اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔ یورپین یونین نے کچھ ایسے مطالبات ہمارے سامنے رکھ دیئے ہیں،جن کا پورا کرنا کسی بھی پاکستانی حکومت کے لیے ممکن نہیں۔ اس کا تعلق ہمارے عقیدے اور ہمارے دین سے ہے۔ ناموس رسالت کے قانون کو بدلنے کی جرأت پاکستان میں کوئی حکومت نہیں کر سکتی۔ اس عقیدے کا تعلق حکومت سے نہیں عوام سے ہے۔ ہمارے عوام میں جو بھی کمزوریاں ہوں یہ بات یقینی ہے کہ ہمارے ملک کا بچہ بچہ حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سر کٹوانے کے لیے تیار ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال ہر صورت رکنا چاہئے۔ اس قانون کی آڑ میں نہ تو غیر مسلم پاکستانی عوام سے کوئی زیادتی ہونی چاہئے اور نہ ہی ان کے جان و مال کو کوئی خطرہ لاحق ہونا چاہئے۔ جن کی حرمت کے لیے ہم سرہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں، انہی کا فرمان ہے کہ اگر غیر مسلم سے زیادتی ہوئی تو روزِ محشر وہ خود اس کی طرف سے مدعی ہوں گے۔ ہماری حکومت کے لیے یہ ایک بڑا سفارتی چیلنج ہے کہ ہم یورپی یونین کو اپنے عقیدے کی پختگی کا یقین دلائیں اور حکومت ایسے تمام اقدامات کرے جس کے بعد ناموس رسالت کے قانون کو غلط استعمال نہ کیا جا سکے۔ اگر اس قانون کے غلط استعمال نہ کرنے کا عزم مصمم یورپی ممالک کو نظر آئے گا، تو کسی حد تک وہ ہمارے ساتھ اتفاق کر سکیں گے تا ہم یہ بھی قرین قیاس ہے کہ یورپی ممالک ہمارے عقیدے کو پوری طرح سمجھتے ہیں لیکن اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے پاکستان کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ FATFکی تلوار بھی ہمارے سروں پر اسی مقصد کے لیے لٹکائی گئی ہے کہ وہ پاکستان کو اپنے ڈھب پر لا سکیں۔ ظاہر ہے کہ چین کے ساتھ ہماری قربت اور CPECامریکہ اور اس کے حواری مغربی ممالک کو بری طرح کھٹکتا ہے۔ ابھی تک ہماری حکومت اور وزیر اعظم نے ناموسِ رسالت کے قانون پر یورپی یونین کے مطالبات پر جرأت مندانہ مؤقف اختیار کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی چوائس ہی نہیں تھی۔ حکومت اب اس سے کیسے نپٹتی ہے، یہ ایک سفارتی چیلنج ہے۔ امید کرنی چاہئے کہ ہماری حکومت وقتِ قیام سجدے میں نہیں گرے گی اور اپوزیشن جماعتوں سمیت پوری قوم اس مسئلے پر حکومت کی ہم آواز ہو گی اور یورپی ممالک کو یہ پیغام پوری شدت کے ساتھ دیا جائے گا کہ ناموسِ رسالت کے قانون پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم نے مسلم ممالک کے سفراء کا ایک غیر معمولی اجلاس بھی طلب کیا اور انہیں پاکستان کے مؤقف سے آگاہ کیا۔ یہ ایک بڑا قدم تھا لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ کسی بھی ملک کا سفیر ہمارے وزیر اعظم کے خیالات تو اپنے اعلیٰ حکام تک پہنچائے گا لیکن عملی طور پر وہ وہی کرے گا جو اس کے اپنے ملک کی حکومت کی پالیسی ہے۔ وزیر اعظم اپنی تقریروں اور جوش و جذبے سے انہیں کتنا ہی متاثر کیوں نہ کر دیں، احکامات وہ اپنی حکومت کے ہی مانے گا۔ ہمارے وزیر اعظم آج کل پاکستانی سفیروں کی کارکردگی سے سخت نالاں ہے۔ وہ ایک ہی ڈنڈے سے سب کو ہانک رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر شعبے کی طرح وزارت خارجہ میں بھی اچھے برے ہر طرح کے لوگ موجود ہیں لیکن میڈیا کے ذریعے اپنے ہی ملک کے تمام سفیروں کو نا اہل اور نالائق ثابت کرنا کسی طرح بھی پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ اس طرح کی تقریروں سے ہمارے سفیروں کی اپنی تعیناتی کے ممالک میں جو سبکی ہوئی ہے، اس کا شاید وزیر اعظم کو اندازہ نہیں ہے۔ سارے سفیروں کو ایک ہی ڈنڈے سے ہانکنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی کے خلاف حقیقی شکایت موجود ہے، تو اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہئے لیکن جرم کا ثابت ہونا شرط ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے پاکستانی جو بیرونی ممالک میں مقیم ہیں ،وہ سفیروں سے غیر قانونی مراعات چاہتے ہیں، کیا ان سب کی بات مان لی جائے چونکہ ان کے پاس شکایت کے لیے وزیر اعظم کا پورٹل موجود ہے۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ ہر شکایت کی میرٹ پر تفتیش کی جائے اور اس کے بعد ہی کوئی ایکشن لیا جائے۔ وزیر اعظم اور ان کے چند رفقاء کو بلاوجہ نئے دشمن بنانے میں خاص ملکہ حاصل ہے۔ مثال کے طور پر جس طرح سابقہ ڈی جی ایف آئی اے کو ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے او ایس ڈی بنایا گیا اور نہایت توہین آمیز طریقے سے نوکری سے فارغ کیا گیا، کیا اب توقع رکھنی چاہئے وہ پی ٹی آئی یا وزیر اعظم کے لیے کوئی نرم گوشہ رکھے گا۔ ہر عمل کا ردعمل تو لازمی ہوتا ہے۔ سو وزیر اعظم کو اس کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ ہوبہو یہی حرکت سعودی عرب میں سابق پاکستانی سفیر کے ساتھ کی گئی ہے۔ ایک طویل اور کامیاب سفارتی سروس کے آخری چند دنوں میں ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ جب کورونا نے سعودی عرب کا رخ کیا تو اسی سفیر اور سفارت خانے کی تعریف کی جا رہی تھی کہ سفارت خانے کے عملے نے پاکستانی متاثرین کی خدمت میں دن رات ایک کر دیا تھا۔ یو اے ای کے سفارتی عملے کی بھی بڑی تعریف کی گئی اور یہ ایک حقیقت ہے اور میں اس کا چشم دید گواہ ہوں کہ پاکستانی سفارتی عملے نے ہر ملک میں جس طرح اپنے ہم وطنوں کی خدمت کی شاید ہی کسی اور ملک کے سفارتی عملے نے کی ہو گی۔ وزیر خارجہ نے اس کی ہر جگہ تعریف کی اور بعض غیر معمولی خدمت کرنے والے پاکستانی لوگوں کو سرٹیفکیٹ بھی دیئے۔ ویسے بھی اگر کسی ایک شعبہ میں عمران خان کی حکومت کو کامیابی حاصل ہوئی ہے تو وہ سفارت کاری کا میدان ہے۔ حیرت ہے کہ اب وزیر اعظم نے ٹھان لی ہے کہ وہ وزارت خارجہ کے تمام افسروں اور عملے کو اپنا دشمن بنا کر دم لیں گے۔ کیا حکمت اسی کا نام ہے اور کیا لیڈر شپ کے یہی اوصاف ہیں۔ اس سلسلے کی آخری مثال اسسٹنٹ کمشنر سیالکوٹ کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سونیا صدف ایک قابل افسر ہے۔ اس کا چند سال پر محیط کیریئر قابل رشک ہے اور ابھی وہ اپنے طویل کیریئر کی پہلی سیڑھی پر ہے۔ کیا اس کا یہی حق بنتا ہے کہ اسے سرِ بازار برا بھلا کہا جائے۔ کیا ہم اسسٹنٹ کمشنر سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے علاقے کے درجنوں بازاروں کی سینکڑوں دکانوں کا ہر پھل چیک کرے کہ وہ خراب تو نہیں ہو گیا یا ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ جہاں کہیں کسی گاہک اور دکاندار میں تکرار ہو، سرکاری افسر فرشتے کی طرح وہاں پہنچ جائے اور گاہک کی مدد کرے۔ کسی سرکاری افسر خاص طور پر خاتون افسر کے خلاف سرِ عام غیر مہذب زبان کا استعمال کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ یہ اس قدر غیر مناسب واقعہ اور رویہ تھا کہ چیف منسٹر اور چیف سیکرٹری تک کو اس کے خلاف آواز اٹھانی پڑی۔ پی ٹی آئی کے چند اور رہنمائوں نے بھی اس واقعے کی مذمت کی۔ عمران خان ایک اچھے اپوزیشن لیڈر کی طرح ہر وقت یہ بھاشن دیتے ہیں کہ اس ملک میں طاقتور انصاف کے نیچے نہیں آتا۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ اگر ایسا ہو رہا ہے تو وہ خود اس کے ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ حکومت کے سربراہ ہیں۔ خود انہیں بھی طاقتور کی ناانصافی نظر نہیں آتی۔ طاقتور حلقے خود ان کی فوج پر آوازے کستے ہیں اور وہ خاموشی اختیار کرتے ہیں کہ ان کے ذاتی نقصان کا احتمال ہے۔ ہاں سفیروں کو وہ خوب برا بھلا کہتے ہیں کیونکہ وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور شاید اس طرح انہیں غیر ملکی پاکستانیوں کے کچھ ووٹ بھی مل جائیں۔