سفید فام امریکی سپاہی کے گھٹنے تلے دم توڑنے والے جارج فلائیڈ نے اپنی سیاہ فام نسل کی حرمت کو دنیا میں ایک مرتبہ پھر ایسا عروج اور مقبولیت عطا کی ہے کہ میرے دیس کے وبازدہ ماحول میں بھی ،ایک نیم خواندہ پینٹر کسی ٹرک کے عقبی پشتے پر جارج فلائیڈ کی تصویر کی پینٹنگ بناتے ہوئے، بڑی محبت اور خوبصورتی سے یہ جملہ تحریر کر رہا تھا ’’ہم کالے ہیں تو کیا ہوا ۔۔۔۔دل والے ہیںـ‘‘۔ ماضی کے اوراق پلٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ رنگ و نسل کی بنیاد پر یہ تفریق ،اور اس تفریق کی بنیاد پر ڈھایا جانے والا ظلم، کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی کی تختیوں پر ایسے لاکھوں نام درج ہیں، جنہیں سفید فاموں کے غرور نے ظلم و جبر کی نذر کیا۔ یہ بات تقریبا سولہویں صدی کی ہے جب گوروں نے افریقہ سے سیاہ فام انسانوں کو غلامی کے لیے امریکہ درآمد کرنا شروع کیا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق تقریبا10 ملین لوگوں کو غلامی کی اِس تجارت کے ذریعے امریکہ لایاگیا، اور سر بازار ان کی خرید و فروخت کی گئی ۔ عام طور پر انہیں کھیتی باڑی اور فصل کی کاشت جیسے کاموں کے لیے خریدا جاتا اورپھر ایسی مشقت اور جبر ان کا مقدر بنتی، جس کی کوئی حد نہ تھی ۔ مالک جب چاہتا غلاموں کو تشدد کا نشانہ بناتا ۔ جب جی میں آتا کسی سیاہ فام کے بچوں کو، کسی سفید فام کے ہاتھوں بیچ کر اس کی گھریلو زندگی کو پامال کردیتا ۔ اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ سفید فام ڈاکٹر اپنے سارے تجربات نیگروز پہ کیا کرتے تھے۔ یہ تجربات بغیربے ہوش کئے، کئے جاتے تھے، کیوں کہ ڈاکٹروں کا یہ خیال تھا کہ سیاہ فاموں کو کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیںہوتی۔ گلے میں غلامی کا طوق ، پائوں میں ظلمتوں کی بیڑیاں اور ہاتھوں میں جبر کی زنجیریں، لیکن یہ سیاہ فام امریکی اپنی پہچان اور شناخت کے لیے مسلسل کوشاںرہے۔ سترھویں اور اٹھارویں صدی میں کچھ سیاہ فام امریکی غلامی سے نجات پانے میں کامیاب ہوئے اور انھوں نے امریکی معاشرے میں اپنی رسائی کو ممکن بنایا۔ انیسویں صدی کے آغاز میں شمالی امریکہ سے غلامی کے خلاف کئی آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں ۔ امریکہ کی تاریخ میں ایک نیا موڑ بیسویں صدی کے نصف میں آیا، جب مارٹن لوتھر کنگ (جونیئر)اور میلکم ایکس جیسے لوگوں کی آوازیں ابھریں، اور سیاہ فام امریکی civil rights کی بالادستی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے دکھائی دئیے، اور اپنے حقوق کے تحفظ میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یوں تو باراک اوباما کا صدر منتخب ہونا ، امریکی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اور امریکہ میں برابری کی ایک منہ بولتی تصویر ہے ، لیکن حال ہی میں ہونے والے واقعہ نے امریکی انسانی حقوق پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ثبت کر دیا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کے بقول: اِک وہ پتھر ہے جو کہلاتا ہے تہذیب سفید اُس کے مرمر میں سیاہ خون جھلک جاتا ہے ایک اور بات بھی اہم ہے کہ گوروں کا اپنے آپ کو ایک افضل قوم سمجھنا ، صرف سیاہ فام انسانوں تک ہی محدود نہیں ہے۔