ڈنمارک کے ایک اخبار نے 2005میں جب پہلی بار توہین آمیز خاکے شائع کئے تو مسلم دنیا میں خاصا اضطراب پھیل گیا تھا۔ گو کہ فرانس کی موجودہ حکومت کی طرح ہی ڈنمارک نے بھی ان دنوں اظہار آزادی رائے کا حوالہ دیکر اعتراضات کو مسترد کردیا، مگر اسلامی دنیا کے سخت رد عمل اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کے عملاً اقتصادی تعلقات کو ڈاون گریڈ کر نے سے، کوپن ہیگن کی حکومت نے مسلم ممالک میں کئی وفود بھیجے اور سنجیدگی کے ساتھ اس ایشو پر غور و خوض کرنا شروع کردیا۔ اسی دوران ایک دن نئی دہلی میں مقیم ڈنمارک کے سفیر نے ایک تقریب کے دوران مجھے بتایا کہ ان کے وزیر ممکت برائے کلچر اور ڈینش کلچرا نسٹییٹوٹ کے سربراہ کسی کانفرنس میں شرکت کرنے کیلئے سعودی عرب کے راستے بھارت آرہے ہیں اور وہ کسی مسلم فیملی کے ساتھ کچھ وقت گذارنا چاہتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں مدد چاہتے تھے۔ میں نے پہلے دہلی میں کئی معزز افراد ، جن میں دو یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز میں شامل تھے، اس وفد کی میزبانی کرنے کے درخواست کی، مگر مختلف وجوہات کی وجہ سے کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ آخر میں نے خود ہی میزبانی کی پیشکش کی، مگر میں نے سفیر کو بتایا کہ میں ایک مڈل کلاس علاقے میں رہتا ہوں، جہا ں کی گلیوں سے کسی بڑی گاڑی کا گذر مشکل ہوگا اور پارکنگ بھی مسئلہ بن سکتا ہے۔ اگر ان کے ساتھ سکیورٹی ہوئی، تو اور بھی مسئلہ پیدا ہوگا۔ سفیر نے مسئلہ کا حل نکال کر بتایا کہ ایک تو وہ خود نہیں آئینگے اور پھر بتایا کہ میں خود ہی اپنی گاڑی میں تاج محل ہوٹل سے ان کو لیکر جاوٗں ، تاکہ سفارت خانے کی بڑی گاڑیاں استعمال کرنے کی نوبت ہی نہ آجائے۔ ان کیساتھ گفتگو کیلئے میں نے ڈاکٹرظفرالاسلام اور ڈاکٹر قاسم رسول الیاس اور چند دیگر رفقا کو بھی مدعو کیا۔ ڈنر کے دوران دونوں ڈاکٹر صاحبان کی مدبرانہ، عالمانہ اور پر اثر گفتگو نے وہ کام کیا ، جو ہزاروں احتجاج نہیں کرپائے تھے۔ جب میں واپس ان کو ہوٹل چھوڑنے جارہا تھا، ڈینش وز یرکہہ رہے تھے، کہ پہلی بار کسی نے ان کے ساتھ اس قدر کھل کر مدبرانہ گفتگو کی ہے اور پہلی بار ہی ان کو خاکوں پر مسلمانوں کے اس قدر شدید رد عمل کے عوامل کا احساس ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام نے کس قدر خوبصورتی کے ساتھ مغرب میں اظہار آزادی رائے کے دوہرے پیمانوں کا ذکر کیا، اور ادراک کروایا کس طرح اسکو صرف مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور گلوبلائزڈ دنیا میں اس کے کس قدر خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اظہار آزادی رائے کے دوہرے پیمانے اگر نہ ہوتے، تو یورپی ممالک میں 1998سے 2019تک 22مصنفین، سیاسی کارکنان اور آرٹسٹوں کو قید اور جرمانے کی سزائیں نہ دی جاتی، جو جنگ عظیم دوم کے دوران یہودیوں کے قتل عام یا ہولو کاسٹ کی نفی کرتے ہیں۔ اس قتل عام کے بعد متاثرین میں انسانی حقوق اور زندگی کے تئیں احترام سرایت کرناچاہئے تھا۔ مگر جنگ عظیم کے بس چند برس بعد ہی یہودیوں نے فلسطینی عوام کے حقوق پر شب خون مار کر وہی وطیرہ اختیار کیا، جو جرمنی، پولینڈ اور دیگر مغربی ممالک میں ان کے ساتھ اختیار کیا گیا تھا۔ پچھلے 73سالوں سے فلسطینیوں کو زندگی اور زندگی کے لوازمات سے محروم کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں مغرب میں جن افراد نے ان یہودیوں کو تختہ مشق بنایا ،ان کا اگلا نشانہ اب اسلام اور مسلمان ہیں۔ جس طرح 20ویں صدی کے اوائل میں یہودیوں کے خلاف ماحول بنایا جا رہا تھا، اسی طرح ایک صدی کے بعد اب اسلامو فوبیا کا ہوا کھڑا کرکے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔چاہے 2005میں ڈنمارک کا قضیہ ہو، یا فرانس کے ہفت وار اخبار چارلی ہیبڈو کا معاملہ ہو، مغربی دنیا مسلمانوں کے احتجاجات کو مسترد کرکے ان کو جمہوری نظام کے اقدار کے منافی اور تنگ نظری پر معمور کرتی ہے۔ اسلامو فوبیا پر اب صرف مغرب کی اجارہ داری نہیں رہی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں بھی کئی افراد آزادی اظہار رائے کی آڑ میںحضرت محمدـــﷺ او ر آپ کے اہل بیت کے خلاف گستاخانہ الفاظ کا استعمال کرکے مسلمانوں کو زبردستی اشتعال دلانے کا کام کرتے ہیں۔ گو کہ فرانس کے برعکس حکومت کی طرف سے انکو براہ راست سند حاصل نہیں ہے، مگر جذبات کو برا نگیختہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے عیاں ہوجاتا ہے کہ کون ان کی پشت پناہی کرتا ہے۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی انفارمیشن ٹیکنالوجی سیل سے مستعفی چند رضارکاروں نے آن ریکاڑڈ بتایا ہے کہ ان کو مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کی باضابطہ تربیت دی جاتی تھی۔ ہندو انتہاپسندوں کی ایما پر قائم ایک اور سیل کے انچارج پریس کلب آف انڈیا کے سابق سیکرٹری جنرل اورسیفما کے فعال رکن پشپندر کلوستے آئے دن ویڈیو بنا کر پیغمبر آخر الزماں ﷺ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ (جاری ہے)