1مستعفی ہونے سے پہلے جنرل صاحبزادہ یعقوب نے طویل خط لکھا جس میں بتایا گیا تھا مشرقی پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کے بعد سے صورتحال تبدیل ہوکر شمشیر بے نیام مارشل لا کی کارروائی تک پہنچ چکی ہے۔ اس مقصد کے لئے ہم کسی سیاسی جماعت یا چھوٹے سے چھوٹے گروہ کی حمایت حاصل نہیں کر پائیں گے۔ محض سنگینوں سے مشرقی پاکستاْن پر حکمرانی ممکن نہیں ہوگی بنگالی سول انتظامیہ/ ایجنسیز بشمول پولیس اور سول انٹیلی جنس پر بھی انحصار ممکن نہیں رہے گا جن کے تعاون کے بغیر ہم محض اندھیرے میں تیر چلا رہے ہوں گے۔ یہ بات دیگر محکموں پر بھی صادق آتی ہے جس میں تمام ضروری خدمات کی فراہمی کے ادارے شامل ہیں۔ 2بنگالی قوم پرستی کی لہر اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ایسٹ پاکستان رائفلز (ای پی آر) میں بے چینی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ایسٹ بنگال رجمنٹ (ای بی آر) یونٹس بنگال نیشنل سکاؤئٹس (بی این ایس) اور مشرقی پاکستان کے عمومی ملازمین کے نظم وضبط اور وفاداری کو ایسی صورتحال میں سخت ترین امتحان میں ڈالنے کے مترادف ہوگا کسی معمولی سانحہ کا نتیجہ بڑے بحران کی صورت نکل سکتا ہے۔ 3اگرچہ فساد کا مرکز بڑے شہر ہوں گے۔ عوامی لیگ (اے ایل) کے کارکن دیہی علاقوں میں بھی چلے گئے ہیں اور مفصل (دیہی) علاقوں میں بھی گڑ بڑ ہو سکتی ہے۔ نکسل اس صورتحال کا پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 4)سرحد پر بھارت کے ساتھ کشیدگی کی موجودہ صورتحال میں فوج کی تعیناتی (ڈیپلائمنٹ) میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 5)غالب امکان ہے کہ بھارت فسادیوں کی کھل کر مدد کرے گا۔ 6)اہداف کے حصول کے لئے دستوں کی کمی کی بناء پر غیرمعمولی سخت اقدامات کرنا ہوں گے جن کا لازمی نتیجہ خونریزی کی صورت نکلے گا۔ 7)بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، انٹیلی جنس اور عمومی انتطام (جنرل ایڈمنسٹریشن) کے لئے ہمیں کلی طور پر مشرقی پاکستانیوں پر انحصار کرنا پڑے گا جن کا موجودہ صورتحال میں تعاون نہ ہونے کے برابر ہوگا اور پھر یہ چند افراد غدار قرار پائیں گے۔ 8)تمام پہلوؤں کی روشنی میں وحشت ناک اقدامات سے صورتحال اتنی خراب ہو سکتی کہ امن وامان قابو میں رکھنے کے لئے مغربی پاکستان سے کمک درکار ہوگی جس کی فراہمی بہت مشکل ہو گی۔ 9)اصل نکتہ موجودہ گمبھیر حالات میں ہماری استعداد کار نہیں،اصل بات یہ ہے کہ ہمارا اگلا قدم کیا ہونا چاہئے؟ فوجی آپریشن کی صورت میں درحقیقت ہم ایک قابض فوج بن کر رہ جائیں گے۔ معمولی سی سیاسی حمایت کے بغیر کیا محض طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے امریکہ شمالی ویتنام میں امن سے رہ سکاتھا خواہ اس کے لئے سات کروڑ عوام کو محصور رکھنا پڑے؟ یہ کربھی لیں تو بھی ہم ناکام ہوں گے۔ طاقت اور تلوار کے ذریعے اتحاد قائم رکھنے کی کوشش خود کو تباہ کرنے کا نسخہ ہے 10)میری دانست میں گزشتہ روز اجلاس میں زیرغور آنے والے آپشن یعنی موجودہ بحران اور تعطل مارشل لاء کی ننگی تلوار سے حل کرنے کا ہمارا اقدام ایسی صورتحال پر پیدا کردے گا جس کا میں اوپر پہلے ہی بیان کرچکا ہوں۔ 11)سوال یہ ہے کہ کیا اس سے صورتحال بہتر ہوگی یا مزید خراب ہو جائے گی۔ اس کا یہ حل ہے کہ: اے)بڑی جماعتوں کی حاضری یقینی بنانے میں ناکامی ہوجائے؟ تواسمبلی کے اجلاس کے انعقاد کی تاریخ ملتوی کردی جائے۔ بی)اسمبلی کی جانب سے ناقابل قبول آئین کی منظوری کے بعد لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کا نفاذ عمل میں آئے ان اقدامات کے نتیجے میں جاری انتشار میں اضافہ ہو سکتا ہے بدترین نتائج نکل سکتے ہیں لیکن ہمیں اطمینان قلب ہوگا کہ ہم نے فوجی کارروائی سے پہلے حالات کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے حتی المقدور کوشش کی کیونکہ فوجی ایکشن کا یقینی نتیجہ سقوط مشرقی پاکستان ہوگا، اور اگر ہم بحرانی صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو ہمیں مالی وسائل کا بڑا بہاؤ مشرقی پاکستان کی جانب کرنا ہوگا جو سیاسی قوت اور ’’آزادی‘ کا نعم البدل ہرگز نہیں ہوگا۔ بیسیویں صدی کے آخری کوارٹر (تیس سال) میں کیا ہم نوآبادیاتی کردار اپنانے کی قوت رکھتے ہیں؟ 13)بنیادی اخذکردہ نتیجہ یہ ہے کہ جمہوریت متعارف کرنے میں جس حد تک موجودہ حکومتی انتظام کیا جا سکتا تھا، کیاجا چکا ہے۔ پاکستان کی سالمیت کے لئے دونوں بازوؤں میں دانائی کی روش اپنانا ہوگی۔ سیاسی لیڈروں کو جس بھی درجہ میں ہوسکے، ان اقدامات اور اس کے نتائج کی ذمہ داری لینے دیں یا اس میں حصہ دار بنائیں۔ 14۔لہذا میری بنیادی تجاویز یہ ہیں۔اے۔ جب تک ناگزیر نہ ہو، ہمیں خرابی میں اضافہ نہیں کرنا چاہئے اور یہ اقدام ہماری جانب سے نہیں ہونا چاہئے۔ بی۔ واضح رہنا چاہئے کہ صورتحال میں خرابی ہی اصل سیاسی مقصد ہے جس کے لئے ہمیں اکسایا جا رہا ہے۔ سی۔ مزید وقت حاصل کرنے کی خاطر ہمیں دونوں بازوؤں کے قائدین کو بتانا چاہئے کہ وہ کس سمت بڑھ رہے ہیں۔ ڈی۔مغربی پاکستان کے رہنماؤں کو ذہن نشین کرنا ہوگا کہ سیاسی اور اقتصادی سالمیت کی کیا قیمت انہیں ادا کرنا ہوگی۔ ای۔ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم ان کی ناکامی کی ذمہ داری انہیں کی کاندھوں پر ڈالیں یا بدترین صورت میں، ایسے فیصلوں میں مغربی پاکستان کے رہنماؤں کوحصہ دار بنائیں جن کے نتائج انتہائی ناموافق اور کدورت پر مبنی حالات کے تحت علیحدگی کی صورت میں نکلیں گے۔(ختم شد)