خدانے زمین کو انتہائی خوبصورت اور سرسبز بنایا‘جنگلات،دریائوں،سمندروں اور قدرتی وسائل سے مالا مال کیا‘اسے ہمارے رہنے کے قابل بنایا مگر انسان ہمیشہ ان قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کی بجائے انھیں تباہ کرنے میں مسرت محسوس کرتا رہا۔حضرت انسان نے اپنی کارستانیوں کی وجہ سے قدرت کے ماحول کو ہمیشہ آلودہ کیا ‘اسے اپنی خودغرضی کی بھینٹ چڑھایا اور خدا کے بنائے ہوئے نظام کو چیلنج کیا‘اس چیلنج سے ہم نے ارد گرد کے ماحول کو اس حد تک زہریلا کر دیا ہے کہ اب یہ رہنے کے قابل نہیں رہا۔فطرت سے جنگ نے ہمیں شدید شکست سے دوچار کیا اور آج صورت حال یہ ہوچکی معمولی سی موسمیاتی تبدیلی بھی ہمیں حد سے زیادہ اثر انداز کرتی ہے۔انسان کی پیدا کردہ اس آلودگی نے خود انسان کے ساتھ حیوانات اور نباتات کی زندگیاں بھی اجیرن کر دیں‘انسان کو یہ بات سمجھنی ہوگی میری بقا پانی کے ساتھ ساتھ جنگلوں‘ پودوں ‘جانوروں‘ پرندوں اور حشرات الارض پر منحصر ہے ‘اگر آج میں انھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں تو اس سے میں بھی خود بھی اثر انداز ہوں گا۔اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP)کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں فضائی آلودگی سے ہر سال ستر لاکھ افراد کی موت ہو رہی ہے اور اس سے معاشرے کو پچاس کھرب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے لاہو ر‘درختوں سے خالی ہو کر ’سموگ ٹریپ‘بن گیا‘کراچی ’ہیٹ ٹریپ‘ اور اسلام آباد ’پلوشن ٹریپ‘ بنتا جا رہا ہے‘ہمارے تینوں بڑے شہر اس ماحولیاتی زہر سے بری طرح متاثر ہو چکے اور اس سب کا ذمہ دار بہرحا ل حضرت انسان ہی ہے۔ اردو ادب میں فطرت سے محبت اور انسان کے ساتھ فطرت کے تعلق کو کس قدر وضاحت سے پیش کیا گیا ‘یہ جاننے کے لیے حال ہی میں شائع ہونے والی پروفیسر ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی کی کتاب ’اردو ادب:ماحولیاتی تناظر‘کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے‘فطرت کی تباہی نے جیسے ماحولیاتی مفکرین کو دعوتِ فکر دی‘سنجیدہ تخلیق کار کو بھی پریشان کر دیا۔ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی اس کتاب میں عالمی ادب سے اردو ادب تک‘ان تمام مباحث کو انتہائی تفصیل کے ساتھ زیر بحث لائے جنھوں نے بالواسطہ یا بلا واسطہ تخلیق کار کو متاثر کیا۔ مقدمے میں مصنف نے ماحولیاتی تحریک کے آغاز و ارتقا پر انتہائی سیر حاصل بات کی‘ڈاکٹر نیازی کے بقول اس تحریک کی پہلی لہر۱۹۶۰ء کی پہلی دہائی میں پیدا ہوئی‘رچل کیرسن کی کتاب Silent Spring اس تحریک کا نقطئہ آغاز بنی اور پھر بیسویں صدی کے اختتام تک‘یہ تحریک مستحکم دبستان کے طور پر اپنی الگ شناخت بنانے میں کامیاب ہوئی ۔ پہلے باب میں اردو ادب میں فطرت کے تصورات پر مکالمے کا آغاز زیرِ بحث لایا گیا‘سرسید کی فطرت نگاری کی تحریک سے لے کر صنعتی یا جدیدعہد میں فطرت کے نئے تصور تک‘انتہائی عمیق نظری سے تمام پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا۔