک میں لے جایا گیا، ان کے لئے لنچ کا بندوبست کیا گیا، جن کے پاس سواری نہ تھی انہیں گھروں سے لانے اور واپسی کے انتظامات کئے گئے، اس واقعہ نے سبق دیا کہ ہم اگر ہمارا مقصد صرف لوگوں کو غربت اور بے روزگاری کی دلدل سے نکالنا اور انہیں اپنے برابر کھڑا کرنا ہو تو ہمارا ہر دن عیدبن سکتا ہے۔