ہمیں زمانے نے سب کچھ سکھا دیا ورنہ ہمارے پاس تو ایسا کوئی کمال نہ تھا لاک ڈائون کے حوالے سے کیے گئے موجودہ فیصلے سے تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عثمان بزدار کے پیچھے کوئی تھنک ٹینک ہے اور وہ سوچتا بھی ہے یا یوں سمجھ لیں کہ اچھی حکمت عملی سے کام کیا گیا ہے۔ میرال خیال ہے کہ یہ پنجاب والا فیصلہ عثمان بزدار کی اپنی سوچ اور فکر کا نتیجہ ہی ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصے سے وہ وزیر اعلیٰ لگنے لگے ہیں۔ پنجاب میں تین روز لاک ڈائون رہے گا اور چار روز کے لیے دکانیں کھلیں گی۔ گویا سب کو کھلا نہیں چھوڑا گیا کہ اب جو چاہیں کریں بلکہ سر پر ایک خوف کی تلوار ضرور لٹکا دی گئی ہے کہ اگر ایس او پیز پر عمل نہ کیا گیا اور تمام احتیاطیں نہ برتی گئیں تو پھر فیصلہ بدل بھی سکتا ہے کہ زیادہ دن لاک ڈائون رہے گا یا زیادہ دن نہیں۔ کریانہ اور جنرل سٹور صبح 9بجے سے شام 5بجے تک کھلیں گے۔ ویسے اس پابندی کو ہمیشہ کے لیے لاگو کر دیا جائے تو بہت ہی خوشگوار تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔ بجلی کی بچت تو ایک طرف لوگوں کے معمولات بدل جائیں گے وگرنہ تو رات گئے تک بیگمات شاپنگ پر ہی چڑھی رہتی ہیں۔ 3دن کے لاک ڈائون کی تدبیر کئی حوالوں سے اچھی ہے کہ کہیں ہم بھول ہی نہ جائیں کہ ’’اب ستے خیراں نہیں ہیں‘‘ ذہن میں رہے کہ کورونا ہمارے تعاقب میں ہے اور یہ تین دن ہماری ہفتہ وار ریہرسل ہے۔ کورونا کو کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی کہ وہ پورا ہفتہ یعنی سات روز یا چھ روز تک بازاروں میں آتا ہوا دندناتا رہے۔ سینئر ڈاکٹرز نے تو لاک ڈائون میں نرمی کی سخت مخالفت کی ہے اور وہ حق بجانت بھی ہیں کہ ریکارڈ پر تو کورونا کے مریض بڑھ رہے ہیں۔ ایک بات عمران خان کی بہت اچھی لگی کہ متاثرہ لوگوں کے ساتھ ناروا سلوک ناقابل برداشت ہے۔ اس مقصد کے لیے انہیں ضروری اقدام کرنے چاہئیں کیونکہ لوگ کورونا سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا ان پولیس والوں سے ڈرتے ہیں جو گھر کو سیل کر دیتے ہیں اور اہل خانہ کو اٹھا کر قرنطینہ کے لیے لے جاتے ہیں اور پھر اس سے بھی زیادہ ظالم وہ ڈاکٹر ہیں جو ہر آنے والے مریض سے کورونا فری ٹیسٹ طلب کرتے ہیں۔ بڑے بڑے ہسپتال والوں نے تو اپنے گارڈ وردیوں میں ماسک ڈال کر کھڑے کر رکھے ہیں کہ مریضوں کو باہر ہی سیفارغ کر دیں۔ کورونا کا مریض ہو تو وینٹی لیٹر نہیں اور اگر دوسرا مریض ہو تو اسے ڈرائیں گے کہ یہ کورونا سے متاثرہ ہو جائے گا۔ بندہ جائے کہاں۔ پھر ایک ہی جگہ رہ جاتی ہے۔ جسے ڈاکٹر خود بھلا چکے ہیں۔ اب خود غرضیوں سے نکل کر ایک دوسرے کو بچانے کا جتن کرنا ہو گا۔ مصلحت کوشی کب تک۔ ہم کیوں نہیں سوچتے کہ متاثر ہم میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے اور حدیث کے مطابق ہم دوسرے مومن کے لیے بھی وہی سوچیں جو اپنے لیے سوچتے ہیں۔ پورے یقین کے ساتھ تو دوسرے کی مدد کے لیے نکلیں کہ اللہ کار ساز ہے۔ ہونا وہی ہے جو اللہ نے چاہنا ہے۔ ہم تو تدبیر اور اسباب تک ہیں۔ ہم اگر احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرتے ہیں تو یہ ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شعر ذہن میں آ گیا: اس کو بھی بچانا ہے خود کو بھی بچانا ہے اک سمت ہے ذات اس کی اک سمت زمانہ ہے کچھ ستم ظریف طرح طرح کی پوسٹیں بھی لگا رہے ہیں اور کچھ دلچسپ تبصرے بھی آ رہے ہیں۔ ہمارے دوست احتشام شامی نے کہا ہے کہ حکومت نے 15جولائی تک والدین کی سزا میں توسیع کر دی۔ یقینا بچے گھر میں ستاتے تو ہیں، کہتے ہیں کہ ایک بیٹا ہی ماں کے بلڈ پریشر کے لیے کافی رہتا ہے مگر یہ شیطان قابو بھی تو ماں ہی کے آتے ہیں۔ دیکھیے جب تک خطرات منڈلاتے ہیں آن لائن تعلیم اور آن لائن خرید و فروخت ہی اچھی ہے۔ سکولوں کے کھل جانے سے واقعتاً گھڑمس مچ جانا تھا۔ پھر سخت گرمی شروع ہونے والی ہے۔ ان دنوں ویسے بھی بچے روزے رکھ کر خوب سو رہے ہیں اور صحت کے لیے اچھا ہے۔ ان کے نشوونما کے دن ہیں۔ ویسے روزہ فرض تو ہے پر ہے کمال چیز ۔ ایسے لگنے لگتا ہے کہ جیسے کوئی بیماری اس کے قریب نہیں پھٹکتی۔ کیسے افطار کا ملغوبہ ہو جاتا ہے پھر کھانا اور تین چار گھنٹے بعد فل سحری، کوئی برکت ہی تو ہے۔ مومن آزمائش پر مزید اللہ کے قریب ہو جاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ یہ دنیا تو اسباب کی دنیا ہے۔ جس نے آنے کا مقصد اور جانے کے امر کو ذہن میں رکھا وہ زندگی کی حقیقت سے آشنا ہو گیا۔ اپنے بس میں تو آنا ہے اور نہ جانا ہے۔ ہمارے پرنسپل صاحب کہا کرتے تھے کہ بہت لمبی زندگی کی امید رکھو کہ یہ اللہ کا انعام ہے اور ہر پل آخرت کے لیے تیار رہو۔ ایک بھی سانس اپنی مرضی کا نہیں اس لیے اس کی مرضی دیکھی جائے جس کے بارے میں مرزا نوشہ نے کہا تھا: جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ کہ حق ادا نہ ہوا آپ جو مرضی کر لیں آپ نے اپنی زندگی جینا ہی جینا ہے۔ آپ اپنی مرضی مر نہیں سکتے۔ آپ کو تو احسن اعمال کرنا ہے جو آپ کو شرف عطا کریں گے۔ یہی احساس محبت تو آپ کو ممتاز کرتا ہے کہ جب آپ دوسرے کے دکھ کو اپنا دکھ بنا لیتے ہیں ور اپنا سکھ بھول جاتے ہیں۔ مجھے ایک واقعہ کبھی نہیں بھولتا کہ ایک گول گپے والا گرا اور اس کے گول گپے اور پانی وغیرہ بکھر گیا۔ ایسے لگا کہ اس کو جیسے مرگی کا دورہ پڑ گیا ہے۔ میرے ایک کشمیری دوست نے اسے کافی سارے پیسے دے دیئے۔ میں نے اور کئی دوستوں نے کہا اس گول گپے والے کا تو کام ہی یہی ہے۔ اس پر ہمارے دوست رشید نے خوب جملہ کہا ’’یار!مجھے نہیں معلوم۔ اللہ نے پوچھنا تھا تمہیں کتنا ترس آیا تھا‘‘ اس کایہ بے ساختہ جملہ میں آج تک نہیں بھلا سکا ’’اللہ نے پوچھنا ہے تمہیں کتنا ترس آیا تھا‘‘اظہار شامیں یاد آ گئے: میں نے آج اس قدر سخاوت کی آخری شخص لے گیا مجھ کو بہر حال ہم لاک ڈائون وغیرہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ صحت کے زمرے میں آتا ہے اور واقعتاً جان ہے تو جہان ہے اور اچھی صحت از بس ہمارے لیے ضروری ہے صحت مند جسم پر ہی صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ اسی طرح تعلیم بھی اتنی ہی ضروری ہے بلکہ اس صحت سے بھی کچھ زیادہ کہ وہ ہو گی تو ہم صحت کی اہمیت سمجھ سکیں گے۔ تب ہی جہالت کی تیرگی دور ہو گی۔