کس قدر خوبصورت حدیث ہے جسے امام ترمذی نے ’’کتاب الفتن‘‘ یعنی اس زمانے کے بارے میں احادیث کے باب میں درج کیا ہے، جب قیامت سے قبل دنیا بھر میں فتنے پھیل جائیں گے۔ تقریباً تمام بڑی احادیث کی کتب میں اس دور کے حوالے سے علیحدہ باب باندھے گئے ہیں۔ امام بخاریؒ نے اس حدیث کو اپنی کتاب ’’صحیح بخاری‘‘ میں تین بار مختلف ابواب میں درج کیا ہے۔ یہ حدیث حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے، جنہوں نے بچپن ہی سے رسول اکرم ﷺ کے گھر میں تربیت پائی۔ اسے اُم المومنین سیدہ عائشہؓ نے بھی روایت کیا ہے اور اسناد کے حوالے سے یہ حدیث حسن صحیح کا درجہ رکھتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام اعتبار سے یہ حدیث کسی بھی شک و شبہ سے بالا تر صحیح حدیث ہے۔ یہ خوبصورت حدیث آج کے دور میں مسلمانوں کے لیئے ایک رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے اور زمین پر بسنے والے دیگر مذاہب، یہاں تک کہ سیکولر افراد کے لیے بھی معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی اصلاح کے لیے مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہے۔حدیث یوں ہے، ’’نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم‘‘۔ صحابہ ؓ نے پوچھا، ’’اللہ کے رسول! میں نے مظلوم ہونے کی صورت میں تو اس کی مدد کی، لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کیسے کروں‘‘؟ آپؐ نے فرمایا:’’اسے ظلم سے باز رکھو، اس کے لیے یہی تمہاری مدد ہے‘‘۔ اس حدیث کو دنیا کے ہر ایوان کے دروازے پر جلّی حروف میں لکھا جانا چاہیے اور آئین و قانون کے ہر مسودے کے صفحہ اوّل پر اسے رہنما اصول کے طور پر درج کیا جانا چاہیے۔ سید الانبیاء ﷺ نے اس حدیثِ مبارکہ میں ظالم و مظلوم دونوں کو بھائی کہا ہے۔ یعنی دونوں برابر مدد کے مستحق ہیں۔ دونوں کو حالات و واقعات کی آفات سے نکالنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ لیکن آج کی دنیا میں صرف مظلوم کی مدد کرنے کو عظیم سمجھا جاتا ہے، مگر ظالم کو ظلم سے روکنے کو ہمیشہ متنازع بنایا جاتا رہا ہے۔ مظلوم کی مدد کرنا، اس کی داد رسی کرنا، اس کو انصاف لے کر دینا، یہ سب تو دنیا کے تمام معاشروں میں کسی نہ کسی طور پر ایک مسلسل عمل کے طور پر جاری ہے۔ لاتعداد سیاسی، سماجی اور معاشرتی گروہ ایسے ہیں جو ظالم سے ٹکرائیں یا نہ ٹکرائیں مگر مظلوموں کی مدد ضرور کرتے رہتے ہیں۔ ان گروہوں کی یہ امداد عین ظلم و تشدد کے عالم میں اور شدید جنگ و قتال کی کیفیات میں بھی جاری رہتی ہے۔ جنگ سے متاثرہ افراد کی مدد کرنے والی سب سے قدیم تنظیم ’’ریڈ کراس‘‘ ہر اس علاقے میں اپنے ہسپتال کھولتی ہے، ایمبولینس سروس قائم کرتی ہے جہاں جنگ ہو رہی ہو۔ یوں تو یہ تنظیم 1863ء میں قائم ہو گئی تھی ،لیکن یہ سوئٹزلینڈ کے صرف چند قصبوں تک محدود تھی۔ 1914ء میں جب پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی تو اس تنظیم نے محدود وسائل کی وجہ سے صرف جنگی قیدیوں کو مدد فراہم کرنا شروع کی۔ اس کا سب سے بڑا کام یہ تھا وہ ان فوجیوں کا جو جیلوں میں قید تھے، ان کے اہل ِ خانہ سے رابطہ کرواتی تھی۔جنگ عظیم اوّل کے بعد 1919ء میں ریڈ کراس نے عالمی سطح پر اپنے کام کو آگے بڑھایا اور جنگِ عظیم دوم کے آنے تک یہ خاصی بڑی تنظیم بن گئی مگر پھر بھی یہ صرف ہولوکوسٹ کے دوران ان یہودی قیدیوں تک ہی اپنی توجہ قائم رکھ سکی، جو عقوبت خانوں (Concentration Camp)میں ظلم کا نشانہ بن رہے تھے۔ دونوں جنگوں میں مظلوموں کی بے پناہ مدد کرنے والی تو بیشمار تنظیمیں وجود میں آئیں، لیکن کوئی ایک تنظیم یا گروہ ایسا نہ ابھر سکا جو ان عالمی طاقتوں کے ظلم کے مقابلے میں کھڑا ہو کر ان جنونی حکمرانوں کی اس طرح مدد کرے کہ انہیں بزور جنگ سے روک سکے۔ گذشتہ ایک صدی سے دنیا بھر میں ظالموں کا ظلم اور مظلوموں کی مدد دونوں شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ عالمی جنگیں ہوں یا علاقائی جنگیں، کروڑوں لوگ لقمۂ اجل بنے، کروڑوں زخمی ہوئے اور کروڑوں بے گھر ہوگئے۔