اندازہ یہی ہے کہ آنے والے مہینوں میں پاکستان کے لیے چیلنجز اور مشکلات بڑھیں گے ۔بیرونی محاذپر پاکستان کی سول اور عسکری قیادت اسرائیل اور بھارتیوں کا مشترکہ حدف ہیں۔ ریاست کے اندر ، پاکستان کی خود مختاری اورسالمیّت کو تسلیم نہ کرنے والی قوتوں کو پہلی بار مرکزی سٹیج دستیاب ہو چکا ہے۔ سال 1997ء میں نواز شریف سپریم کورٹ پر حملے، بعد ازاں آرمی چیف سے استفعیٰ لینے کے بعداُس وقت بھی خود کو وقت کا ’امام‘ سمجھ بیٹھے تھے ۔ اداروں سے بالا بالا،ہندوستانی اور امریکی رہنمائوں سے ذاتی مراسم استوار کرلئے۔ امریکی ایماء پرہی ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ضیا الدین بٹ کی نگرانی میں اسامہ بن لادن کو اغواء کرنے کے لیے ریٹائرڈ کمانڈوز پر مشتمل ایک فورس کا قیام عمل میں لایا گیا۔سفارتی اور عسکری اداروں کو اس معاملے سے قطعی بے خبر رکھا گیا۔منصوبے پر عملدرآمد نہ ہوسکا کہ اس دوران کارگل کا بحران سامنے آگیا۔ جولائی 1999ء کے پہلے ہفتے میں نواز شریف کلنٹن سے تنہائی میں ملاقات پر مصرتھے۔ وہ تنہائی میں امریکی صدر سے کیا کہنا چاہتے تھے، ہمیں معلوم نہیں۔ تاہم ہم جانتے ہیں کہ میاں صاحب’ مخصوص ‘غیر ملکی سربراہوں سے تنہائی میں ملاقاتوں اور ذاتی مراسم کو ہی ترجیح دیتے رہے ہیں۔ اداروں پر دبائو کوئی نئی بات نہیں۔ محسوس کیا گیا کہ پاکستان کو افغانستان میں امریکی اہداف کے حصول پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ، تو ایک بیانیہ ترتیب دیا گیا۔اس بیانئے کے مطابق پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ پرامن تعلقات کی بحالی کے راستے میںرکاوٹ اور خطّے میں جاری دہشت گردی اور بدامنی کے لئے ذمہ دار ٹھہرا یا جانا تھا۔اسی بیانئے کی روشنی میں ’ڈیپ سٹیٹ‘ کا نظریہ پیش کیا گیا ،جسے پاکستان کے اندر نام نہاد لبرلز نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اب اسے ’ریاست کے اوپر ریاست‘ کہا جا رہا ہے۔اس دوران ،یہ جانتے ہوئے کہ روزِ اول سے افغان بھارت گٹھ جوڑ پاکستان کے لیے ایک بھیانک خواب کی طرح ہے۔ ا فغانستان میںبڑھتے بھارتی اثرورسوخ اور بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی سے متعلق واشگاف بھارتی عزائم کو یکسر نظر انداز کیا جاتا رہا ۔پاک فوج پردبائو بڑھانے کے لئے قبائلی علاقوں میں پی ٹی ایم جیسی تنظیموں کی آبیاری کے لئے پشتون نوجوانوں پر سرمایہ کاری کا آغاز کیاگیا۔ ان نوجوانوں کو بلوچستان کی پشتون پٹی میں محمود اچکزئی کی تائید و امداد حاصل ہے۔اچکزئی صاحب پاک افغان سرحد کو تسلیم نہیں کرتے اور وقتاًفوقتاً پاکستانی پشتون علاقوں پر افغانستان کا حق جتاتے ہیں ۔ پی ٹی ایم قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالی اور اسلامی دہشت گردوں کی پشت پناہی کے لئے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے۔ سال 2013 ء میں حکومت سنبھالتے ہی عسکری اداروں کی طرف سے تعاون و خیر سگالی پر مبنی پیغامات کے باوجود نہ تو نواز شریف کے دل کا میل اور نہ ہی ان کے چہرے پر کچھائو دور ہو سکا۔کبھی جنرل مشرف پر مقدمات تو کبھی ایک میڈیا ہائوس کے ذریعے اداروں کی تضحیک کا سلسلہ جاری رہا۔ ’ڈان لیکس‘ کا معاملہ سول ملٹری تعلقات میں اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ بدلے ہوئے عالمی حالات کا ادراک سبھی کو تھا ، نواز شریف نے مگر صورت حال کو مدبرقومی رہنما نہیں بلکہ ایک موقع پرست سیاست دان کے طور پر دیکھا ۔