کوئی حکومت جب بھی میڈیا کے بارے میں کوئی قانون بنانا چاہتی ہے تو یہ ایک متنازعہ امر بن جاتا ہے۔ آجکل ایسا ہی شور مچاہُوا ہے۔ وفاقی حکومت نے ملک میں ہر قسم کے میڈیا کواصول و ضوابط اور ضابطۂ اخلاق کا پابند بنانے کیلیے ایک نیا قانون تجویز کیا ہے۔ اس مجوزہ قانون کے تحت بنایا گیا ایک سرکاری ادارہ اخبارات‘ رسائل‘ ٹیلی ویژن چینل اور ڈجیٹل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کو ایک ضابطۂ اخلاق کا پابند بناسکے گا جبکہ خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دے سکے گا۔ نئے ریگولیٹری ادارہ کا نام پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی تجویز کیا گیا ہے۔ میڈیا اداروں اور صحافیوں کی نمائندہ تنظیمیں اور انسانی حقوق کے غیر سرکاری ادارے اس مجوزہ قانون کی شدید مخالفت کررہے ہیں۔مجوزہ قانون کو آئین کے منافی‘ کالا قانون قرار دے رہے ہیں جو آزادیٔ اظہار کو کچل دے گا۔ صحافیوں کی ملک گیر یونین پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے اعلان کیا ہے کہ جب صدر مملکت عارف علوی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے تو اسکے ارکان پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاج کریں گے۔ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات میں حکومتی تجویز کردہ قانون کے خلاف اشتہارات کی مہم چلائی جارہی ہے۔ دانشور اور عام شہری خاصے عر صہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا کو کسی ضابطۂ اخلاق کا پابند بنایا جائے۔ اسکی آزادی قومی سلامتی کے تقاضوں اور معاشرہ کی اخلاقی روایات سے ہم آہنگ ہونی چاہئے۔ میڈیا کے کسی حصّہ کو جھوٹی خبریں‘ افواہیں پھیلانے‘مبالغہ آرائی‘ سننی خیزی‘ لوگوں کی کردار کشی کرنے اور بلیک میل کرکے مال بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ میڈیا کا ایک حصّہ خاصا ذمّہ دار‘ معتبر ہے اور عمومی طور پر بڑی خرابیوں سے پاک ہے ۔ تاہم گزشتہ بیس بائیس برسوں میں میڈیا کا منظر نامہ بہت تیزی سے تبدیل ہوا ہے جس سے نئے مسائل نے جنم لیا ہے۔دو دہائی پہلے ایک سرکاری ٹیلی ویژن چینل تھا ۔ اب درجنوں نیوز چینل اور تفریحی چینل ہیں۔ گھر گھر کیبل کنکشن سے غیرملکی چینل دیکھے جارہے ہیں۔ ملکی نیوز چینلوں میں اشتہارات لینے کی غرض سے ریٹنگ کی دوڑ ہے۔ زیادہ ریٹنگ حاصل کرنے کے جنون میں سنسنی خیز ی پھیلائی جاتی ہے۔مبالغہ آمیزی کی جاتی ہے۔حکومت نے اس رُجحان کو کنٹرول کرنے کیلئے 2002 میںپاکستان الیکٹرانک ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کا قانون نافذ کیا تھا۔ یہ ادارہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ ٹیلی ویژن چینلوں کو ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی پرتنبیہہ ‘ جرمانے کرے ۔ کسی حد تک یہ مؤثر بھی ثابت ہوا ہے۔اسی طرح اخبارات و رسائل کے خلاف شکایات سننے کے لیے پریس کونسل آف پاکستان کا ادارہ موجود ہے۔ تاہم موجودہ حکومت نے تین برسوں سے اسکا سربراہ مقرر نہیں کیا۔ گزشتہ ایک دہائی سے ڈیجیٹل اور سماجی میڈیا کی روز افزوں مقبولیت سے نئے چیلنجز سامنے آئے ہیں۔ ٹویٹر‘فیس بُک‘ ٹک ٹاک ‘ انسٹاگرام وغیرہ کوپاکستان میں باقی دنیا کی طرح کروڑوںلوگ استعمال کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا کو کسی ضابطۂ اخلاق کا پابند بنانے کیلیے کوئی قانون نہیں ہے۔پانچ برس پہلے گزشتہ حکومت کے دور میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ بنایاگیا تھا۔اسکے تحت سماجی میڈیا کے خلاف کچھ نہ کچھ کاروائی کی جاسکتی ہے۔ مقدمے بھی چلتے ہیںلیکن فی الحال قانون کے تحت ڈیجیٹل میڈیا قائم کرنے کیلیے کسی لائسنس وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔سوشل میڈیا کے بارے میں دفاع اور سلامتی کے ماہرین کے بہت تحفظات ہیں۔