امریکہ کہتا ہے خطے میں امن کا راستہ افغانستان کے اندر سے گزرتا ہے اور پاکستان افغانستان میں امن لانے کیلئے اہم کردار ادا کر سکتا ہے، امریکہ ہمیں بھارت سے دوستی کا درس بھی دیتا ہے، اپنا نصاب پڑھوانے کیلئے وہ اپنے ٹیچرز بھی اسلام آباد بھجواتا رہتا ہے، واشنگٹن کی ایک استانی ایلس ویلز جو نائب وزیر بھی ہیں دو دن پہلے ہی ہمیں سبق پڑھا کر واپس لوٹی ہیں، آج کے کالم کا پہلا حصہ اسی تناظر میں۔ ٭٭٭٭٭ دو دن پہلے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے سامنے انسپکٹر جنرل فرنٹئیر کور میجر جنرل ندیم انجم نے بلوچستان کی صورتحال پر بریفنگ دی، اس بریفنگ کے اہم اہم نکات پڑھنے کا موقع ملا، میرے پورے وجود میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی اور میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اس بریفنگ کو آپ بھی پڑھئیے اور مجھے بتائیے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں یا ہم سب کہاں کھڑے ہیں؟ میجر جنرل ندیم انجم نے قائمہ کمیٹی کے سامنے شکایت کی کہ میڈیا صرف بم اور بارود دکھاتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کامیابیاں حاصل کرتے ہیں انہیں میڈیا میں قوم کے سامنے نہیں لایا جاتا، میجر جنرل ندیم انجم نے پاکستان پرستی کے حوالے سے ایک انتہائی فخریہ بات یہ بتائی کہ ہمارے پاس ایسے ایسے بہادر جوان موجود ہیں کہ جب کسی خاندان کا بڑا بھائی دہشت گردی سے لڑتے ہوئے شہید ہوجاتا ہے تو اس کی جگہ اس کا دوسرا بھائی آ جاتا ہے اگر وہ بھی شہید ہوجائے تو تیسرا بھائی لڑنے کیلئے آ جاتا ہے۔۔۔ کیا شان ہے ایسے گھرانوں کی کہ سب کے سب ملکی وحدت کی جنگ میں گردنیں کٹوا دیتے ہیں۔ (جزاک اللہ) اب ہم آتے ہیں اس بریفنگ کے انتہائی حساس حصوں کی جانب، ان حصوں کو پڑھ کر مجھے گمان ہوا کہ کیا ہم ابھی تک انیس سو اکہتر میں ٹھہرے ہوئے ہیں یا 1971ء ہمارے وجودوں کے اندر رک گیا ہے؟ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریف کرتے ہوئے میجر جنرل ندیم انجم کہہ رہے تھے کہ دشمن پاکستان کو یمن اور لیبیا جیسی صورتحال میں دھکیلنا چاہتا ہے بلوچستان میں چار بڑی علیحدگی پسند تنظیموں نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے، ان جماعتوں میں ، بی آر اے ، بی ایل اے ، بی ایل ایف اور لشکر بلوچستان کے نام بتائے گئے ،انسپکٹر جنرل فرنٹئیر کور نے انکشاف کیا کہ لشکر بلوچستان کی سربراہی ایک سیاستدان کا سگا بھائی کر رہا ہے۔ ہماری موجودہ حکومت جن مانگی ہوئی چار اینٹوں پر کھڑی ہے اس میں وہ سیاستدان بھی شامل ہے ۔ اللہ اللہ واہ بھئی جمہوریت واہ۔۔اس بریفنگ کے دوران بولا گیا ایک اور جملہ بھی بہت ہی زیادہ اہم ہے ،، بلوچستان گلوبل گریٹ گیم کا میدان جنگ ہے۔۔۔ یہ ہے پاکستان کیخلاف بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کا پاکستان کے خلاف خطرناک گٹھ جوڑ۔۔۔ پاکستان کے دشمنوں کا ناپاک منصوبہ یہ ہے کہ بلوچستان میں تشدد کو بڑھاوا دیا جائے اور اسے ایک الگ ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھارا جائے، اس میں کوئی شبہ نہیں بھارت نے ہمیں روز اول سے ہی تسلیم نہیں کیا،1971ء میں اس نے پاکستان کے ابتر سیاسی حالات کا فائدہ اٹھایا اور آج بھی پاکستان کے جو سیاسی حالات ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ سب سیاستدان اور ارکان پارلیمنٹ اس سنگین صورتحال سے ناواقف ہیں جو روزانہ اسمبلیوں کے اندر ریچھ اور بندر کا تماشہ لگاتے ہیں، ہم آج سیاست کے اس المیہ کا سامنا کر رہے ہیں جہاں کسی کی عزت محفوظ نہیں، پنجاب اسمبلی میں تو کرسیاں میزیں تک کباڑ خانہ بنا دی گئیں، سندھ اسمبلی کے اندر جو کچھ آئے روز ہوتا ہے، کیا عوام نے ان منتخب نمائدوں کو ان کاموں کیلئے منتخب کیا تھا؟ جہاں قانون سازی ہونی چاہئیے وہاں بکرا منڈی لگی ہوتی ہے ، جہاں عوام کے حقوق اور مادر وطن کے تحفظ کی بات ہونی چاہئیے وہاں ایک دوسرے کے باپ دادا کو گالیاں دی جا رہی ہیں، کیا پاکستان کے تین صوبوں کی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے کسی اجلاس میں کسی عوامی اور قومی نمائندے کو توفیق ہوئی کہ وہ کہتا، آؤ! ایک ہوجاؤ، ہمیں ملک بچانا ہے ،ہمیں اپنی وحدت برقرار رکھنا ہے، آدھی صدی کی پارلیمانی تاریخ کا تو میں خود گواہ ہوں ، یہاں کوئی نہیں جاننا چاہتا کہ ہمارا پاکستان کن کن مشکلات میں گھرا ہوا ہے، سیاست محض کاروبار بن چکی ہے، حکومت اور ریاست کی رٹ کھلے عام چیلنج کی جا چکی ہے، ہم نے بہت تگ و دو کرکے بارہ ارب ڈالر تو ادائیگیوں کے لئے جمع کر لئے ہیں لیکن پاکستان نے صرف غیر ملکی ادائیگیاں کرکے آگے نہیں بڑھانا، ہم سب سے بڑے مقروض تو خود اپنے پاکستان کے ہیں جو ہمیں 71سال سے پال رہا ہے اور ہم پاکستان کو کچھ واپس لوٹانے کے قابل ہی نہیں ہیں، ہمارے قومی ایشوز ہیں کیا؟ اس مضمون کو سب سے پہلے ہمیں اپنے قائدین کو پڑھانا ہوگا، جو قومیں اپنے بنیادی مسائل سے ہی ناواقف ہوتی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ پچھلے کالم میں آپ سے اپنے ایک دوست سے ملوایا تھا آج بھی تذکرہ دوستوں کا۔ میں اسے ایک دن کا دوست توکہہ سکتا ہوں مگر اسے مرتے دم تک کبھی فراموش نہیں کر سکتا ،نام تھا اس کا عاصم ، تخلص صحرائی، گورنمنٹ کالج لاہور میں نفسیات کا طالبعلم تھا، شاعری بھی کرتا تھا،بہت زبردست نظریات تھے اسکے، عاصم صحرائی کا تعلق کسی دوسرے شہر کے عام سے گھرانے سے تھا، وہ اپنے عزم کی بدولت گورنمنٹ کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوا تھا مجھے ملوایا اس سے محمد علی چراغ نے ،میں نے محمد علی چراغ کو بتایا کہ آج میری سالگرہ ہے، اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ پھر آج تو جشن ہوگا۔ میں نے کہا، خالی جیب جشن ؟ اس نے جواب دیا ، عاصم صحرائی کے گھر چلتے ہیں۔ ہم وہاں پہنچے تو عاصم گھر پر ہی تھا، گرمجوشی سے ملا، چراغ نے اسے بتایا کہ آج میرے دوست خاور کی سالگرہ ہے، عاصم بولا ،، تم لوگ بیٹھو، میں ابھی کیک لے کر آتا ہوں۔ اس کے جانے کے بعد میں اور چراغ باتوں میں مگن ہو گئے، ہم عاصم کے کمرے میں دو بجے دوپہر پہنچے تھے، شام کے پانچ بج گئے ، عاصم واپس لوٹ کر نہ آیا، ہمیں اس کی فکر لاحق ہوئی، اب ایک ایک منٹ، ایک ایک لمحہ بھاری ہونے لگا ہماری بھوک اور کیک کا انتظار ختم ہو چکا تھا، اس کی آمد سے پہلے وہاں سے جانا بھی نہیں چاہتے تھے، گھر کی مالکہ سے بات کی تو اس نے بتایا کہ گھر کے قریب ہی بیکری ہے، اگر وہ کیک لینے گیا تھا تو اسے پانچ دس منٹ میں واپس لوٹ آنا چاہئیے تھا، بالآخر وہ واپس آگیا، رات سات بجے سے زیادہ وقت ہو چکا تھا، اس کے ہاتھوں میں، کیک بسکٹ اور دوسرا سامان تھا، وہ اتنے گھنٹے کہاں رہا؟ وہ بولا،،،جیب میں کوئی پیسہ نہ تھا، میں گنگارام اسپتال خون بیچنے چلا گیا، میری باری آتے آتے تین گھنٹے وہیں گزر گئے یہ تھا عاصم صحرائی جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج کے شعبہ نفسیات میں پہلے پروفیسر پھر ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ رہا، گریڈ 20میں اس کی ریٹائرمنٹ ہوئی، وہ اس وقت پیرا سائیکالوجی کا پاکستان میں واحد ڈاکٹریٹ ہے، بہت بار سوچا اس سے ملنے کا لیکن دوسری ملاقات ہو ہی نہ سکی ،اللہ اس کی عمر دراز کرے۔۔