اقوام متحدہ نے انتباہ کیا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے ہاتھوں دنیا تباہی اور موت کے کنارے پہنچ گئی ہے۔ پیرس میں جاری اپنی رپورٹ میں اس نے انسان کو سب سے بڑا تخریب کار اور کائنات کی سب سے بھوکی مخلوق قرار دیا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں ماہرین عرصہ سے انتباہ کر رہے ہیں اور اب تو اس کی وجہ سے ہونے والی تباہی بھی جا بجا دیکھنے کو مل رہی ہے لیکن دنیا بھر میں نظام کار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے، وہ ہوس نے اندھے کر دیئے ہیں۔ پھر سرمایہ داری کا نظام پوری سائنس بن کر کارپوریٹ کلچر بن کر حکومتوں، اداروں اور قوت نافذہ رکھنے والے حلقوں کوجال میں جکڑ چکا ہے؛ چنانچہ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف قانون پہلے تو بنتے ہی نہیں، بنتے ہیں تو عمل نہیں ہوتا۔ ماحولیاتی آلودگی کا ایک مطلب ماحولیاتی عدم توازن بھی ہے۔ ایک طرف تو جنگل کٹ رہے ہیں، دوسری طرف حیوانات کا خاتمہ کر کے زندگی کے سائیکل کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ جانوروں کی ایک نوع چاہے وہ شہد کی مکھی ہی کیوں نہ ہو، ختم ہو جائے تو زندگی پر ایسے مہلک اثرات پڑتے ہیں کہ ازالہ ہو سکتا ہے نہ بچائو۔ ٭٭٭٭٭ رپورٹ میں انسان کو بھوکی ترین مخلوق قرار دیا گیا ہے۔ وہ تو شروع ہی سے ایسا تھا لیکن اب پہلے سے بڑھ کر بھوکا ہو گیا ہے اور بھوک بھی ایسی کہ قیامت کی کہیے۔ اس میں کارپوریٹ سیکٹر کا بھی دخل ہے۔ خدا نے طرح طرح کے اناج، سبزیاں اور پھل پیدا کیے لیکن انسان گوشت کا رسیا ہو گیا اور اس کی وجہ سے بے رحم اور سفاک بھی۔ انسان اب پہلے سے کہیں زیادہ، جانور ہلاک کر رہا ہے۔ جانوروں کو ہلاک کرنے کے لیے پیدا کرنے کے کارخانوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ دنیا کے کم و بیش ہر ملک میں گوشت کے فارم ہیں۔ بکریوں کے الگ، بھیڑوں کے الگ، گائے بھینسوں کے الگ، سوروںکے الگ، مچھلیوں کے الگ، مرغیوں اور دوسرے پرندوں کے الگ۔ شاید بہت زیادہ یہ بات لوگوں کے علم میں نہیں ہو گی کہ انسان ہر روز کتنے جانور ہلاک کر کے کھا جاتا ہے۔ گنتی اتنی زیادہ ہے کہ ایک بار تو ہوش اڑا دیتی ہے۔ جی، دنیا بھر میں ہر روز 15کروڑ سے زیادہ جانور ذبح کیے جاتے ہیں اور سمندری حیات کی موت کا تو شمار ہی مشکل ہے۔ ذبح کیے جانوروں کی گنتی سال کے حساب سے کی جائے تو 56ارب جانور بنتی ہے۔ مچھلیاں، کیکڑے، لابسٹر اور پرندے بھی شامل کیے جائیں تو ہر روز ہلاک کیے جانے والے جانوروں کی تعداد 3ارب ہو جاتی ہے اور یہ گنتی وہ ہے جسے ’’ڈاکومینٹڈ‘‘ کہتے ہیں۔ نان ڈاکو منٹنڈ گنتی الگ ہے۔ یعنی پرندوں اور جانوروں کی وہ تعداد جو قانونی اور غیر قانونی طریقے سے شکار کے گھاٹ اتار دی جاتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ ماضی قریب تک جانوروں کو خوراک کے لیے ہلاک کرنے کا کام بوچڑ خانوں سے لیا جاتا تھا۔ اب فارمنگ کی سائنسی صنعت آ گئی جسے عام لوگ نہیں، کارپوریٹ سیکٹر چلاتا ہے۔ اس میں رحم کا کوئی مقام نہیں۔ جانور پیدا کیے جاتے ہیں۔ جو بیمار ہوتے ہیں، ان کے علاج کا تو تصور بھی غیر عقلی ہے۔ انہیں ہلاک کرنے کا کام بھی انسانی طریقے سے نہیں ہوتا۔ ٹانگوں سے پکڑ کر اٹھاتے ہیں اور دیواروں سے پٹچ پٹچ کر یا زمین پر گرے جانور کا سر پائوں سے کچل کر ہلاک کر دیا جاتا ہے یا اکثر انہیں فارم ہائوس کے بچھواڑے میں مرنے کے لیے پھینک دیا جاتا ہے۔ صحت مند جانور اتنے تنگ پنجروں میں رکھے جاتے ہیں کہ وہ حرکت نہیں کر سکتے، گھوم جانے کا تو سوال ہی نہیں، پہلو تک نہیں بدل سکتے۔ اسی کام میں وہ ذبیح کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو پکڑ کر مار دیا جاتا ہے اور ذبیح کا طریقہ اپنی جگہ ظالمانہ ہے۔ کئی فارم ہائوس جانور کے سر میں بولٹ گن سے گولی مارتے ہیں۔ جانور فوری نہیں مرتا، بعض اوقات آدھا گھنٹہ تک تڑپتا ہے۔ اسی حالت میں اس کی کھال اتارنے کا عمل شروع کر دیا جاتا ہے۔ جانوروں کو ایک دوسرے کے سامنے مارا جاتا ہے۔ جن کی باری آنے میں ابھی کئی دن ہوتے ہیں، ان کے سامنے۔ ٭٭٭٭٭ جانوروں کے ہلاک کرنے میں تعداد اور بے رحمی کے اعتبار سے اولیت زرد نسل کی قوموں کی ہے۔ ان کے ہاں تاریخ کے زمانے سے یہ فلسفہ چلا آتا ہے کہ جانور کی موت جتنی اذیت سے ہو گی اور اس پر طاری ہونے والے نزع کے لمحات جتنے لمبے ہوں گے۔ اسے کھانے میں اتنا ہی زیادہ مزہ آئے گا؛ چنانچہ یہ لوگ جانوروں کو ٹھڈوں اور مکوں سے مار مار کر ہلاک کرتے ہیں، زندہ کی کھال اتارتے ہیں۔ کھولتے پانی میں زندہ ابھالتے ہیں اور اس طرح کے بہت سے طریقے۔ ٭٭٭٭٭ زرد اقوام کی ایک اور بے رحمی یہ ہے کہ یہ جسم کے ایک ذرا سے ٹکڑے کے لیے پورا جانور مار دیتے ہیں۔ مثلاً شارک اور اسی قسم کی دوسری مچھلیوں کے جسم پر ایک چھوٹا سا کوہان ہوتا ہے جسے Finکہتے ہیں۔ یہ کلو کا وزن بھی نہیں رکھتا۔ ہر سال کروڑوں شارک مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں، انہیں کشتیوں پرلا کر فن چھری سے کاٹ لیتے ہیں اور مچھلی کو پھر سے پانی میں دھکیل دیتے ہیں۔ مچھلی کئی کئی روز تڑپ تڑپ کر مرتی ہے۔ یہ فن پھر چین، کوریا بھجوا دیئے جاتے ہیں جہاں ہوٹل اور ریسٹورانٹ انہیں ڈش کی شکل دیتے ہیں۔ افریقی ملکوں سے انہی زرد نسل والوں نے گینڈوں کی نسل تقریباً معدوم کر دی ہے صرف اس کے سینگ کے لیے ہلاک کرایا جاتا ہے۔ یہ سینگ زردنسل والے ابال کر کھاتے یا ان کا سوپ پیتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ قانون تو ماحولیاتی تباہی روک ہی نہیں سکتا۔ دنیا کے زیادہ لوگ یا کم از کم قوت موثرہ و نافذہ رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد مذہب کو مانتی تو یہ مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔ تمام مذاہب کی تعلیم ایک جیسی ہے۔ قرآن پاک اس تعلیم کو زیادہ جامع کر کے پیش کیا۔ قرآن میں ہے کہ :اے لوگو، تجاوز مت کرو حد سے مت بڑھو، فتنہ اور فساد نہ پھیلائو، خود پر ظلم کرو نہ دوسروں پر۔ اسلام جانوروں سے رحم کا سخت الفاظ میں حکم دیتا ہے۔ گوشت خوری کے بارے میں فرمان نبویؐ ہے کہ اپنے پیٹ جانوروں کے قبرستان نہ بنائو۔