دنیا کے کئی ممالک میںسامراجی طاقتوں نے سماجی میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے ریاستوں کے خلاف بغاوت کو ہوا دی اور شورش و فساد برپا کروایا جس سے بہت تباہی مچی۔ شام ‘ لیبیا وغیرہ اسکی بڑی مثالیں ہیں۔ آزادیٔ اظہار کے نام پر ملکوں کو عدم استحکام سے دوچار کرنا عالمی سامراج کا پرانا طریقہ کار ہے۔ چونکہ پاکستان اب مغربی طاقتوں کا حلیف نہیں ہے اور چین کا قریبی اتحادی بن چکا ہے اسلیے پاکستان میںبھی سوشل میڈیا کے ذریعے ریاستی اداروں کے خلاف گاہے بگاہے مہم چلائی جاتی ہے۔ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اسکے بارے میں ایک عام شکایت یہ بھی ہے کہ اسکے ذریعے بے ہودگی‘ عریانی اور فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے جسے روکنے کے لیے موجودہ قانون مؤثرنہیں ہے۔ اسی لیے حکومت نے پاکستان میڈیا ڈویلپمینٹ اتھارٹی کے نام سے نیا قانون لانے کی تجویز پیش کی ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی وفاقی کابینہ اس کو منظور کرلے گی اور یہ مسودہ ٔقانون تمام تر مخالفت کے باوجود پارلیمان سے پاس کروانے کے لیے پیش کردیا جائے گا۔ حکومت نے جو نیا قانون تجویز کیا ہے اسکے تحت پرنٹ(اخبارات و رسائل)‘ الیکٹرانک (ٹیلی ویژن چینلز) اور ڈیجیٹل (سماجی ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز) کے لیے پہلے سے موجود تمام قوانین کوختم کرکے ایک قانون کے دائرہ میںلایا جائے گا۔ ہر قسم کے میڈیا ادارہ کو چلانے والے ادارہ اور تصدیق شدہ صحافی کو حکومت سے لائسنس لینا پڑے گا یعنی یوٹیوب چینل چلانے والے صحافیوں اور اداروں کو بھی اتھارٹی سے اجازت لینا پڑے گی۔ عام شہری اس سے مستثنیٰ ہونگے۔ میڈیا کے ادارے اور ویب سائٹس اسوقت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں اشتہارات چلا کر جو آمدن کما رہے ہیںوہ بھی ٹیکس کے دائرے میں آجائے گی۔ اس قانون کی ایک شق یہ ہے کہ لائسنس لینے والوں کو ہر سال اپنے لائسنس کی تجدید کروانا ہوگی۔ صحافی تنظیمیں اور میڈیا ادارے سمجھتے ہیں کہ حکومت لائسنس کی تجدید کے نام پرمیڈیا کو اپنی مرضی کے تابع کرنا ‘ کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ لائسنس تجدید کی تلوار انکے سر پر لٹکتی رہے گی جو ایک سینسرشپ کا کام کرے گی۔ اگر حکومت کی منشا یہ نہیں ہے تو وہ اس شق میں نرمی کردے۔ لائسنس کی تجدید کیلیے ہر سال کی بجائے پانچ سال کا وقت مقرر کردے۔ ہر سال لائسنس کی تجدید کے قانون سے میڈیا کی صنعت بے یقینی کی صورتحال سے دوچار ہوجائے گی۔ اس شعبہ میں نئی سرمایہ کاری رُک جائے گی۔مجوزہ قانون میں مثبت شقیں بھی ہیں جیسے اسکے تحت میڈیا کمپلینٹ (شکایات) کونسلیں قائم کی جائیں گی ۔ یہ کونسلیںہر قسم کے میڈیا کے خلاف عام شہریوں کی شکایات سُن کر فیصلہ کریں گی۔ ڈیجیٹل‘ سوشل میڈیا کو کسی ضابطۂ اخلاق کا پابند بنایا جانا ضروری ہے۔ لیکن حکومت نے اس کام کے دائرے کو زیادہ پھیلا دیا ہے اور مجوزہ قانون میں ڈیجیٹل کے ساتھ ساتھ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی ایک ہی قانون کے تحت لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پیچیدگی پیدا ہوئی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے تو پہلے سے قوانین موجود ہیں جنہیں معمولی ترامیم کے ساتھ زیادہ کارگر بنایا جاسکتا ہے۔ اگر فی الوقت حکومت صرف ڈیجیٹل‘ سوشل میڈیا پر نیا قانون بنادے تو اسکی قبولیت بڑھ جائے گی۔ قومی سلامتی اور آزادیٔ اظہار کے تقاضوں کے درمیان ایک توازن قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