آج سویرے سویرے ٹویٹر پر پاکستان میں تعینات جرمن سفیر مارٹن کوبلر کی ہاتھ دھوتے ہوئے تصویر کے ساتھ ایک پیغام پڑھا تو ماتھا ٹھنکا۔ کہتے ہیں کہ آج ہاتھ دھونے کا عالمی دن ہے۔ضروری ہے کہ پانی ضائع ہونے سے بچائیں ۔نل کو ہاتھ دھونے کے درمیانی وقفے میں بند کرنا چاہیے۔ایک اور ٹویٹ میں مارٹن ذاتی گاڑی دھوتے نظر آتے ہیں۔ دیکھیں! صفائی ستھرائی ہماری گھونٹی میں پڑی ہے۔ اس کی اہمیت رگ وریشے میںسرایت کرچکی ہے۔ پاکستانیوں کو ہوش سنبھالتے ہی بتایاجاتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ سکول میں نہ صرف صفائی کے موضوع پر لیکچر دیاجاتاہے بلکہ مقابلہ مضمون نویسی بھی ہوتا ہے۔ تیسری جماعت میں صفائی پررٹے ایک مضمون کے جملے آج تک حافظے سے محو نہیں ہوئے۔اپنے تینوں بچوں کو لگ بھگ ویساہی ایک مضمون رٹامارتے دیکھاتو صفائی کی اہمیت پر یقین مزید راسخ ہوگیا۔ اتفاق سے نیپال میں کچھ دن گزارنے کا موقع ملا جہاں میرے میزبان تربھون یونیورسٹی کے ایک میاں بیوی تھے۔اگرچہ گھٹمنڈو ملک کا دارالحکومت ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ شہریوں کاسماجی شعور ابھی تک اٹھارویں صدی والا ہے۔ لوگ کوڑا کرکٹ گلیوں میں پھینک دیتے ہیں ۔ بازار میں چلتے ہوئے دم گھٹنے لگتاہے۔ شاپر میں گھر کاسارا گند ڈال کر مین گیٹ کے سامنے رکھ دیاجاتاہے۔ بلیاں اور کتے تجسس کے مارے انہیں کھولتے ہیں اور گلی میں تعفن پھیلا دیتے ہیں۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ اصل قصہ تو آپ کو ابھی سنایا ہی نہیں۔ عید قربان کا دن بہت تکلیف دہ گزرا۔گلی میں دودو بیل ذبح کیے گئے۔ قیمت ان کی لاکھوں میں تھی۔ خون سے گلی لہولہان ہوگئی۔ بعدازاں اس پر ریت ڈال دی گئی تاکہ بدبو کم ہوسکے لیکن تین چار دن تک پورا محلہ مہکتارہا۔ رومال منہ پر رکھ کر لوگ گزرجاتے لیکن اعتراض نہ کرتے۔ مسلمان تو گوشت کھاتے ہی ہیں ۔سیاح بھی یہاں بہت آتے ہیں کچھ ہندوبھی آنکھ بچاکرتکے بوٹی اور کباب سے لطف اندوز ہونے سے چونکتے نہیں۔ جن دکانوں پر گوشت بکتاہے وہاں دومنٹ کھڑے ہونا بھی محال ہے۔ سربازار مکھیوں کے میلے میں بھاؤتاؤ کیاجاتاہے۔ خریدار ہیں کہ دکانوں پر ہجوم کیے ہوتے ہیں۔مرغیوں والے کا کاروباربھی خوب چمکا ہے۔ شوق سے مرغی چاول یا روٹی کھائے جاتے ہیں۔ مہمانوں کی تواضع کے لیے بھی چکن فرائی آسانی سے تیار ہوجاتا ہے۔ میزبان مجھے اکثر ر نجیدہ پاتے ۔ ایک دن تنگ آمد بجنگ آمد۔ نخروں سے چڑکرمیاں بیوی نے میرا انٹرویو شروع کردیا۔ بلکی نے پوچھا کہ تمہارے شہرراولپنڈی میںلوگ کیسے رہتے ہیں؟ بے محل سوال پر کچھ تعجب سا ہوا۔آخر گھٹمنڈو اور راولپنڈی کا کیا مقابلہ۔ عرض کیا : مشرق بعید کے ممالک ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کی ترقی کے ماڈل کی نقالی کرنے کو اعزازسمجھتے تھے۔ جنوبی کوریا اور ملائیشیا ہمیں رشک بھری نظروں سے دیکھتے ۔میری گفتگو سن کر بلکی کہنے لگی تو پھر تمہارے ملک میںمکھی اور مچھر کا گزر بھی نہ ہوگا۔ سڑکوں پر جانور ذبح نہ ہوتے ہوں گے۔ میں نے بے تکان بولنا شروع کردیا۔بلکی دیکھو! پاکستان میں چار موسم ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے۔