ان تمام جنگوں کے دوران دنیا بھر کی لاتعداد رفاحی انجمنیں مسلسل زخمیوں کی امداد اور بے گھروں کو سہارا فراہم کرتی رہیں۔ اسی طرح دنیا کے لاتعداد ملکوں میں حکمرانوں نے اپنے شہریوں پر ظلم شروع کیے، اندرونی خلفشار اور قتل و غارت کی وجہ سے لوگ مرنا شروع ہوئے، اپنا ملک چھوڑ کر ہجرت کرنے لگے تو ایسے میں اقوامِ متحدہ کے ’’ادارہ بحالی مہاجرین‘‘ سے لے کر دیگر کئی عالمی این جی اوز تک سب نے ان مظلوموں کی مدد شروع کردی۔ ویت نام، افغانستان، عراق، شام، مصر اور یمن جیسے ممالک میں آگ و خون کا کھیل کھیلا جاتا رہا۔ ملکوں کے اندر جبر و استبداد اور سیاسی مخالفت کی وجہ سے قتل و غارت ہوتا رہا اور زخمیوں، بیماروں اور بے گھروں کی مدد بھی ساتھ ساتھ جاری رہی۔ پاکستان کا شہر کراچی تین دہائیوں تک میدانِ جنگ بنا رہا اور اس دوران لاشیں اٹھانے والے، انہیں کفن پہنانے والے سب موجود تھے۔ایدھی کا چہرہ اسی دور میں پاکستان میں مظلوموں کی مدد کا چہرہ بن کر ابھراتھا۔ مظلوموں کی مدد کرنے والی عالمی تنظیمیں ہوں یا علاقائی انجمنیں، انہیں دنیا بھر میں کام کرنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ ایسی تنظیموں کی ہر جگہ رجسٹریشن ہو جاتی ہے اور انہیں ہر طرح کا چندہ اکٹھا کرنے، دفاتر بنانے، ہسپتال اور کیمپ قائم کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ سب سے بڑے ظلم کی بات یہ ہے کہ ان عالمی یا علاقائی تنظیموں کو وہی حکمران فنڈ دے رہے ہوتے ہیں جو دنیا بھر میں قتل وغارت کا بازار گرم کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی عراق اور افغانستان میں لاکھوں لوگوں کو قتل بھی کرتے ہیں اور جنگ کے مظلوموں کی مدد کرنے والی تنظیموں کو سرمایہ بھی ۔عراق، افغانستان، شام، لیبیا اور یمن میں کام کرنے والی یہ تمام فلاحی تنظیمیں امریکہ اور اسکے حواری ممالک کی فنڈنگ سے آج بھی زخمیوں، بیماروں اور بے گھروں کا علاج کر رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے گذشتہ ایک صدی سے ظالموں اور مظلوموں کی مدد کرنے والوں کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ ہو چکا ہے کہ ہم ظلم کرتے چلے جائیں گے اور اگر تم ہمیں چیلنج نہیں کروگے تو ہم تمہیں کسی زخمی بیمار اور بے گھر کی مدد سے بھی نہیں روکیں گے۔ اس کے مقابلے میں ہر وہ تنظیم جو مظلوموں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ ظالموں کو چیلنج بھی کرتی ہے، اسے کسی ملک میں کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ ظالم کو ظلم سے روک کر اس کی مدد کرنا اور ساتھ ہی مظلوموں کی مدد کرنا یہ ہیں اصل اور بنیادی کام اور آج کے دورِ فتن کا سب سے بڑا چیلنج بھی یہی دو کام ہیں۔ جس تنظیم نے یہ دونوں کام برابر جاری رکھے، اسے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ مصر کی اخوان المسلمون ہو یا فلسطین کی حماس، اس عبرت کے نشان کی اہم علامتیں ہیں۔ بیشمار ایمبولنسیں صحرائے سینا میں رفاہ کے بارڈر پر کھڑی ہوتی ہیں ۔ غزہ میں اسرائیل کی بمباری کے زخمی لاتعداد سرنگوں کے ذریعے حماس کے لوگ وہاں ان ایمبولینسوں کے پاس چھوڑ جاتے ہیں اور وہ ایمبولنسیں انہیں مصر کے ہسپتالوں میں علاج کے لیے لے جاتی ہیں۔ لیکن حماس کو خود اپنے زخمی بھی ہسپتالوں تک لے جانے کی بھی اجازت نہیں ۔عالمی سکہ رائج الوقت یہ ہے کہ جو بھی تنظیم صرف اور صرف مظلوم کی مدد کا نعرہ لے کر اٹھے گی اس کی مدد ظالم حکومتیں بھی کریں گی، لیکن جو تنظیم بھی ظالموں کے خلاف اس لیے اٹھے کہ وہ اسے ظلم سے روک سکے، تو ایسی کوئی بھی تنظیم آج کی عالمی لغت میں ’’دہشت گرد‘‘ کہلائے گی، دنیا کے امن کے لیے خطرہ تصور ہوگی اور ایسی لسٹوں میں شامل کر دی جائے گی کہ جن پر عالمی برادری پابندی لگاتی ہے۔ کشمیر سے لیبیا، روہنگیا سے فلسطین، شام سے افغانستان، عالمی برادری آپ کو زخمیوں کے زخموں پر پٹی لگانے اور میتوں کو دفن کرنے کی اجازت تو دیتی ہے لیکن آپ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ آپ عالمی طاقتوں کے گریبان پر ہاتھ ڈال سکیں، ان کے توپ خانے خاموش کر سکیں۔