آئیڈیا جس کا بھی تھا زبردست تھا۔ واشنگٹن میں جلسہ عام اور ہزاروں افراد کی شرکت، ہال میں لگی کرسیوں کی وجہ سے گنتی آسان اور مبالغہ مشکل بلکہ نا ممکن۔ 2011ء میں عمران خان نے مینار پاکستان کے زیر سایہ جلسہ کیا تو ہر تجزیہ کار اور کالم نگار نے اجتماع کے سامعین کی تعداد الگ الگ بتائی، ایک تجزیہ نگار نے کمال کر دیا بتایا کہ جلسہ گاہ میں بیک وقت ایک لاکھ افراد سما سکتے ہیںلہٰذا تحریک انصاف کے جلسے میں سامعین ایک لاکھ تھے کم نہ زیادہ۔پوچھا گیا کہ آپ اس اجتماع کا موازنہ 10اپریل 1986ء کے جلسے سے کریں گے جو بے نظیر بھٹو کی رضا کارانہ جلاوطنی کے بعد وطن واپسی پر ہوا تو جواب دیا کہ نہیں وہ بڑا جلسہ تھا اور اس میں دس لاکھ افراد شریک تھے۔ ہر معقول آدمی سن کر ہکا بکا رہ گیا کہ جب پارک وہی ہے، جس میں گنجائش ایک لاکھ افراد سمانے کی ہے پچیس چھبیس سال کے دوران لاہور کی آبادی کم ہوئی نہ 30اکتوبر کی شام جمع افراد کے بارے میں یہ حکم نازل ہوا تھا کہ دس کو ایک تصور کیا جائے گا تو یہ ایک لاکھ کیسے اور وہ دس لاکھ کیونکر؟ واشنگٹن میں جمع ہونے والے ہزاروں افراد کی تعداد کم کرنا مشکل ہے لہٰذا یار لوگوں نے فیصل آباد کی ریلی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کیاجو بے پناہ محنت، خرچے اور مبالغہ آرائی کے باوجود بہر حال کم تر سطح کی سیاسی سرگرمی تھی۔ واشنگٹن جیسے مصروف، کاروباری اور ساہوکارانہ ذہنیت کے شہر میں جہاں لوگ چائے کا کپ بھی یہ کہہ کر پلاتے ہیں کہ ’’میں آپ کو اپنے قیمتی وقت سے پندرہ منٹ نکال کر ایک ڈالر کی چائے پلا سکتاہوں‘‘ ہزاروں پاکستانی نژاد امریکیوں کا دور دراز سے ہال میں جمع ہو کر کئی گھنٹے تک پاکستانی وزیر اعظم کا انتظار کرنا اور تقریر سننا اہم واقعہ ہے جس کی پاکستان میں تو شاید کسی کو قدر ہو یا نہ ہو مگر امریکہ میں اہمیت ملے گی۔ امریکہ کے غیر روایتی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیروں نے لازماً بتایا ہو گا کہ اوول آفس میں آپ کی ملاقات ایک ایسے پاکستانی لیڈر اور حکمران سے ہو رہی ہے جو امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں میں بھی اتنا ہی مقبول ہے جتنا اپنے ملک میں۔ اس کے دامن پر کرپشن کا داغ نہیں اور اس کے بعض ساتھیوں کی نا اہلی کے باوجود یہ کرپشن، منی لانڈرنگ اور عسکریت پسند ہی کے خاتمہ کے لیے پرعزم ہے۔ آپ کی طرح یہ بھی روایتی سیاستدانوں کی مخاصمت سے دوچار ہے اور جس طرح آپ کو میڈیا سے شکایات ہیں، اسی طرح یہ بھی میڈیا کے ایک حصے کا خصوصی ہدف ہے۔ فرق یہ کہ آپ کا مخالف میڈیا ٹرمپ اور ریاست کے درمیان فرق روا رکھتا ہے۔ ذاتی مخاصمت میں امریکی مفاد کو دائو پر نہیں لگاتا جبکہ عمران خان کا واسطہ ان لوگوں سے ہے جنہیں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی پاکدامنی ثابت کرنے کے لیے عدلیہ اور فوج پر الزام تراشی میں باک نہیں۔ عمران، ٹرمپ ملاقات کے بعد ہی ہم جان پائیں گے کہ عمران خان کی تیاری کیسی تھی؟ ایرینا ہال میں عمران خان نے ہزاروں تارکین وطن سے جو وعدہ کیا تھا وہ ایفا ہوا یا نہیں؟ وعدہ یہ تھا کہ میں پاکستان کی عزت، وقار اور مفاد پر کبھی سمجھوتہ کروں گا نہ کسی کے سامنے جھکوں گا۔ صرف عمران خان کے دورہ امریکہ نہیں، طرز حکمرانی اور انداز فکر پر پاکستان میں سوالات اُٹھے اور اٹھنے چاہئیں۔ ہر محب وطن پاکستانی کا یہ جمہوری حق ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کا گریبان پکڑ کر جواب چاہے اور اپنے اندیشوں کا اظہار کرے۔ جوابدہی کے احساس سے محروم حکمران معاشرے کے لیے وبال بنتے ہیں اور ریاستوں کے لیے خطرہ۔ رائے کی آزادی انسان کا فطری اور پیدائشی حق ہے مگر ذمہ داری، معاشرتی اقدار و روایات اور آئینی و قانونی پابندیوں سے مشروط۔ پاکستان میں پرنٹ میڈیا کی آزادی سول اور فوجی حکمرانوں کے خلاف اخبارات و جرائد، صحافتی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جدوجہد کا ثمر ہے۔ جرأت مند، دیانتدار اور بے لوث صحافی(مالکان اور کارکن) فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق سے لے کر نواز شریف تک ہر دور میں سینہ سپر رہے ؎ لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے الیکٹرانک میڈیا کی آزادی البتہ ایک فوجی آمر کا تحفہ ہے جس نے 2007ء میں خود ہی یہ سلب کرنے کی کوشش میں اپنا دھڑن تختہ کر دیا۔ ماضی میں آزادیٔ صحافت کی جدوجہد یوں ثمر بار ہوئی کہ یہ اپنے بنیادی انسانی، جمہوری، آئینی اور قانونی حق کے لیے تھی، کسی کرپٹ مافیا کو فائدہ پہنچانے کے لیے نہ کسی ڈرگ ڈیلر، ٹیکس چور، قرض خور اور قبضہ گروپ کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے۔ عدالتی سزا یافتہ اور نیب کو مطلوب افراد کو ہیرو ثابت کرنا اور قومی اداروں پر کیچڑ اچھالنا کسی کا بنیادی جمہوری حق ہے نہ پاکستانی مخالف قوتوں کی برپا کردہ ففتھ جنریشن وار کا حصہ بننا تقاضائے صحافت۔ قانون شکنی اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر قومی ادارے حرکت میں آئیں تو پھر شکایت کیسی اور گلہ کس بات کا؟ خود کردہ را علاجے نیست۔ لامحدود آزادی صرف جنگل میں خونخوار جانوروں کو حاصل ہو سکتی ہے یا کسی بنانا ری پبلک میں، جہاں طاقت کو حق تصور کیا جاتا ہو اور آئین و قانون کو جوتے کی نوک پر لکھنے کا رواج۔ میری آزادی دوسرے کی ناک تک جا کر محدود ہو جاتی ہے اور یہی حقیقی آزادی کا مفہوم ہے۔ مادر پدر آزادی کا کسی مہذب معاشرے میں کوئی تصور تھا نہ ہے۔عمران خان اور حکومت کیا فوج اور عدلیہ کے فیصلوں پر بھی تنقید ہو سکتی ہے اور آزاد و خود مختار لوگ یہ فرض ادا کرتے ہیں مگر آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر اور پاکستان کے علاوہ ان قومی اداروں کے خیر خواہ کے طور پر، امریکہ و بھارت کے ایجنڈے کے تحت نہ غیر ملکی فنڈ خورد این جی اوز کے ایما پر کہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے اور قومی و معاشرتی اقدار و روایات کو پامال کرنے کے مشن پر ہیں۔ عمران خان کے دورہ امریکہ کو ناکام ثابت کرنے کے لیے کبھی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے سرکاری وفد میں شمولیت پر اعتراض ہوا، گاہے وزیر اعظم کے استقبال سے ملک کی بے عزتی کا تاثر کشید کیا گیا اور کچھ نہ بنا تو واشنگٹن کے جلسے میں نوازشریف و زرداری پر تنقید کا بہانہ بنایا گیا۔ بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ عمران خان، ٹرمپ کے روبرو پاکستان کا قومی مؤقف جرأت، دلیری اور صاف گوئی سے پیش کر پائے یا نہیں؟ ٹرمپ کی طرح عمران خان غیر روایتی سیاستدان ہیں، لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنے کے عادی اور مؤقف پر ڈٹ جانے کی صلاحیت سے مالا مال۔ حسن اتفاق سے فوجی قیادت ہم خیال ہی نہیں ہم سفر بھی ہے اور ہمنوا بھی۔ افغان تنازع ایک بار پھر پاکستان کو خطے کی اہم قوت کے طور پر ابھرنے کا موقع دے رہا ہے اور حالیہ برسوں میں ہماری سیاسی، فوجی اور سفارتی کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔ احتساب سے خوفزدہ اہل قلم و کیمرہ، کرپٹ اور مفاد پرست سیاستدانوں کے جرائم کی پردہ پوشی اور کھایا پیا ہضم کرنے کے لیے تاریخ کے اس اہم موڑ پر نان ایشوز کو ایشو بنا رہے ہیں۔ سیاست و جرم کے ملاپ پر اعتراض ہے نہ طاقتور و کمزور، امیر و غریب کے لیے الگ الگ قانونی پیمانوں اور معیارات سے سروکار، ایل این جی سکینڈل میں قومی دولت کی لوٹ مار انہیں قبول ہے اور شاہد خاقان عباسی فرشتہ نظر آتا ہے مگر پاکستان کو ایک بار پھر ترقی یافتہ، مہذب، خوشحال اور باعزت و باوقار ریاست بنانے کے لیے سزا و جزا کا نظام انہیں زہر لگتا ہے۔ کرپٹ جمہوریت انہیں بھاتی ہے اور جمہوریت کو عوام دوست بنانے، معاشرے کا گند صاف کرنے کی سعی و تدبیر سے یہ گھبراتے ہیں، گاڑی، گھڑی، موبائل فون اور گھر ہمیں 2019ء ماڈل کے درکار ہیں مگر جمہوریت صدیوں پرانی ازکار رفتہ اور خاندانی آمریت پر مبنی، کرپشن زدہ، اقربا پروری کا شاہکار۔ دھت تیرے کی!