ہر انسان کی فطری زبان اس کی اپنی مادری زبان ہوتی ہے۔ مادری زبان ہی میں انسان اپنامافی الضمیر کا اظہار کسی بھی دوسری زبان کے مقابلے میں بہتر کر سکتا ہے۔ ماں کی زبان حقیقت میں خواب وخیال کی زبان ہوتی ہے، اسی لئے علم نفسیات اور لسانیات کے ماہرین اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ بچوں کو ایسی زبان میں تعلیم دینی چاہیے جس میں وہ خواب دیکھتے ہوں۔ ان ماہرین کا یہ دعویٰ بھی طویل تجربات کے بعد سچ ثابت ہوا ہے کہ جس بچے کو اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں ، نتیجے کے طورپر وہ ان بچوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیںجنہیں یہ مواقع میسر نہ ہوں۔اس ملک میں بہت سے دیگر بنیادی مسائل کی طرح زبان اور لسانی شناخت کا مسئلہ بھی پہلے ہی دن سے لاینحل رہاہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ہماری خارجہ پالیسی کی طرح ہماری لینگوئج پالیسی بھی ہروقت قابل رحم رہی ہے کیونکہ ریاست آج تک یہاں پر بولی جانے والی زبانوں کی حیثیت کے تعین کے بارے میں تذبذب کا شکار نظرآتی ہے ۔ اقوام متحدہ نے 1999ء میں اکیس فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیاتھا۔ قیام پاکستان کے بعد مادری زبانوں کو وسیلہ تعلیم بنانے کے مطالبات توکیے گئے لیکن بدقسمتی سے ان مطالبات کو حکام وقت سے منوانا کل کی طرح آج بھی ِ محال دکھائی دیتاہے۔پوری ملکی تاریخ میں شاید ایک ہی مرتبہ مرحوم ایوب خان کے دور حکومت میں قومی تعلیمی کمیشن کی ایک رپورٹ میں مادری زبانوں کو اپنے علاقوں کو ذریعہ تعلیم بنانے کی سفارش کی گئی تھی جس پر بھی عملدرآمدنہیں ہوسکا ۔سچی بات یہ ہے کہ ایک طرف ہم نے اردو زبان کوضرورت سے زائد رعایت دے کراس سے ہردورمیں اپنی مادری زبانوں پشتو، سندھی ، پنجابی ، بلوچی ،سرائیکی وغیرہ کا استحصال کیا ہوا ہے تو دوسری طرف ہم نے انگریزی کو اپنے اوپر غالب کردیاہے۔ ہماری ذہنی پستی کی انتہا کا تویہ عالم ہے کہ معاشرے میں پشتو ، پنجابی ، سندھی یا بلوچی زبان کے ایک پی ایچ ڈی اسکالر کی وہ اہمیت نہیں جتنا کہ ایک انگریزی لینگوئج سینٹر میں پڑھانے والے ایک ادنیٰ استاد کو حاصل ہے۔ بالخصوص ملک کا مقدمہ لڑنے والے ہمارے حکمرانوں کوجب بھی عالمی فورم پر کچھ کہنے کا موقع ملتاہے تووہ انگریزی زبان ہی کا سہارالیتے ہیں۔بجا کہاگیاہے کہ قومیں جب ترقی کی منازل طے کرتی ہیں تو اس میں بنیادی کردار اُس قوم کی زبان اداکرتی ہے ۔یورپ اور ایشیاء کے سنگم پرواقع ملک ترکی کولیجیے، جن کے حکمرانوں اور عوام دونوں کا معاملہ ہم سے ہروقت قابل فخراور قابل رشک رہا ہے۔ مغرب سے اتنی قربت کے باوجود ترک حکمرانوں نے ہمیشہ عالمی فورم پر اپنی زبان ترکی ہی کو اظہار کا ذریعہ بنایاہواہے ۔صدر طیب اردوان تین مرتبہ پاکستان کے مشترکہ ایوان سے خطاب فرماچکے ہیں اور ہر مرتبہ انہوں نے ترکی زبان میں اپنی بات کی ہے۔