معزز قارئین!۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ 3 ربیع الاوّل بروز جمعتہ اُلمبارک (یکم نومبر ) کو امیر جمعیت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ) نے اسلام آباد کے پشاور موڑ ( اتوار بازار ) میں (بقولِ خُود ) عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہُوئے سمندر سے خطاب کرتے ہُوئے وزیراعظم عمران خان کو "Deadline" دِی تھی کہ ’’ اگرآپ دو دِن تک وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی نہ ہُوئے تو پشاور موڑ پر ڈیرہ جمائے عوام یہ ’’ قدرت ‘‘ ( Power) رکھتے ہیں کہ ’’ وہ وزیراعظم ہائوس پہنچ کر آپ کو گرفتار کرلیں!‘‘۔ "Deadline and Lifeline" "Palmistry" (دست شناسی) کے مطابق ہر اِنسان کی ہتھیلی پر زندگی کی لکیر "Lifeline"ہوتی ہے اور قسمت کی لکیر "Luckline" بھی ۔ ایک ضرب اُلمِثل ہے کہ ’’ جسے اللہ رکھے ّ، اُسے کون چکھیّ‘‘۔ یعنی ۔ ’’ جس پر اللہ کی مہربانی ہو ، اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا‘‘۔ فضل اُلرحمن صاحب کے والد (مرحوم) مفتی محمود اور اُن کے بزرگوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد مفتی محمود صاحب کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’ خُدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے ‘‘لیکن،مفتی محمود صاحب اپنی ہتھیلی پر خُود ہی ’’قسمت کی لکیر ‘‘ کی وجہ سے صدر / وزیراعظم بھٹو کے دَور میں تقریباً ایک سال صوبہ سرحد ( خیبر پختونخوا ) کے وزیراعلیٰ رہے ۔ پھر جب صدر آصف زرداری ، وزیراعظم نواز شریف اور پھر شاہد خاقان عباسی نے فضل اُلرحمن صاحب کی ہتھیلی پر ’’ قسمت ‘‘ کی لکیر کھینچ دِی تو موصوف چیئرمین کشمیر کمیٹی رہے ۔ پھر بھلا کشمیری عوام فضل اُلرحمن صاحب کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟۔ ’’میلا لُوٹ لِیا؟ 4 ربیع الاوّل ( 2 نومبر ) کو فضل اُلرحمن صاحب نے اپنے آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہُوئے ، امام ِ عالی مقام کے نام ۔ حسین ؑ کے ساتھ علیہ السلام کہا اور بانی ٔ پاکستان کو قائداعظمؒ ، حالانکہ اِس سے پہلے فضل اُلرحمن صاحب اپنے بزرگوں اور ہم مسلک اصحاب کی طرح ، ایسا نہیں کرتے تھے ۔ پھر کیا ہُوا؟۔ حسین۔ سابق وزیراعظم پاکستان چودھری شجاعت حسین کے نام کا حصّہ ہے اور وہ ’’ پاکستان مسلم لیگ (قائداعظمؒ) ‘‘ کے صدر بھی ہیں ۔ چودھری صاحب نے اور اُن کے "Cousin" سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے بھی ، فضل اُلرحمن صاحب کو ٹیلی فون کِیا۔ چودھری شجاعت حسین نے فضل اُلرحمن صاحب کو ، مخاطب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ مولانا صاحب ! ۔ حزب اختلاف کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تو، آپ کو اپنا لیڈر تسلیم کرلِیا ہے ۔آپ نے تو ، میلا ہی لُوٹ لِیا۔ یقینا چودھری شجاعت حسین نے پنجابی زبان ہی میں کہا ہوگا کہ ’’ مولانا جی !۔ تُسیں تے میلا اِی لُٹ لیا اے‘‘۔ معزز قارئین!۔ اِس پر مجھے ایک پرانی پنجابی فلم کا منظر یاد آگیا۔ مَیں نے دیکھا کہ فلم میں ، ہیروئن نے ستاروں والا دوپٹہ اوڑھ رکھا ہے اور ہیرو اُس کی طرف دیکھتے ہُوئے فلم کے ناظرین کو گا کر بتا رہا تھا کہ … چُنی لَے کے ستاریاں والی ، تے میلا لُٹّ دِی پھرے! ’’حلالہ وزیراعظم !‘‘ چودھری شجاعت حسین مختصر مدت (30 جون سے 26اگست 2004ء تک ) وزیراعظم پاکستان رہے ۔ اہلِ ذوق چودھری صاحب کو ’’حلالہ وزیراعظم ‘‘ بھی کہتے رہے لیکن، چودھری صاحب نے "Mind" نہیں کِیا۔ خصوصی معاون برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ، صدر آصف علی زرداری کے دَور میں بھی وفاقی وزیر رہی ہیں اور 18 اپریل 2019 ء سے بھی معاون خصوصی اطلاعات و نشریات ہیں ۔ ہندیؔ اور پنجابیؔ زبان کے لفظ میلا کے معنی ہیں ۔ ’’ کسی بزرگ کے مزار پر اُن کا سالانہ عُرس ، ہجوم ، اژدھام، رونق، اکٹھ اور جب ’’ میلا ٹھیلا‘‘ کہا جائے تو وہاں تماشے بھی ہوتے ۔5 ربیع الاوّل (3 نومبر ) کو ، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اپنے انداز میں کہا کہ ’’اسلام آباد میں "Theatre" چلتا رہا ، جہاں خُود کو عالم دین کہنے والے فضل اُلرحمن لوگوں کے جذبات سے کھیلتے رہے‘‘۔ "Theatre, Play, Playrer" ’’تمثیل گاہ ، جہاں ڈرامے کھیلے جائیں ۔ اُسے "Theatre" کہا جاتا ہے ۔ ڈرامے کو "Play" اور ڈرامے میں کام کرنے والے اداکار کو "Player" ۔ برطانوی شاعر ، ادیب اور ڈرامہ نگار "William Shakespeare" (26اپریل 1564ء ۔ 23 اپریل 1616ء )نے لکھا تھا / ہے کہ "All the world’s a stage, and all the men and women merely players"۔ ( یعنی۔ تمام دُنیائیں ایک تماشا گاہ کا چبوترہ ہیں اور تمام مرد اور عورتیں ’’صِرف ‘‘ (لے دے کر) اُس تماشا گاہ کے چبوترے پر اداکاری کرتے ہیں ) ۔ ’’جُورو کے غلام !‘‘ معزز قارئین!۔ ہندی زبان اور پنجابی میں بھی بیوی کو ’’ جُورو ‘‘ کہتے ہیں ۔ 7 اپریل 2013ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک راہنما ، بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن جب ، لاہور میں الیکشن کمیشن کے دفتر میں اپنی اہلیہ محترمہ بشریٰ اعتزاز احسن کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے گئے تو، اُنہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ مَیں جُوروؔ( بیوی) کاغُلام ہُوں‘‘۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ صدر آصف زرداری ؔاور عمران خان ؔبھی اپنی اپنی جُورو کے غلام رہے ہیں ، میاں نواز شریف ؔاور مولانا فضل اُلرحمن ؔبھی، جُورو کے غلام ہیں اور انگلستان کا شاعر ،ادیب اور ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر بھی جُورو کا غلام تھا‘‘۔ اِس پر 9 اپریل 2013ء کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا… ’’ ہر کوئی ہے ، غُلام ، جُورو کا!‘‘ مَیں نے اپنے کالم میں قدیم بادشاہوں ، جرنیلوں اور نامور لوگوں کا تذکرہ کِیا تھا جو، اپنی اپنی جُورو کے غلام تھے ۔ مَیں نے ہندوئوں کی مقدّس کتاب ’’ مہا بھارت‘‘ (Mahabharat) کے مطابق ، کوروئوں سے جیتنے والے پانچوں پانڈو بھائیوں ۔ ’’یُدھشٹر، ارجن، نکُل، سہدیو اور بھیشم ‘‘کے بارے میں لکھا کہ ’’ وہ بیک وقت ایک ہی بیوی ’’دروپدی‘‘ (Draupadi) کے شوہر تھے ۔ بھلا دُنیا میں اُن پانچوں کا سا ، جُورو کا غلام اور کون ہوگا ؟۔ سکندرِ اعظم کو اپنی ایرانی نژاد بیوی ’’رُخسانہ ‘‘ (Rukhsana) سے اتنی زیادہ محبت تھی کہ اُسے جُورو کا غلام کہا گیا اور رومن ڈکٹیٹر "Julius Caesar" کو اپنی ملکہ قلو پطرہ (Cleopatra)کا غلام ‘‘۔ مَیں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ انگلستان میں تو یوں بھی بیوی کو "Better Half" (نصف بہتر) کہا جاتا ہے تو، پھر ولیم شیکسپیئر اپنی بیوی کا بیوی کا غلام کیوں نہیں کہلائے گا؟۔ معزز قارئین!۔ حیرت ہے کہ ’’اُس وقت سے لے کر آج تک سابق صدر آصف زرداری ؔ، وزیراعظم عمران خان ؔ، میاں نواز شریف ؔاور مولانا ؔفضل اُلرحمن نے اپنی اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہا ؟‘‘اور ہاں!۔ چودھری اعتزاز احسن نے اپنے "Gujarat Fellows"۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کے بارے میں نہیں کہا کہ ’’ وہ بھی میری طرح جُورو کے غلام ہیں ‘‘۔ بہرحال مَیں نے تو، اپنی صفائی میں لکھ دِیا تھا کہ ’’ مَیں بقائمی ء ہوش و حواس اور حلفیہ بیان کرتا ہُوں کہ ’’ چونکہ میری دونوں بیویاں باری باری ’’ جنت مکانی‘‘ ہو گئی ہیں اِس لئے مَیں جُورو کا غلام نہیں ہُوں‘‘۔ ’’مٹی پائو!‘‘ معزز قارئین!۔ سُنا ہے کہ ’’ چودھری شجاعت حسین بہت مہمان نواز اور صلح جُو ہیں اور جب کسی مخالف کو راضی کرنے کے لئے ملتے ہیں تو اکثر یہ جملہ ضرور بولتے ہیں کہ ، چلو جی !۔ مٹی پائو‘‘۔ پنجابی میں ’’ مٹی پاوَن‘‘ کا مطلب ہے کہ ’’ در گزر کر دو ، معاف کردو ، ناخوشگوار باتوں کو دفن کردو ‘‘۔ مَیں نے تو ، کل 2 بجے ’’92 نیوز‘‘ کے دفتر میں اپنا کالم "E-mail"کردِیا تھا۔ کل شام فضل اُلرحمن صاحب سے کیا چودھری شجاعت حسین نے کہا تھا کہ ’’ مولانا جی!۔ چلو چھڈو ! مٹّی پائو، مَیں عمران خان ہوراں نُوں وِی کہہ دِیاں گا کہ خان جی ! تُسیں وِی مٹّی پائو! ‘‘۔مٹّی کےؔ بارے میں کسی اُستاد شاعر نے کہا تھا کہ … کعبے کی ہے ہوس ، کبھی کُوئے بُتاں کی ہے! مجھ کو نہی خبر ، میری مٹّیؔ کہاں کی ہے !