نوٹسز اور انکوائری کمیٹیوں کے قیام کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔عوام بے حال ہیں کہ جس بھی عوامی مسئلے پر نوٹس لے کر انکوائری کمیٹی قائم کی گئی‘وہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے بحران میں بدل جاتا ہے۔ حکومتی اقدامات کے باعث کاروباری سرگرمیاں محدود سے محدودتر ‘ بے روزگاری ومہنگائی میں اضافہ اور مختلف شعبوں میں حکومتی رٹ بے اثر ہوچکی ہے۔نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وزیراعظم نے جس مافیا کے خلاف قومی وعوامی مفاد میں کارروائی کا آغاز کیا ‘ان کے دفاع میں کابینہ ارکان ہی کھل کر سامنے آگئے ‘ـ جس کی ماضی میںکوئی مثال نہیں ملتی۔ وزیراعظم نے مارچ 2019ء میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے خلا ف نوٹس لیا توپتا چلا کہ ادویات تیار کرنے والی کمپنیاں کنزیومرپرائس انڈیکس کی آڑ میں قیمتوں میں بلاجواز اضافے میں ملوث ہیں‘جنہیں وزارت صحت کی آشیرباد بھی حاصل ہے۔یوں وفاقی وزیر عامر کیانی کو وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے ۔یہ پاکستان تحریک انصاف کے دورحکومت میں اربوں روپے بٹورنے کا پہلا اسکینڈل تھا۔ وزیراعظم نے ڈاکٹر ظفر مرزا کومعاون خصوصی برائے صحت تعینات کیا تو مئی 2019 میں ظفر مرزانے ادویات کی قیمتوں 500فیصد اضافے کو بلاجواز قرار دے کر75فیصد تک محدود کروادیا‘ان کا دعویٰ تھا کہ عوام کو 7 ارب روپے کا ریلیف ملا ۔ کمپنیاں بلاجواز ادویات کی قیمتیں بڑھانے میں ملوث تھیں۔انہی شکایات کے نتیجے میں نیب عامر کیانی کے خلاف انکوائری شروع کرچکا ہے۔ وزیراعظم نے دسمبر 2019ء میں وزارت صحت کو ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2018پرنظرثانی کی ہدایت کی تاکہ کمپنیوں کا قیمتیں ازخود بڑھانے کا راستہ روکا جاسکے۔وزیراعظم کی ہدایت کیساتھ ہی کراچی اور لاہور کی بااثرفارماسوٹیکل کمپنیاں متحرک ہوئیں اور انکے نمائندوں نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال دئیے۔ معاملہ 6ماہ لٹکا رہا‘اس عرصے میں کمپنیوں نے ڈاکٹر ظفر مرزا ور مشیر صنعت وپیداوار رزاق داؤدکو اپنی حمایت میں ’راضی‘ کر لیا۔اللہ بھلا کرے وفاقی سیکرٹری صحت عامر اشرف خواجہ کا جنہوں نے ڈاکٹر ظفر مرزا کے دباؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سمری تیار کی جس کے تحت وفاقی کابینہ سے ادویات ساز کمپنیوں سے قیمتوں میں اضافے کااختیار واپس لینے کی سفارش کی گئی۔ وزیراعظم نے معاملے پر خصوصی اجلاس طلب کیا تو ڈاکٹر ظفر مرزا اور‘ رزاق داؤد نے کمپنیوں کو قیمتوں میں ازخود اضافے کا حاصل اختیار ختم کرنے کی کھل کرمخالفت کر دی ۔ رزاق داؤد اور ظفر مرزا نے ہی بھارت سے ادویا ت درآمد کرنے کی راہ ہموار کی اور بعد ازاں انکوائری رپورٹ فائلوں میں دبادی۔ وزیراعظم کی ہدایت پر معاملے کو 7جولائی کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا جہاں بالآخر ادویہ ساز کمپنیوں سے قیمت میں اضافے کا اختیار واپس لینے کی منظوری دیدی گئی۔اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم مرزا اورداؤد سے خوش نہیں ‘جلد ایکشن لئے جانے کا امکان ہے۔ خاکسار نے 2جولائی کے کالم میں گندم بحران اور آٹے کی قیمت میں اضافے کامسئلہ اجاگر کیا تھا کہ کس طرح پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کواپنے ہی اقدامات کی وجہ سے گندم کی قلت کے ایک اور بحران کا سامناکرنا پڑگیا ہے جس کے باعث اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت 2ہزار300روپے فی من سے تجاوز کرچکی ہے۔ آٹے کی قیمت کنٹرول کرنے کیلئے پنجاب حکومت کی جانب سے اربوں روپے سبسڈی دینے کی راہ ہموار کرنیکا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔وزیراعظم نے حسب روایت اس معاملہ کا 6جولائی کو نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف کارروائی اور عوامی کو سرکاری ریٹ پر آٹے فراہم کرنے کی ہدایت کردی ۔دوروز گزر چکے مگر آٹا کا تھیلا 860 کے بجائے1150سے1200روپے میں فروخت کیا جارہا ہے ۔اسلام آباد میں چکی کا آٹا 78روپے فی کلو ہوچکا جو سال قبل 50روپے فی کلو تھا۔ مسئلہ نوٹس سے نہیں بلکہ فوری طور پرگندم کی درآمد سے مارکیٹ میں قلت پر قابو پانے سے حل ہوگا۔ ای سی سی نے 10جون کو گندم کی درآمد پر تمام ٹیکس معاف کرنے کی منظوری دی جس کا نوٹیفکیشن گذشتہ روز کیا گیا ہے۔ آج مادر ملت کی 53ویںبرسی ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح ‘ قائداعظم کی حقیقی جانشین تھیں‘ایسی بہن جس نے اپنی زندگی کو بھائی کی خدمت اور تحریک آزادی کے لیے وقف کر دیا تھا ۔ قائداعظم نے اپنے سیکرٹری کرنل برنی سے فاطمہ جناح کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’وہ اپنی بہن کی سالہا سال کی پرخلوص خدمات اور مسلمان خواتین کی آزادی کیلئے انتھک جدوجہد کی وجہ سے ان کے انتہائی مقروض ہیں‘‘۔مادر ملت کی عصری سیاست و معاملات پر گرفت نا قابل یقین حد تک مضبوط تھی۔ 1965ء کے صدارتی انتخاب کے موقع پر ایوب خاں کی نکتہ چینی کے جواب میں مادر ملت نے کہا تھا’’ایوب فوجی معاملات کا ماہر تو ہو سکتا ہے لیکن سیاسی فہم و فراست میں نے قائد اعظم سے براہ راست حاصل کی ہے اور یہ ایسا شعبہ ہے جس میں آمر مطلق نا بلد ہے‘‘۔ 9جولائی1967ء کو محترمہ فاطمہ جناح 73 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ سبز ہلالی پرچم میںلپٹا جسد خاکی قصر فاطمہ سے پولو گرائونڈ پہنچا تولاکھوں افراد کا مجمع موجود تھااور ہر آنکھ اشکبار تھی۔محترمہ فاطمہ جناح کو ان کی وصیت کے مطابق مزار قائد میں دفن کیا گیا ۔اعلیٰ قومی خدمات کے اعتراف میں پاکستانی عوام مادر ملت کو ہمیشہ یاد رکھیںگے۔ شہر اقتدار کے ڈرائنگ رومز اور اقتدارکی راہدایوں میں بہت سی چہ میگوئیاں ہیں۔قدر ت کا لکھا ٹل نہیں سکتا مگر اب وقت ضائع کئے بغیر عمران خان کو ان’ کھوٹے سکوں ‘سے چھٹکارا پانا ہوگا جن کے باعث عوام کی زندگیاں اجیرن ہوچکیں۔