یہاں ڈاکٹر نیازی نے سرسید احمد خان کے ان مضامین کا بھی حوالہ دیا جن میں سر سید نے فطرت کو خدا کے دین کے مترادف کہا‘اس باب میں سر سید کے نظریاتِ فطرت اور ان کی تحریروں کے ساتھ حالیؔ کے ’مقدمہ شعروشاعری ‘انجمن پنجاب سے حالی ؔو آزادؔ کی وابستگی اور فطرت کے موضوعات پر نظمیہ مشاعروں کو بیان کیا گیا۔سرسید‘حالی اور آزاد کے ساتھ مولوی امام اثرکی ’کاشف الحقائق‘کا ذکر بھی ہوا۔اثر کے ہاں بھی نیچرل شاعری کا تصور حالی سے ملتا جلتا ہے لیکن ڈاکٹر نیازی کے بقول’’اثرکا تنقیدی ادبی فطرت کا تصور ہونے کے باوجود اس لیے آزاد ہے کہ یہ کسی نوآبادیاتی پراجیکٹ کا حصہ نہیں‘‘۔ اسی باب میں گورکی‘حسن عسکری‘ شمیم احمد ‘ انتظار حسین‘ وزیر آغا اور ناصر عباس نیر کے تصوراتِ فطرت کو بھی موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ دوسرے باب میں کلا سیکی غزل سے جدید غزل تک‘اور ماحولیاتی مزاحمت پر روشنی ڈالی گئی‘اس حوالے سے ولی ‘ میر‘غالب اور آتش وغیرہ کی شاعری سے نمونے پیش کیے گئے۔مذکورہ کلاسیکی غزل گو شعرا نے مظاہرِ فطرت ‘انسان اور فطرت کے رشتے کس طرح بیان کیا ہے‘ انتہائی تفصیل شامل ہے۔اسی حصے میں میر ؔکی ’ شکار نامہ‘،مومنؔ کی ’قصہ ء غم‘،نسیمؔ کی ’گلزارِ نسیم‘ اور میر حسنؔ کی’سحر البیان‘میں موجود ماحولیاتی فکر کو بھی نئے تناظر میں پیش کیا گیا ‘اردو قصیدوں اور مرثیوں میں موجود نظریاتِ فطرت بھی اسی باب میں موجود ہیں۔ تیسرے باب میں ماحولیاتی شعریات اور اردو افسانہ جبکہ چوتھے باب میں اردو کے چار اہم ناولوں ( ’بہائو‘،’پانی مر رہا ہے‘، ’کوہِ گراں‘ ،’ایک خنجر پانی میں‘)کا بیان ہے جن میں مرگ ِ آب کی کہانی بیان ہوئی ‘پانی جو انسانی زندگی کے لیے انتہائی ناگزیر ہے مگر مسلسل بڑھتی پانی کی قلت یا اس کے آلودہ ہونے کا دکھ بھی اسی باب میں نظر آتا ہے‘تیسرا اور چوتھا باب انتہائی فضیلت کا حامل ہے‘افسانوی شعریات کے ساتھ اردو کے چار اہم ترین ناول جو بنیادی طور پر پانی کے مرنے کا نوحہ ہیں‘زیرِبحث آئے۔۔چوتھے باب میں تانیثی ماحولیات اور پانچویں میں ہندوستانی ماحولیات پر مکالمہ ہے۔پانچواں باب کتاب کی تلخیص کہی جا سکتی ہے‘ڈاکٹر نیازی نے ہندوستان کے نوآبادیاتی ماحول کو ڈسکس کیا‘انگریز کس طرح نوآبادیاتی پراجیکٹس کے ذریعے یہاں شب خون مارتے رہے‘کبھی تجارت تو کبھی صنعتی انقلاب اور کبھی ہندوستانی جغرافیے‘تاریخ اور سماج پر اپنے قبضے سے۔ڈاکٹر نیازی نے ان سامراجی ہتھکنڈوں کا تفصیلی جائزہ لیا جنھوں نے ہندوستان کی تہذیب و ماحولیات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔قارئین !اس سے قبل ماحولیاتی شعریات پر اس قدر تفصیل سے نہیں لکھا گیا‘اردو میں چند ایک مضامین نظر آتے ہیں مگر ماحولیاتی دبستان کی شناخت کو مستحکم ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی نے کیا‘انھوں نے اردو ادب ( کلاسیک سے جدید تک)کا ماحولیاتی تناظر میں مطالعہ کیا‘یہ ان کی تین سال کی بھرپورمحنت کا نتیجہ ہے۔ہمارے مفکرین نے تنقید کو ہمیشہ دوسرے درجے کی چیز سمجھا‘نئے نظریات اور شعریات کی نئی تفہیم کو قبولنے کی بجائے اسے نہ صرف رد کیا گیا بلکہ ان نقادوں کے خلاف محاذ کھڑا کیا جاتا رہا جنھوںنے اردو تنقیدکا دامن وسیع کیا۔