بلکہ یہ ان کے خمیر میں شامل ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق1877 سے 1950کے درمیان تقریبا 4,400سیاہ فام مردوں، عورتوں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ اور دوسری جانب ہمارے سامنے ان ادورا کی مثالیں ہیں ،کہ جب سفید فام طاقت نے برصغیر میں اپنے پنجے گاڑھے اور یہاں کے باسیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان سے غلامی کروائی اور انہیں بربریت کا نشانہ بنایا۔ تاریخ میں ایسے سینکڑوں تلخ واقعات درج ہیں جن سے گوروں کے مظالم کی بو آتی ہے ۔امرتسر کے جلیانوالا باغ میں کیے جانے والا قتل عام بھی اسی کا شاخسانہ تھا، جب1919ء میں انگریز حکومت کے خلاف اس باغ میں ایک پرامن جلسہ جس میں لگ بھگ پانچ ہزارلوگ موجود تھے۔ اِس دوران برٹش کمانڈر جنرل ڈائر اپنے مسلح فوجیوںکے ساتھ باغ کے قریب پہنچا، باغ کے دروازے بند کروا دیئے اور فوجی اپنی بندوقیں تانے ایک قطار میں کھڑے ہوگئے۔ جنرل ڈائر نے ’’فائر‘‘ کہا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ باغ مقتل میں تبدیل ہوگیا۔ ایک اندازے کے مطابق ، تقریباً500 اموات ہوئیں، اور تقریباً 1600 لوگ زخمی حالت میں پائے گئے۔ یہ پڑھ کر خون کھولتا ہے کہ جنرل ڈائر نے جب اپنا بیان ریکارڈ کروایا، تو اس کا یہ کہنا تھا کہ یہ سب کرنے کا فیصلہ اس نے صرف تین سیکنڈ میں کیا ۔ اور اس سے بھی زیادہ تکلیف یہ جان کر ہوتی ہے کہ سزا کے طور پر اسے صرف عہدہ سے برطرف کیا گیا۔ اسی طرح ایک مثال بنگال کے اس قحط کی ہے ، جس میں 30 سے 50 لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔ ہندوستان میں آنے والی دیگر قحط سالیوں کی وجہ ـتجارتی استحصال تھا۔ مورخین کے مطابق بنگال کے قحط کے دوران یہ ہولناک منظر بھی دیکھنے کو ملا کہ اکثر تیار شدہ فصل کے دوران پڑا ہوا گلا سڑا کوئی انسانی ڈھانچہ نظر آجاتا ۔ اس قحط کی بنیادی وجہ بے رحمانہ استحصال اور اس قحط کے دوران بھاری ٹیکسز کو قرار دیا جاتا ہے، جنہیں لوگ بھوک اور افلاس کی حالت میں ادا کرنے سے قاصر تھے ۔ پرانے سیاہ فاموں کے ادب، بالخصوص شاعری کا مطالعہ کیا جائے، تو یہ جاننے کو ملتا ہے کہ دو باتیں ایسی ہیں جو اُن کی شاعری کے ہر شاہکار میں مشترک ہیں۔ پہلی بات تو غلامی کے خلاف سیاہ فاموں کی جدوجہد اور آزادی کے لیے ان کا جذبہ ،جو ان کے رگ و پے میں خون کی طرح دوڑرہا ہے۔ اور دوسرا ان کا اپنے رنگ و نسل پرفخر، اور اپنے اسلاف کی روایت پر فخر۔۔۔جس کا وہ بار ہا اقرار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آج تیسری دنیا کے ممالک کے لیے یہ بہت بڑا سبق ہے۔بالخصوص پاکستان جیسے ملک کے لیے کہ جہاں اپنے اسلا ف کی میراث کو اپنے سر کاتاج سمجھنے کی بجائے ، ان سے محبت کو رجعت پسندی اوردقیانوسیت قرار دے کر، حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، وہاں نیگروز کا سیاہ فامی پر فخر ہمارے لیے ایک مشعل راہ ہے۔