دنیا کے سب سے گہرے پانی کی بندرگاہ جسے گوادر کہتے ہیں پاکستان میں واقع ہے۔ہمارے ہاں دنیا کا سب سے بڑا دودھ بنانے کا کارخانہ پایاجاتاہے۔ پاکستان کی آبادی روس سے زیادہ ہے۔ اتنی دھواں دھار گفتگو سن کر بلکی اور ان کا میاں بہت متاثر ہوئے۔پاکستان کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش ان کے چہروں سے ہویدا تھی۔ ہمار ا پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ ریاستی ادارے سوچتے ہی نہیں کہ عورتیں، بچے، معمر افراد اور معذوروں کے لیے ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ وہ سفر کرسکیں۔ ہسپتال پہنچ سکیں یا معمول کی زندگی گزار سکیں۔ آپ کے پاکستان میں کیا صورت حال ہے؟عرض کیا کہ پاکستان کے پاس دنیا کی ساتویں بہترین فوج ہے۔پاکستان ستاون مسلمان ممالک میں واحد ایٹمی قوت ہے۔ پاکستان ایئر فورس کے پائلٹوںکو دنیا میں بہترین تسلیم کیاجاتاہے۔ پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ اعداد وشمار سے لیس ہونے کے باعث میزبان جوڑے پر سحر طاری ہوگیا۔انہیں اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہونے لگا۔ ان کی پیشانی پر پسینہ نظر آرہا تھا۔کچھ نہ کرسکنے کا قلق اندر ہی اندر انہیں چاٹ رہاتھا۔کہنے لگے کشکول تھامے ہم دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ یہ توبتائیں پاکستان میں تعلیم اور شرح خواندگی کی صورت حال کیا ہے؟ پاکستان میں اس وقت ساٹھ ستر ٹیلی ویژن چینل ہیں۔ ریڈیو اسٹیشن کی تعداد بھی درجنوں میں ہے۔ دولاکھ سے زائدافراد میڈیا کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ بعض انیکر ز کی قابلیت کا یہ عالم ہے کہ بیس بیس لاکھ مشاہرہ پاتے ہیں۔ بڑے صحافیوں کو بروقت معاوضہ ملتاہے۔ بلکی کوسیاحت بارے جاننے کا بہت اشتیاق تھا۔غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ کوہ پیمائی کرتی ہیں۔ کہنے لگی کہ سری لنکا ، ترکی، بھارت اور ملائیشیا اربوں نہیں کھربوں ٹورازم سے کماتے ہیں۔ پاکستان کے اعداد وشمارکیا ہیں؟میں نے فخر کے ساتھ سر کوہلکی سی جنبش دی اور بلکی کی لاعلمی پرمسکرایا۔ استفسارانہ انداز میں بولاتمہیں معلوم ہے کہ کے۔ ٹو کہاں واقع ہے۔ کہنے لگی پاکستان ۔ موئن جو داڑو اور ہڑپہ اور ٹیکسلا کا نام سنا ہے۔ہڑپہ کی تہذیب پانچ نہیں نو ہزار سال قدیم ہے۔ سوات ، نیلم ویلی، راولاکوٹ اور ہنزہ کی تصویریں دیکھ کر لوگ یورپ کے حسن کو بھول جاتے ہیں ان علاقوں کی دلکشی انہیں مبہوت کردیتی ہے۔پنجاب میں بابا گورو نانک کی جنم بھومی۔وہ سکھوں کے پہلے گرو ہیں۔ ہمارے پڑوس میں ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ سکھ بستے ہیں ۔ اس شہرکی یاترا کا خواب دیکھتے دیکھتے اکثر دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ ترقی اور کمال کی تما م صلاحیتیں اور خزانے قدرت نے وافر مقدار میں ہمیں ودیعت کررکھے ہیں۔ اس قدرسحر انگیز گفتگو سننے کے بعد میری میزبان کہنے لگی تو پھر جرمن سفیر پاکستانیوں کو ہاتھ دھونے، پانی ضائع نہ کرنے اور گلی محلے صاف کرنے کی تلقین کیوں کرتاہے۔ وزیراعظم عمران خان کیوں جھاڑولگانے کی مہم چلاتے ہیں؟سنی ان سنی کرتے ہوئے میں نے کہا دیکھو ! ٹیکسی آگئی ۔ گڈبائے۔