فائنل ائیر کی کلاس تھی۔ موضوع تھا ماڈرن مسلم فلاسفی۔ موضوع بحث تھے ڈاکٹر علی شریعتی ۔۔۔امام خمینی اور انقلاب ایران۔ لیکچر اور ڈسکشن اپنے کلائیمیکس پر تھے کہ ایک طالبہ نے اپنا ہاتھ فضا میں بلند کرکے کچھ کہنے کی اِجازت چاہی اور اِجازت ملنے پر کہنے لگی ’’سر اس وقت مسلمان آبادی تقریباً پوری دنیا کا 25% ہے ۔ 57 ملک مسلمان ہیں ۔ ہماری کل تعداد دو ارب سے زیادہ ہے ۔ ایک جانب ہم مسلمان خود کو اُمتِ واحد کہتے ہیں۔ یہ بھی کہ ہم ایک جسم کی مانند ہیں۔ یہ ساراجسم اور اسکے تمام اعضاء ایک دوسرے سے حالت جنگ میں کیوں ہیں؟ سب مسلمان رنگ ، نسل، جغرافیہ ، تاریخ، کلچر، اور گورننس میں بے حد مختلف ہیں۔ قدر مشترک ہے تو صِرف دین اسلام۔ یہ ساری اُمت زوال کی ڈھلوان پر مسلسل پھسل رہی ہے۔ اقبال کہتے تھے۔۔۔ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے۔۔۔ اور اِن تازہ خدائوں میں بڑی سب سے وطن ہے۔۔۔ جو پیرہن اِس کا ہے وہ ملت کا کفن ہے۔۔۔ مگر آج کی دنیا Nation-State کی دنیا ہے ۔ جغرافیائی سرحدوں کی دنیا ۔ جِس میں ترکی کے بارڈر پر شامی مسلمان روک دیئے جاتے ہیں ۔ مسلمان ایران اور پاکستان ۔۔۔مسلمان افغان مہاجرین کی آمد کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں ۔ آج کے عہد میں سعودیہ، امریکہ اور اسرائیل ایک صفحے پر کیوں کر نظر آتے ہیں۔ اُمت کی بنیاد مذہب نہیں۔۔۔جدید بارڈرز ہیں جو جغرافیے کی قید میں ہیں۔ اسکے علاوہ دنیا بھر کے مسلمان مختلف فقوں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ کوئی شیعہ ہے کہیں سُنّی تو کوئی وھابی ۔ مزید آگے جائیں تو حنبلی، حنفی، شافعی، اور مالکی مکتبہ فکر بھی ہیں۔ سب کا اصرار ہے کہ ہم درست ہیں۔ سر ہم سب زوال کا شکار کیوں ہیں؟ سوال خاصا دِلچسپ اور عصرِ حاضر کا بنیادی سوال تھا۔ اس لیے جو جواب دیا وہ کچھ یوں تھا۔ آپ ہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہیں اور پھر اُسکا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے ’’تم غالب آئو گے، اگر تم مومن ہو‘‘ ۔ڈاکٹر علی شریعتی نے اسلام کی جدید تشریح کرتے ہوئے کیا خوب کہا تھا۔ Changing Laws for the Changing Needs. ضرورت تھی اور ہے کہ وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق اسلام کی بنیادی روح کو مجروح کیے بغیر اُسے جدید ضرورتوں سے ہم آہنگ کیا جاتا۔ مومن وہ ہوتا ہے جو اپنے عصر سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ علی شریعتی ہی کی ایک تھیوری مذہب بمقابلہ مذہب بھی ہے۔ ’’سر ذرا اسکی وضاحت کردیں‘‘۔ ایک مذہب کی وہ توجیہہ اور تعبیر ہوتی ہے جو حکمران طبقہ کے مفادات کو سوٹ کرتی ہے۔ وہ مذہب کو Status-Quo کو قائم رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسکے مقابلے پر اسی مذہب کی اصل شکل بھی موجود ہوتی ہے۔ اپنی روح اور مرکزی خیال سمیت۔ یہ درباروں اور اقتدار کے ایوانوں کا مذہب نہیں ہوتا۔ یہی مذہب ہوتا ہے اپنی خالص شکل میں ۔ مسلمانوں کے زوال کی وجہ علی شریعتی کے مطابق ان دو قسموں کے مذاہب میں تضاد بھی ہے۔ میرے خیال میں اگر اسلام کو اُسکی مکمل سپرٹ کے ساتھ روبہ عمل لایا جائے تو زوال کا عمل نہ صِرف رک سکتا ہے بلکہ واپسی کی طرف سفر بھی شروع ہو سکتا ہے۔ ضرورت ہے انفرادی درستگی کی، اجتماعی ریسرچ کی ، علم کی طرف رجوع کی۔ جب ایسا تھا تو وہ تعداد میں کم ہو کر بھی اکثریت پر غالب آجاتے تھے۔ مگر آج کے مسلمان دو ارب ہو کر بھی ٹھوکروں اور زوال کی زد میں ہیں۔ مغرب غالب ہے۔ اس لیے وہ ہمیں اسلامو فوبیا کا اسیر قرار دیتا ہے حالانکہ حقیقت یہ نہیں ۔ صرف ان کا بنایا ہوا Perception ہے جسے مغربی میڈیا ایکسپلائیٹ کر رہا ہے۔ مغرب کی ہم پر تنقید کی اور بھی وجوہات ہیں۔ زیادہ تر مسلمان ملکوں میں جمہوریت کا فقدا ن ہے۔ مخصوص شخصیات اور خاندانوں کے قبضے ہیں۔ بنیادی حقوق ناپید ہیں ۔ آزادی اظہار کی اجازت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسلامی نظام اپنی مکمل روح کے ساتھ شاید کہیں بھی نہیں۔ مسلمانوں نے صرف اسلام کو ہی نہیں۔۔۔ علم کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔ ارشاد ہے کہ علم انبیاء کی میراث ہے اور دولت قارون اور ہامان کا ترکہ ۔ ساری دنیا کے سارے مسلمانوں کا لائف سٹائل عقیدت مندانہ تو ہے مگر عالمانہ ہرگز نہیں۔ علم نور ہے۔ علیم ہونا اللہ کی صفت ہے۔ ہم نے اپنے دین کی اساس کو ہی خیر باد کہہ دیا ۔ صرف دین کی عملی پریکٹس ہی تو دین نہیں۔ دین کی ایک روح ہے، ایک مزاج ہے۔ ارشاد ہے کہ غافل اور سست کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اربوں مسلمان کھربوں دعائیں مانگ رہے ہیں مگر کیوں مستجاب نہیں ہو رہیں؟ کشمیر اور فلسطین کے جسم سے مسلسل خون بہہ رہا ہے ۔ ہر عمر کے مسلمان تشدد ، ظلم اور جبر تلے کراہ رہے ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ۔ عالمی برادری نے کیا سننی ہے، مسلمان ممالک بھی سننے سے مُنکر ہیں۔ عالمی نظام طاقتورں کے لیے بنا ہے۔ مسلمان کہیں نہ کہیںاس صراط کو کھو بیٹھے ہیں جو مستقیم تھا۔ کیا آج کا مسلمان اپنے عصر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے؟ کیا ہم مسلمان اپنی روزمرہ زندگی میں، اپنی سوچ اور اپروچ میں آقائے دو جہاں کو اپنا رول ماڈل مانتے ہیں؟ ہم روزانہ نماز میں سیدھا راستہ طلب کرتے ہیں۔ کیا ہم اپنے چھوٹے بڑے معاملات میں سیدھا راستہ اپناتے ہیں؟ اگر راستہ۔۔۔ سیدھا نہیں تو پھر منزل کے کھو جانے کا شکوہ کیسا؟ شکایت کیسی؟ دو جمع دو چار ہی تو ہوتے ہیں۔۔۔ ہم پانچ کی تمنا کیوں کرتے ہیں؟ اگر مسلمان عوام اور حکمران اپنی اپنی سوچ اور اپروچ پر نظر ثانی کر لیں تو نتائج بھی بدل جائیں گے۔اپنے زوال کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینا کوئی صحت مندانہ طرز فکر نہیں ہے ۔ ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اپنی تاریخ کے تناظر میں وقت کے کٹہرے میں کھڑا کرکے اپنا احتساب کرنا ہوگا۔