یہ1989ء کی بات ہے جب مقبوضہ وادی کے پرجوش نوجوانوں نے بھارتی فوج کے جبر و تشدد سے تنگ آکر کلاشنکوف اٹھا لی او ر مسلح جدوجہد کا اعلان کردیا،وہ وادی جہاں پہلے صرف آزادی کے نعرے لگتے تھے اب کلاشنکوف کی برسٹ بھی چلنے لگے ،بھارتی فوجیوں پر شب خون مارا جانے لگا،حریت کے متوالے بھارتیوں پر قہر بن کر ٹوٹنے لگے ،وادی میں تحریک حریت نے ایک نئی کروٹ لی یہ عسکری تحریک نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہونے لگی جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر اس عسکری تحریک کی پشتیبان بن کر کھڑی ہوگئی نوجوانوں نے گوریلا جنگ کا آغاز کردیا وہ جہاں موقع ملتا بھارتی فوج پر جھپٹتے اور زخم لگا کر غائب ہوجاتے،یہ وہ وقت تھا جب سیاسی جماعتیں اس حوالے سے کوئی موقف اپنانے کا سوچ رہی تھیںکہ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد آگے بڑھے اور انہوں نے اس تحریک کو جہاد قرار دیتے ہوئے مکمل حمائت کا اعلان کیا انہوں نے اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کا حق دیا اورکلاشن کوف اٹھانے والے کشمیری نوجوانوں کو حرئت پسند قرار دیا ، قاضی حسین احمد نے پانچ جنوری 1989ء کولاہور میں نیوز کانفرنس کی اور پاکستان سمیت دنیابھر کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کی جانب متوجہ کیا ۔قاضی حسین احمد نے ایک ماہ بعدہڑتال کی کال بھی دی اور پھر یوں پانچ فروری 75ء کے بعد پہلی بار پوری قوم نے یوم کشمیر منایااس روز ملک بھر میں ریلیاں نکالی گئیں کراچی سے کشمور اور جمرود سے استور تک ایک ہی بات تھی ایک ہی نعرہ تھا کہ کشمیر بنے گا پاکستان ۔ اس وقت پنجاب پرمسلم لیگ ن کی حکومت تھی ،میاںنواز شریف اس وقت عروج پر اوروزیر اعلیٰ تھے ،قاضی حسین احمد سے ان کا احترام کا رشتہ تھا جب انہوں نے انہیں پانچ فروری کو یوم کشمیر منانے کی تجویز دی تو اسے قبول کر نے میں کوئی حیل وحجت نہ کی بلکہ اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے بھی تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود کراس تجویز کا خیر مقدم کیا اور پھر 1990ء کو منائے جانے والے یو م یکجہتی کشمیر میں کیا جیالے اور کیا متوالے سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا ،ادھر قاضی حسین احمد اور ادھر شاہ احمد نورانی یک زبان ہو کر کشمیر کی آزادی کی بات کر رہے تھے ،یہ پہلا یوم کشمیر تھا جب ملک کی مختلف سیاسی مفادات‘ خیالات، محرکات رکھنی والی جماعتیں ایک بیانئے پر تھیں ،یہ حقیقی معنوں میں قومی یوم یکجہتی کشمیر تھا تب سے اب تک پانچ فروری مظلوم کشمیریوں کا دن چلا آرہا ہے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان یہ ایک طرح سے زبانی معاہدہ ہے کہ بھلے ہم 364دن ایک دوسرے پر تنقید کی توپیں دم کرتے رہیں گے ،ایک دوسرے کے مسے نوچتے رہیں گے لیکن365ویں دن ہم سب کچھ بھلا کر ہاتھوں میں ہاتھ دے کر کشمیریوں کی بات کریں گے انہیں اور دہلی کو پیغام دیں گے کہ آپس کے لاکھ اختلافات سہی لیکن بات جب کشمیر کی ہوگی توہم سب ایک ہوں گے اور ہمارا موقف بھی ایک ہوگا یہ ایک طرح سے خاموش معاہدہ تھااس پر عمل درآمد ہوتا رہا اورہم دیکھتے چلے آرہے تھے لیکن افسوس کہ اب یہ معاہدہ بھی ٹوٹتا نظر آرہا ہے۔ اس با ر پانچ فروری کو حزب اختلاف نے بھی کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لئے آزاد کشمیر کا انتخاب کیا اور حکومت نے بھی اسی میدان کا رخ کیا،ایک نے مظفرآباد میں میدان سجایا اور دوسرے نے کوٹلی میں لیکن یہاں جس طرح کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا گیااسے افسوس ناک کہا جائے یا شرمناک میں ابھی تک فیصلہ نہیں کرسکا وہ نواز شریف جس نے قاضی حسین احمد کی ایک آواز پر لبیک کہا تھا ان کی صاحبزادی مریم نواز نے مظفر آباد میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے نصف گھنٹے سے زائد کی تقریر میں بمشکل دو منٹ چار منٹ ہی بات کی ہوگی،انہوںنے بس آغاز میں کشمیریوں کو مروتامخاطب کیا پھر اس کے بعد وہ تھیں اور تحریک انصاف کی حکومت تھی زرا ان کے تقریر تو سنیں جہاںسقوط کشمیر کا ذکر ہوتا ہے وہاں عمران خان کا نام آتا ہے جعلی وزیر اعظم کو ڈر لگتا ہے کہ لوگ اسکا گریبان پکڑیں گے عمران خان سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ وہ کیا پیغام لائے ہیں کیا بولو گے کہ میں کشمیر کا سودا کرکے آیا ہوں اب زرا بلاول بھٹو صاحب کی سن لیجئے انہوں نے بھی اتنی مہربانی کی کہ تقریر کی ابتداء کشمیرسے کی پھر اسکے بعد بلاول نے وہی کیا جو مریم صاحبہ نے کیا انہوں نے اپنی توپوں کا رخ عمران خان کی جانب کردیا ایک گولہ داغا کشمیریوں کی نسلی کشی ہورہی تھی تو کٹھ پتلی نے کہا کہ میں کیا کروں! دوسرا گولہ پھینکا سلیکٹڈ وزیر اعظم مودی کو جواب نہیں دے سکتاپھر چاند ماری کی کہ مودی کو جواب دینے کے لئے جمہوری وزیر اعظم چاہئے ۔ ادھر وزیر اعظم بھی پیچھے نہ رہے انہوںنے کوٹلی میں برابر کا جواب دیا اور اپوزیشن کو این آر او نہ دینے کا اعلان کر گئے کہا کہ پی ڈی ایم جہاں چاہے لانگ مارچ کرے مدد کریں گے اپوزیشن الٹا بھی لٹک جائے تو این آر او نہیں دیں گے، مزید کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ بڑے ڈاکو ملک سے باہر اور چھوٹے جیلوں میں رہیں۔۔۔اپوزیشن لیڈوں کی نسبت عمران خان نے اپنی تقریر میں کشمیر کو زیادہ وقت دیالیکن وہ بھی کشمیریوں کے کاندھے پر بندوق رکھ کر شست باندھنے سے باز نہیں آئے ،سچ کہوں مجھے شرم آئی کہ میری قیادت نے آج کشمیر پر بھی سیاست کی ،کاش وہ نہ کرتے ،مریم نواز اپنے والداوربلاول اپنی والدہ کی طرح برتاؤ کرتے وہ کم از کم اس روز صرف کشمیر کی بات کرتے کشمیریوں کے مظالم کی مذمت کرتے باقی سب تو 364دن کی فلم ہے جو کبھی سینما سے نہیں اترے گی، افسوس کہ ہماری قیادت نے کشمیریوں کے کاندھوں پر اپنی سیاست کا وزن ڈال دیااس دن بھی سیاست کھیل گئے مجھے مرحوم قتیل شفائی یاد آگئے انہوںنے ایسے ہی کسی موقع کے لئے کہہ رکھا تھا : ماتم سرا بھی ہوتے ہیں کیا خود غرض قتیل اپنے غموں پہ روتے ہیں لے کر کسی کا نام