بیسویں صدی کے دو مؤرخین ایسے ہیں جن کی تصانیف کی وسعت، معیار اور تحقیقی مرتبہ و مقام اس قدر بڑا ہے کہ کم از کم گزشتہ دس صدیوں کے تاریخ دانوں کے کام پر چھایا ہوا ہے۔ ایک برطانیہ میں پیدا ہونے والا آرنلڈ ٹائن بی (Arnold Toynbee) ہے جس کی گیارہ جلدوں پر مشتمل "A Study of History" (مطالعہ تاریخ) اب تک حرفِ آخر سمجھی جاتی ہے، جبکہ ٹائن بی کا دوسرا ہم عصر امریکہ میں پیدا ہونے والا ول ڈیورانٹ (Will Durant)ہے۔ اس نے بھی گیارہ جلدوں پر مشتمل ایک عظیم تصنیف "The Story of Civilization" (تہذیب کی کہانی) تحریر کی اور انسانی تہذیب کے ارتقاء کو سمجھنے کیلئے ایسے لاتعداد سائنسی اور فلسفیانہ پیمانے بتائے جو آج بھی اہمیت اور افادیت کے حساب سے اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ول ڈیورانٹ کی یہ کتاب ایک سو دس صدیوں کی تاریخ کا جائزہ لیتی ہے، جسے اس نے پچاس سالوں میں مکمل کیا۔ یہ وہ دَور تھا جب کتاب کا حریف ریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن آ چکا تھا۔ ڈیوارنٹ کی بیٹی ایتھل کو 1977ء میں یہ خیال آیا کہ اپنے والد کے اس عظیم کام کو ایک ٹیلی ویژن سیریز کی شکل دے تاکہ کتاب سے دُور ہوتی دُنیا تک یہ کام زیادہ سے زیادہ پہنچ سکے۔ اس سلسلے میں اس نے پیرامائونٹ سٹوڈیو سے معاہدہ بھی کر لیا۔ اس کے علاوہ اس نے اپنے والد سے ’’تہذیب کی کہانی‘‘ کے عنوان سے کچھ آڈیو لیکچر بھی ریکارڈ کرنے شروع کر دیئے۔ ڈیورانٹ اس وقت 92 سال کا ہو چکا تھا۔ اسے یہ کام کافی تھکا دینے والا لگا اور اس نے اپنی بیٹی کو 7 مارچ 1977ء کو ایک خط میں لکھا ’’اپنی افادیت کا عرصہ پورا ہو جانے کے بعد بھی زندہ رہنا میرے لئے باعثِ شرم ہو گا، میں نہیں چاہتا کہ تمہیں یا پیرامائونٹ کو اپنے دائمی پن پر توانائی یا رقم خرچ کرنے دوں‘‘جس کے بعد اس نے دونوں کام ترک کر دیئے۔ لیکن اس عظیم فلسفی اور مؤرخ نے اپنے سارے کام کی تلخیص کر کے اسے ایک ایسے انداز میں مرتب کرنا شروع کیا جس سے پڑھنے والوں کو چند سو صفحات پر مشتمل ایک مکمل دستاویز مل جائے۔ اس کتاب کو مرتب کرنے کا مقصد تہذیب کے ارتقاء کو سمجھنے کیلئے قاری کو تاریخ کے اُچھلتے کُودتے یا کبھی کبھی خاموش بہتے دریا کی موجوں میں غوطہ زن کرنا تھا۔ اس نے صرف ایک سال کے اندر اس کتاب کے 19 ابواب مکمل کر لئے اور 25 اگست 1978ء کو اپنی بیٹی کو خط لکھا کہ وہ تاریخ کو بطور فلسفہ منتقل کرنے کی آخری کوشش کر رہا ہے۔ اس کام میں اس کی بیوی ایریل نے اس کا بھر پور ساتھ دیا۔ ابھی وہ اس کتاب کے 21 ابواب ہی مکمل کر سکا تھا کہ اسے دل کا دورہ پڑا اور وہ امراضِ قلب کے ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ اس کی بیوی کو ایسا لگا کہ جیسے اب اسکا خاوند زندہ واپس نہیں آ سکے گا۔ اس نے غم میں کھانا پینا چھوڑ دیا اور وہ 25 اکتوبر 1981ء کو انتقال کر گئی۔ ڈیورانٹ صحت یاب ہو رہا تھا کہ بیوی کے مرنے کی خبر، جو گھر والوں نے اس سے چھپائی تھی، اسے اچانک ٹیلی ویژن پر مل گئی اور 7 نومبر 1981ء کو اس کے دل نے مزید کام کرنے سے انکار کر دیا۔ مرنے کے بعد اس عظیم مصنف، فلسفی اور مؤرخ کے تمام کاغذات بوسٹن آرکائیوز کا حصہ بنا دیئے گئے۔ ان میں اس کتاب کا مسودہ بھی شامل تھا جو 23 سال بعد 2001ء میں میسا چوسٹ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر جان لٹل کے ہاتھ آیا اور اس نے اس کتاب کو ’’ہیروز آف ہسٹری‘‘ (Heroes of History) کے نام سے شائع کروا دیا۔ اس کتاب کو ہمارے دوست اور اُردو ترجمہ کے محسن، یاسر جواد نے 2006ء میں ترجمہ کر کے شائع کروایا۔ یہ کتاب ایسا لگتا ہے انسانی تہذیب کے ہر بدلتے موڑ کی کہانی ہے اور انسانی تاریخ کے ہر دَور میں ہونے والے واقعات، بدلتی اقدار اور جنم لینے والے کرداروں کی تشخیص کا پیمانہ ہے۔ ایک سو دس (110) صدیوں پر محیط تاریخ کے مطالعے کے بعد ول ڈیورانٹ نے چند ایسے اصول بتائے ہیں، جن سے قوموں کے امراض کی تشخیص ہوتی ہے اور ان کی اچانک صحت یابی کی وجوہات کا بھی پتہ چلتا ہے۔ کسی ایک اصول کو بیان کرتے ہوئے اس نے تاریخ کی لاتعداد مثالیں پیش کی ہیں۔ تاریخ شناسی میں اس کے اصول بالکل ایسے ہی ہیں جیسے صحت کے اصول، یعنی گرمی میں گھومو گے تو ’’سن سٹروک‘‘ ہو گا اور سردی میں نکلو گے تو نزلہ اور زکام کا خطرہ ہے۔ انسانی تہذیب و تاریخ کو سمجھنے کیلئے قرآن و حدیث کے بعد میں نے اس کتاب کو بہت مدد گار پایا ہے۔ بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اس نے تہذیبی بگاڑ، اخلاقی زوال، معاشرتی انحطاط اور پیغمبروں یا مصلحین کی آمد کی وجوہات بالکل قرآن و حدیث سے مستعار لی ہوں۔ اگرچہ کہ وہ مسلمانوں کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے خاصہ متعصب، تنگ نظر اور کنجوس نظر آتا ہے لیکن اس کے باوجود، تہذیبی برائیوں کی تشخیص کیلئے اس کی یہ کتاب ایک ماہرانہ گائیڈ کا درجہ رکھتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے گزشتہ بیس سال، ایک بڑی تہذیبی کشمکش کے سال ہیں اور اب یہ کشمکش اپنے اس عروج پر پہنچ چکی ہے، جہاں ول ڈیورانٹ کے کلیے کے مطابق معاشرے میں ایک خوفناک اور اچانک ’’تہذیبی زلزلہ‘‘ آتا ہے۔ ہم اس زلزلے سے بالکل بے خبر، اس کھولتے ہوئے تہذیبی آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھے ہیں۔ آج سے تقریباً پندرہ سال قبل میں نے اس آتش فشاں کے بھڑکنے اور اچانک زندہ ہونے کے بارے میں بار بار لکھا تھا۔ لیکن یار لوگوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور ہمارے ہاں سب کچھ ویسے ہی چلتا رہا۔ آج سے تین دہائیاں قبل ہم نے جس اخلاقی انحطاط اور معاشرتی زوال کے سفر کا آغاز کیا تھا، ہمارا معاشرہ اب اس کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ ہم پر ایک ایسا عالم طاری ہے کہ جہاں روز ہم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کو اچانک یہ کیا ہو گیا ہے، ہر روز جنسی زیادتی کے سانحے، شہروں میں برسرِعام عورتوں کی عزتوں سے کھیلنا، بہیمانہ قتل، معصوم بچیوں اور بچوں کی آبروریزی، یہ سب اس قدر زیادہ کیسے ہو گیا۔ ہمارے جیسے معاشرے کے بارے میں، ڈیورانٹ تاریخ کی لاتعداد مثالیں دیتے ہوئے بتاتا ہے کہ جب کبھی کسی معاشرے میں ان کی مروجہ اخلاقیات پر زبردستی شہوت پرستی یا جنسی بے راہ روی کو مسلط کرنے کی یا ٹھونسنے کی کوشش کی گئی، تو معاشرہ کچھ دیر تک اس سب کو برداشت کرتا ہے، تھوڑا روتا پیٹتا بھی ہے لیکن پھر ایک دن اچانک اس کے اندر سے ایک ایسا آتش فشاں برآمد ہوتا ہے جو اس ساری جنسی بے راہ روی اور شہوت پرستی کی دُنیا کو بزورِ قوت برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ وہ اسے تاریخ کے ’’لٹھ مار گروہ ‘‘ کہتا ہے جو زبردستی کسی معاشرے میں واپس اخلاقیات نافذ کرتے ہیں۔ وہ پہلی مثال اطالوی نشاۃِ ثانیہ کے دوران اُبھرنے والے بورجیا (Borgias) خاندان کی دیتا ہے، جو پندرہویں اور سولہویں صدی میں اُبھرے اور ان کے زمانے میں شہوانیت اور جنسی اختلاط سکہ رائج الوقت بن گیا۔ جنسی بے راہ روی کا عالم یہ تھا کہ مقدس رشتوں مثلاً بہن بھائی یا باپ بیٹی کے درمیان تعلق کو بھی ایک معمول سمجھا جاتا تھا، رشوت، اقرباء پروری، قتل،ہیجان معاشرتی پہچان بن چکے تھے۔ لوگوں کی اکثریت اپنے دَور کے اس سیکولر، لبرل این جی او ٹائپ اشرافیہ سے ایک دن اس قدر تنگ آئی کہ آخری حکمران سیزر کے مرنے کے بعد یہ خاموش اکثریت والے ’’لٹھ مار گروہ‘‘ جو جرمن فوج کے کے اندر خاموشی سے جمع ہو گئے تھے، انہوں نے روم کو فتح کیا، پہلی دفعہ روم کی بجائے ہالینڈ سے ایک شخص کو پوپ بنایا جس نے پورے کلیسا کی صفائی کر دی۔ یہاں تک کہ تمام مجسموں اور تصاویر کو بڑی بڑی دیواروں میں قید کر دیا اور اٹلی میں بزورِ طاقت ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کی گئی جس میں نقاب اور حجاب تو دُور کی بات ہے عورتیں بگھیوں کے گرد چادریں لپیٹ کر باہر نکلتی تھیں۔ اس نے دوسری مثال انگلینڈ میں الزبتھ اوّل کے دَور کی دی ہے کہ جب پورے برطانیہ میں ایک بے خطر جنسی تلذذ پسندی کا طوفان برپا تھا۔ (جاری ہے)