اسی دوران مودی اور بدنام ِ زمانہ بھارتی اہل کاروں سے ان کی خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اکتوبر 2019ء میںبظاہر ایک بندوبست کے تحت ،لندن روانگی کے بعد ایک سال تک کی خاموشی اور نامہ بری کے ذریعے بیٹی کو پاکستان سے نکالنے میں ناکامی کے بعدعسکری قیادت کو پیغام پہنچایا گیا کہ نواز شریف کو مطلوبہ رعایت نہ دی گئی تو وہ’ ووٹ کو عزت دینے‘ کیلئے اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ صورتِ احوال اب یہ ہے کہ دی گئی دھمکی کے عین مطابق، نواز شریف اداروں پر صدقے واری اوران کی لیڈر شپ پر حملہ آور ہیں۔پی ڈی ایم میں شامل اتحادی جماعتوں کی تمام تر امیدیں اب نواز شریف اور ان کی بیٹی سے وابستہ ہیں۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ،مزارِ قائد کے پہلو میں کھڑے ہو کر محمود اچکزئی نے اردو زبان کی قومی حیثیت پر سوال اٹھا یا ، تو کوئٹہ میں پاک افغان باڑ کو اکھاڑ پھینکنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ یقینا افغانیوں کی پاکستان میں بے دریغ آبادکاری انہیں راس آتی ہے ۔ پی ڈی ایم میں شامل بلوچ قوم پرستوں نے سی پیک کو بموں سے اڑا دینے کا عزم ظاہرکیا۔ مسنگ پرسنز کے لواحقین کو آبدیدہ ہو کر گلے لگا نے والی مریم کو اس امرکی پرواہ نہیں تھی کہ سٹیج پرلہرائی جانے والی تصویروں میں چینی سفارت خانے پر حملے میں ملوث دہشت گرد کی تصویر بھی شامل تھی۔ سینٹ میں اگلے روز مولاناعطا الرحمن نے بھارت اور افغانستان سمیت بیرونی ممالک کو پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے بری الذمّہ قرار دیتے ہوئے الٹا ان ممالک میں ایسے واقعات کا کھرا پاکستان میں آتا ہوا ڈھونڈ لیاہے۔ پی ڈی ایم کے بیانئے میں ’ فکری یکسوئی‘ کوبہرحال تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہ کہنا بے سروپا نہیں ہوگا کہ مولانا نورانی کے بیٹے کا بیان زبان کی لغزش سے بڑھ کے پی ڈی ایم کے عمومی مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتا ہے۔ اندازہ یہی ہے کہ جلسے جلوسوں میں بولی جانے والی نفرت انگیز زبان کو بھارتی، اسرائیلی اور مخصوص مغربی اداروں اور اردو زبان میں نشریات پیش کرنے والے مغربی میڈیا کی حمایت حاصل رہے گی۔خطے میں تیزی سے بنتے ٹوٹتے گٹھ جوڑ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ فیٹف پاکستان کے سر پر لٹکتی تلوار کے طور استعمال کیا جاتا رہے گا۔ سی پیک پر کسی نا کسی صورت حملے جاری رہیں گے۔ احتجاجی تحریک کے دوسرے مرحلے میں جب ملک میں معاشی سرگرمیوں کا پہیہ جام کرکے حکومت کو معاشی طور پر مفلوج کر دیا جائے گا تو یہی وہ وقت ہوگا جب پاک بھارت سرحد پر مودی حکومت کی طرف سے سنجیدہ مہم جوئی کا امکان ظاہر کیا جا رہاہے۔اسی امکانی صورت حال میں ’ امام خمینی‘ کو امید ہے کہ ان کو واپس آکر بچے کھچے ملک کی قیادت سنبھالنے کی دعوت دی جائے گی۔ یہ توخود ’امام خمینی‘ ہی بتا سکتے ہیں کہ ایاز صادق کا حالیہ بیان ان کے ’ عزیمانہ بیانئے‘ کا تسلسل ہے یا کہ محض انفرادی احمقانہ پن۔ تاہم ہم کسی قدر یقین کے ساتھ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ پچاس سالہ سیاسی تجربے کے باوجود ہمارے ’امام خمینی‘ پاک فوج کی ساخت،نفسیات اور اس کی صلاحیتوں کا ادراک نہیں پا سکے۔