اسی حساب سے برادر ملک چین کے بارے میں اگر ہم یہ دعویٰ کرلیں تو شاید مبالغہ نہیں ہوگا کہ یہ لوگ چینی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں تقریر کرنے کو باعث شرم تصور کرتے ہیں ۔ سابق چینی صدر چواین لائی کے بارے میں کہا جاتاہے کہ موصوف صدر کو اپنی زبان سے اتنا پیارتھاکہ جس لطیفے کو چینی زبان میں ان کو سنایا جاتاتو ان کی خوب ہنسی نکل جاتی تھی لیکن جب یہی لطیفہ انگریزی میں انہیں سنایا جاتاتو وہ خاموش رہتے۔ چوہدری محمد رفیق نے اپنی کتاب ’’ پنجاب میں اردو کا نفاذ ‘‘ میں برصغیرکی انگریز نوکر شاہی کے درمیان خط وکتابت کا ذکر کیا ہے جس میں انہوں نے زبان کے بارے میں شاہ پور کے ایک انگریز ڈپٹی کمشنرمیجر ولسن کے ایک خط کا حوالہ بھی دیاہے، میجر ولسن لکھتے ہیںکہ ’’اگر زبان کا ہدف خواندگی کو بڑھانا ہے تو یہ مقصد صرف اور صرف مادری زبان کے نفاذ ہی سے حاصل کیا جاسکتاہے۔اس سلسلے میں مسٹر ولسن نے پرانے برطانیہ( جہاں ایک وقت میں لاطینی اور پھر فرانسیسی زبانیں نافذتھی ) کا حوالہ بھی دیاہے کہ ’’ اسی زمانے میں برطانیہ میں لاطینی اور نہ ہی فرانسیسی زبان کے نفاذ سے شرح خواندگی میں اضافہ ہوا بلکہ ناخواندگی کا مسئلہ صرف اس وقت حل ہوا جب انگریزی زبان کو اپنایا گیا‘‘۔ہاں توبات کااصل مدعا یہ ہے کہ قوم کے وسیع تر تعلیمی ، ثقافتی اور معاشی مفاد میں ہمارے ارباب حل وعقد کو یہ اس ملک میں بسنے والی تمام اقوام کی مادری زبانوں کی حیثیت کا تعین کرنا ناگزیرہے۔جس طرح صوبہ سندھ میں سندھی زبان تعلیم کی زبان ہے، اسی طرح خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بسنے والے کروڑوں پشتونوں کو بھی اپنے علاقوں میں اپنی مادری زبان میں تعلیم کا حق دینا چاہیے ۔ صوبہ پنجاب میںآباد پنجابی اورسرائیکی اقوام اور بلوچستان کے غیور بلوچوں کوبھی بہرصورت یہ حق ملنا چاہیے ۔ انتہائی افسوس کامقام ہے کہ ہمارے شمالی علاقہ جات(گلگت بلتستان) میں بے شمار زبانیں آج ریاستی غفلت اور عدم توجہی کے باعث اپنی بقا کے خطرات سے دوچار ہیں۔ لسانیات پر تحقیق کرنے والوں نے اس ملک میں بولی جانے والی چھہتر کے لگ بھگ زبانوں میں سے اٹھائیس ایسی زبانوں کی نشاندہی کی ہے جن کے معدوم ہونے کا خدشہ ہے۔ ان زبانوں میں سات زبانیں غیرمحفوظ ہیں، پندرہ زبانوں کویقینی خطرات لاحق ہیں اور چھ زبانیں شدید خطرے سے دوچار ہیں۔بھلا ہوپھربھی یو ایس ایڈجیسی فلاحی تنظیم کا جس کے تعاون سے چلنے والے ’’ ایف ایف آرآئی اورایف ایل آئی جیسے نجی ادروں کا،جو ہمارے شمالی علاقہ جات میں ان میٹھی میٹھی قریب المرگ زبانوں کوپھر سے زندہ کررہے ہیں۔ آخر میں بابائے غزل مرحوم امیر حمزہ شنواری کی شہرہ آفاق پشتو غزل کا ایک شعر وائی اغیار چی د دوزخ ژبہ دہ زہ بہ جنت تہ د پشتو سرہ زم ’’اغیار تو میری ماں کی بولی پر ایک دوزخی زبان کا الزام لگاتے ہیں لیکن میں نے یہ ٹھان لی ہے کہ میں جنت میں بھی اپنی زبان پشتو ہی کے ساتھ داخل ہوں گا‘‘۔