میں سوچ رہا ہوں کہ دنیا کے کتنے ملک ہیں جہاں آزادی کا مفہوم ہم سے مختلف ہے، امریکہ جہاں 90فیصد لڑکیاں بلوغت سے قبل جنسی عمل سے گزر جاتی ہیں، جہاں صرف معذور عورتیں ہی پورا لباس پہنتی ہیں، جہاں بے شمار جوڑے ناجائز تعلقات کو شادی پر فوقیت دیتے ہیں، جہاں صرف 10فیصد نوجوان والدین سے پوچھ کر شادی کرتے ہیں اور جہاں سگی بیٹیوں پر مجرمانہ حملوں کے ہزاروں کیس درج ہوتے ہیں، وہ امریکہ اپنے صدر کی ایک جنسی بھول کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ میں نے یہی سوال اس وقت ایک امریکی سے پوچھا تھا، جب امریکہ کے ایک مقبول صدر بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی افیئر کے بڑے چرچے تھے اس معزز سفارتکار نے بڑی سنجیدگی سے کہا اس لئے کہ وہ ہمارا لیڈر ہوتا ہے۔ایک امریکی گردن تک جرم گناہ اور بدعنوانی میں کیوں نہ ڈوبا ہو لیکن جب اپنے لیڈر کا انتخاب کرے گا تو ایک صاف ستھرے اور ایماندار شخص کا انتخاب کرے گا۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے، جب سی این این پر کلنٹن کا اترا ہوا چہرہ اور کمپیئر کو بار بار کہتے دیکھا کہ جیسٹر فلاور کے ساتھ جنسی تعلقات کے اعتراف کے بعد کلنٹن کی صدارت بچتی نظر نہیں آتی۔اسی لمحے مجھے چھ ماہ پہلے کی وہ شام بھی یاد آ گئی، جب پائولا مارتھر گردن جھٹک جھٹک کر کہہ رہی تھی ’’امریکہ میں کسی بددیانت‘ بداخلاق اور جنسی گراوٹ کے شکار سیاستدان کے لئے گنجائش نہیں، ہم نے نکسن کو برداشت نہیں کیا، یہ تو چھوٹا سا کلنٹن ہے‘‘۔مجھے یاد ہے اس وقت سوچ رہا تھا کہ کلنٹن اگر امریکہ کے بجائے پاکستان کا سربراہ ہوتا تو کیا اس انکشاف کے بعد بھی اس کا مستقبل تاریک ہوتا تو میرے شعور نے جواب دیا تھا ’’نہیں‘‘ پھر میں اپنے معاشرے میں حکمرانوں کی اس میرٹ اور ڈی میرٹ پر نظر ڈالتا رہا کہ جب سے اب تک اور وہاں سے یہاں تک حکمران اور صاحب اختیار شخصیات پر نظر ڈالتا ہوں، تو اتنے قصے کہانیاں ہیں کہ پوری کتاب لکھنی پڑے گی۔ان واقعات پر بہت سی کتابیں لکھی بھی جا چکی ہیں، آج جب میں اپنے بااختیار لوگوں کی آڈیوز اور ویڈیو دیکھتا ہوں۔تو مجھے حیرانگی اس بات کی نہیں ہوتی کہ یہ صاحبان آخر کیا کر رہے ہیں۔حیرت اس بات کی ہوتی ہے کہ جب ان میں سے کوئی ریاست مدینہ قائم کرنے کا دعویدار ہے اور کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کا مبلغ بنا ہوا ہے اس ملک میں تو نجانے کون کون آیا اور کیا کیا کر گیا۔آغاجی اس قسم کے قصے کہانیوں کے ایسے کردار ہیں جن کی لوگ عموماً مثالیں دیتے ہیں یہ اس ملک پر 1969ء سے 1971ء تک پورے کروفر سے حکومت کرتے رہے۔جن کی ’’پائولا‘‘ کو لوگوں نے جنرل کا رینک لگا دیا جن کے حرم میں جب نوور کی بارش ہوتی تھی یا محبت کے ترانے دستک دیتے تھے تو فوراً تخلیہ کر دیا جاتا تھا، جب دشمن پر حملے کا حکم دینے نکلے تو دو جوانوں نے انہیں دائیں بائیں سے اٹھا رکھا تھا اور وہ اٹیک کا نعرہ لگا کر پیچھے گر گئے تھے، جو پشاور میں ننگ دھڑنگ باہر آ گئے تھے جنہوں نے درجنوں سربراہان کی موجودگی میں مانٹی کارلو کی شہزادی کے بازو پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا تھا اور جنہوں نے بے شمار لوگوں کے سامنے گملے کو بیت الخلاء کا درجہ دیدیا تھا۔ ہاں کرہ ارض پر یہی جمہوریہ ہے جہاں کسی پائولا کے الزام کے کسی مونیکا اور جینیفر کے اعتراض پر اقتدار کا کوئی بت پگھلتا ہے نہ کسی دامن پر چھینٹا پڑتا ہے اور نہ ہی کسی پگڑی کا بل کھلتا ہے کہ یہی ہے وہ مقام جہاں اقتدار اور اخلاقی گراوٹ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ ستار العیوب ہے۔قرآنی آیات اور حیات مبارکہؐ کے حوالے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم قومی معاملات اور سیاسی معاملات پر دوٹوک اور ڈٹ کر گفتگو کر سکتے ہیں لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں کے ذاتی معاملات میں کوئی ایسی بات نہ کریں، جس سے کسی کی کردار کشی کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے کسی بھی آئینی قانونی اور اخلاقی ضابطے اور اصول کے مطابق حکمران اور بااختیار لوگوں کو اپنے عوام کے سامنے جوابدہ بنایا گیا ہے، ہر قوم خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب ‘ معاشرت اور تمدن سے ہو ،اپنے لئے ایک باکردار اور با اخلاق حکمران کی خواہش ضرور رکھتی ہے، اگر ہم اپنے ملک میں آج کے حالات پر نظر ڈالیں جہاں ہم اقتدار کی کھینچا تانی میں ایک دوسرے کے کردار کے بخیے ادھیڑنے سے باز نہیں آ رہے، یہاں تک کہ اس کے لئے آڈیوز اور ویڈیوز کی بھرمار ہو گئی ہے۔ ہمارے صاحب اقتدار اور صاحب اختیار لوگ ذرا دِل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں خواہ وہ اقتدار کی میز کے اس طرف ہوں یا اُس طرف کہ انہوں نے ایک دوسرے کی کردار کشی کرنے میں کوئی کسر اٹھا رکھی۔ یہ نہیں کہ دوسرے فریق نے یہ نہیں کیا سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور خود اقتدار تک پہنچنے کے لئے جائز اور ناجائز سارے حربے استعمال کرتے رہے۔کسی پر تشدد ہوا۔کسی کے گھر پر چھاپے پڑے۔کہیں پمفلٹ گرائے گئے کہیں ایپڈو کا فارمولا چلا‘ کہیں غداری کے مقدمات بنائے گئے‘ جس کا جہاں بس چلا۔وہ کر گزرا۔اب کیونکہ میڈیا بہت موثر اور برق رفتار ہے اس لئے غلط یا صحیح ایک دوسرے کے خلاف ہرزہ سرائی اور پروپیگنڈہ کے تمام حربے استعمال ہو رہے ہیں۔لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔کہ ہم سب کی یہ خواہش ضرور ہے کہ ہمیں ایسے حکمران میسر آ جائیں جو باکردار بھی ہوں اور اپنی رعایا کے دکھ درد کا احساس بھی کرتے ہوں۔ہمارے تمام حکمران‘ سیاستدان اور با اختیار لوگ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ انہوں نے کس طرح قوم کی تعمیر کی۔ انہوں نے کون سا نیا نظام دیا۔انہوں نے کس سسٹم کی اصلاح کی نہ انصاف دلایا نہ تعلیم نہ صحت نہ عزت نہ طبقاتی تفریق ختم کی اور نہ ہی معاشی عدل قائم کیا۔اس لئے آپ دلفریب نعرے لگا کر باری باری اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کا کھیل رچا سکتے ہیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ تاریخ آپ سب کو ایسے حکمرانوں کے طور پر یاد رکھے قدرت نے جن کو لوگوں کا مقدر بدلنے کا موقع دیا لیکن وہ اپنے قول و فعل کے تضادات سے نہ نکل سکے۔تاریخ کا کڑوا سچ یہ ہے کہ تاریخ صرف اور صرف ان قبروں پر رُکتی ہے جہاں انسانوں کی نجات دہندہ سوئے ہوتے ہیں۔