چیف جسٹس آف پاکستان سردار آصف سعید خان کھوسہ نے 19 جون/16 شوال اُلمکرم کو امام جعفر صادؔق ؑ کے یوم شہادت پر، فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ مجھے وطن عزیز اور خِطّے سے مایوس کُن لیکن صِرف عدلیہ ( Judiciary) ہی سے اچھی خبریں آ رہی ہیں‘‘ ۔ چیف جسٹس صاحب نے مزید کہا کہ ’’ پارلیمنٹ میں شور شرابہ ہوتا ہے ۔ قائدِ ایوان اور قائد ِ حزبِ اختلاف کو بولنے نہیں دِیا جاتا ۔ کرکٹ ہو یا مُعیشت بُری خبریں آ رہی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ’’ مُعیشت "I.C.U" (انتہائی نگہداشت یونٹ) میں ہے، جو اچھی خبر نہیں ہے؟‘‘۔ معزز قارئین!۔ "Depression" (ذہنی دبائو) کے باوجود چیف جسٹس کھوسہ نے ، عوام کو عدلیہ سے اچھی امید دِلائی ہے کہ ’’ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات جلد ختم ہو جائیں گے ، پھر زنجیر عدؔل ہوگی اور جب بھی کوئی (سائل) اُس زنجیر کو ہلائے گا تو ، جج صاحبان فوری طور پر اُس کی داد رسی کرد یں گے ‘‘۔ ہمارے چیف جسٹس صاحب مُغل بادشاہ نُور اُلدّین جہانگیر کے دَور کی ’’ زنجیر عدل‘‘ کی بات کر رہے ہیں ؟۔ لیکن ’’ بدترین جمہوریت‘‘ میں عدلیہ کتنی ہی آزاد اور خُود مختار کیوں نہ ہو وہ، کِس حد تک عدلِ جہانگیری کے تصور کو عام کر سکتی ہے ؟ البتہ اگر قائداعظمؒ کے پاکستان میں ججوں کی حکومت قائم ہو جائے تو اور بات ہے؟۔ ’’ججوں کی حکومت‘‘ معزز قارئین!۔ مَیں نے اپنے 23 جولائی 2017ء کے کالم میں لکھا تھا کہ ۔’’Bible‘‘ کے عہد نامہ عتیق (Old Testament) میں ایک باب ہے۔ ’’Book of Judges‘‘ (قاضیوں کی کتاب) لِکھا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد ’’Joshua‘‘ (حضرت یوشعؑ) سے لے کر ’’Samuel‘‘ (حضرت سموئل ؑ) تک تقریباً چار سو سال تک بنی اسرائیل پر ججوں ( قبائلی بزرگوں ) کی حکومت رہی۔ اُس دَور میں ججوں کے سِوا بنی اسرائیل کا کوئی بادشاہ یا حکمران نہیں تھا۔ 2234 قبل از مسیح بنی اسرائیل نے خواہش کی کہ ’’ قُرب و جوار کی دیگر اقوام کی طرح وہ بھی کسی بادشاہ کے تابع فرمان بن کر رہیں۔ خُدا نے اُن کی یہ آرزو پوری کردِی۔ (جج اور نبی حضرت سموئل ؑنے بِن یامین ؑکی اولاد میں سے ’’Saul‘‘ (حضرت سائول ؑ) کو بادشاہ مقرر کردِیا۔ اُن کے بعد حضرت دائود ؑ۔ حضرت سلیمانؑ اور دوسرے بادشاہ تھے۔ میرے پیارے پاکستان میں عرصۂ دراز سے صِرف ’’Judiciary‘‘ اور ’’Media‘‘ ہی ریاست پاکستان کے دو خیر خواہ ستون ہیں ۔ اگر کوئی ’’Legislature‘‘ اور ’’Executive‘‘ عوام کی بھلائی پر توجہ دیتی تو آج پاکستان میں 60 فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کیوں کر رہے ہوتے؟ کیوں نہ پاکستان کے بھوکے ننگے اور بے گھر لوگ اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگیں کہ’’ یا رب اُلعالمِین! مملکت خدادادِ پاکستان میں ججوں کی حکومت قائم کردے!‘‘۔ ’’عدالتی انقلاب‘‘ 28 جولائی 2017ء کو ( اُن دِنوں ) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے مقرر کردہ سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں ، جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان نے آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت ، وزیراعظم میاں نواز شریف کو صادقؔ اور امینؔ نہ (ہونے ) پر تاحیات نااہل قرار دے دِیا تھا تو، 30 جولائی 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ سلام!۔ ’’ عدالتی انقلاب‘‘۔ تو شروع ہوگیا؟‘‘۔ مَیں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ کیوں نہ ہم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور پنج تن پاک ؑکا بھی ، جن کی شفقت سے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچ جج صاحبان ’’عدالتی انقلاب ‘‘ کے بانِیانِ بن گئے ہیں۔ یقین کیا جانا چاہیے کہ اب ’’عدالتی انقلاب ‘‘ جاری رہے گا ۔ پاکستان میں قومی دولت لوٹنے والا صِرف شریف خاندان ہی نہیں بلکہ آصف زرداری اور اُس قبیل کے اور بھی کئی گروپ ہیں۔ اب عدالتی انقلاب کا ’’Law Roller‘‘ تیز رفتاری سے چلے گا۔ اِنشاء اللہ۔ 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات تک ’’ عدالتی انقلاب‘‘ کا "Law Roller" تیزی سے چلتا رہا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار 17 جنوری 2019ء کو ریٹائر ہوگئے تو، 18 جنوری 2019ء کو سردار آصف سعید خان کھوسہ نے چیف جسٹس کی حیثیت سے چارج سنبھالا ۔ 19 جون 2019ء کو چیف جسٹس کھوسہ کو اپنا منصب سنبھالے 5 ماہ ہوگئے ۔ شیڈول کے مطابق موصوف 20 دسمبر 2019ء کو ریٹائر ہوں گے۔ گویا ابھی آپ کو مزید 6 ماہ تک اپنے فرائض انجام دینا ہوں گے لیکن، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ چیف جسٹس کھوسہ صاحب "Depression" کے بعد ’’عدالتی انقلاب‘‘ کا مستقبل کیا ہے؟۔ معزز قارئین!۔ ’’عدالتی انقلاب ‘‘ سے پہلے مَیں کئی بار اپنے کالموں میں لکھ چکا تھا کہ’’ریاست پاکستان کے چار ’’Pillers ‘‘(ستون) ہیں۔ ’’Legislature‘‘ ( پارلیمنٹ) ’’Executive‘‘ (حکومت) اور ’’Judiciary‘‘ ( جج صاحبان) اور ’’Media‘‘ ( اخبارات اور نشریاتی ادارے) ہیں لیکن ،میرے پیارے پاکستان میں عرصۂ دراز سے صرف ’’ Judiciary‘‘ اور ’’Media‘‘ ہی ریاست پاکستان کے خیر خواہ ستون ہیں۔ اگر کوئی ’’Legislature‘‘ اور ’’Executive‘‘ عوام کی بھلائی پر توجہ دیتی تو آج پاکستان میں 60 فی صد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کیوں کر رہے ہوتے؟۔ کیوں نہ پاکستان کے بھوکے ، ننگے اور بے گھر لوگ اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگیں کہ ’’یا رب اُلعالمِین !۔ مملکت خدا دادِ پاکستان میں ججوں کی حکومت قائم کر دے !‘‘۔ عام انتخابات کے بعد بھی "Legislature" (پارلیمنٹ) اور "Executive" (حکومت)کا چال چلن وہی ہے جو ’’عدالتی انقلاب‘‘ سے پہلے تھا،جب چیف جسٹس آف پاکستان کو وطن عزیز اور خطّے سے مایوس کُن خبریں آ رہی ہیں تو، صِرف"Judiciary"(عدلیہ) کی طرف سے اچھی خبریں آنے پر پاکستان کے 60 فیصد مفلوک اُلحال عوام کب تک، خُوشحال اور با عِزّت زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے ؟۔ چیف جسٹس سردار آصف سعید خان کھوسہ با اختیار شخصیت ہیں ۔ وہ اگر چاہیں تو، اپنے "Depression" میں پارلیمنٹ میں ہونے والے تماشے کے بارے میں اور بھی بہت کچھ کہہ سکتے تھے / ہیں ۔ ؟ کیوں نہ مَیں اپنے قارئین کے ذریعے قوم کی خدمت میں علاّمہ اقبالؒ کی ایک نظم ’’ شاعر ‘‘ کے صِرف دو شعر پیش کروں … قوم گویا جسم ہے ، افراد ہیں اعضائے قوم! منزل صنعت کے راہ پیما ہیں دست و پائے قوم! …O… مبتلائے درد ،کوئی عضو ہو ، روتی ہے آنکھ! کس ِقدر ہمدرد ، سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ! معزز قارئین!۔ بظاہر تو نہیں لیکن، چیف جسٹس صاحب نے (بحیثیت شاعر) مُبتلائے درد قوم کے ساتھ اشک بہانے کی کوشش کی ہے ۔ پاکستان کی دو ناکام ترین پارٹیوں ، ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائدین اکثر کہا کرتے ہیں کہ ’’اگر اشرافیہ ؔنے اپنا روّیہ تبدیل نہ کِیا تو، پاکستان میں ’’خونیں انقلاب ‘‘ آئے گا ؟۔ فرض کِیا اگر اِس طرح کا انقلاب آ بھی جائے تو ، کیا ’’ انقلابِ فرانس‘‘ کی طرح ہوگا کہ ’’جب، فرانس پر (ستمبر1792ء تا اکتوبر 1795ئ) حکومت کرنے والی۔ "Convention"۔ (انقلابی اسمبلی)۔ نے، فرانس کے بادشاہ لوئی شانز دہم(Louis XVI) پر بیرونی ملکوں کے ساتھ سازش اور فرانس سے غدّاری کرنے کا مقدمہ چلا کر، 21جنوری 1797ء کو۔"Guillotine"۔(گلا کاٹ مشین) سے اْس کا سر قلم کر ادیا گیا تھا۔ جب لوئی کو، گلّو ٹین کے پاس لایا گیا تو اْس نے وہاں کھڑے ہجوم سے مخاطب ہو کر کہا تھا۔ ’’میرے عزیز لوگو!۔ مَیں بے گناہی کی سزا پا رہا ہوں‘‘۔ 4اپریل 1979ء کو ،جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو، جنوبی ایشیاء کے لئے بی۔ بی۔ سی کے نمائندہ خصوصی، مارک ٹیلی کی رپورٹ کے مطابق، بھٹو صاحب کے، آخری الفاظ یہ تھے۔ ’’یا اللہ!۔ مَیں بے قصور ہوں!‘‘۔ معزز قارئین!۔ مَیں تو ، چیف جسٹس کھوسہ صاحب کے خطاب کو "Depression" نہیں ، قوم کے غم میں اُن کا نوحہ ؔ قرار دوں گا؟۔