آپ نے درہ خیبر، درہ گومل اور درہ بولان کے نام تو سن رکھے ہوں گے لیکن کیا آپ مارگلہ کے قدیم دروں سے بھی آگاہ ہیں جو مسافروں کو گئے زمانوں کی کہانیاں سناتے ہیں؟ یہ وہ درے ہیں جو قدیم وقتوں میں مارگلہ کے پہاڑوں میں آمدورفت کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا ، یہ سارے درے اپنے اصل ناموں سے پکارے جاتے ہیں ۔پھر جب ڈھوک جیون ای سیون بنا ، کٹاریاں جی فائیو اور باغ کلاں جی سکس ہو گیا ، گدڑ کوٹھا ایف سیون اور بھیکا سیداں ایف الیون بن گیا،بامیاں ایف نائن اور روپڑاں جناح سپر بن گئی تو ہمارے احساس کمتری نے ان دروں کے نام بھی بدل دیے۔ مقامی تہذیب کے تمام حوالوں سے ان بابولوگوں کو ندامت ہوتی تھی، انہوں نے ان دروں کو ’’ ٹریل‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ یہ جو ٹریل فائیو ہے، یہ اصل میں درہ جنگلاں ہے۔ یہاں جنگلاں نام کا گائوں ہوتا تھا۔ پارکنگ کے ساتھ ہی جو برگد کا چار سو سالہ قدیم درخت اور بری امام کی چلہ گاہ ہے ، یہیں اس گائوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ جنگل میں اندر جا کر دیکھیں تو آج بھی قبروں پر درجنوں کتبے موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ 1985ء تک یہاں لوگوں کی تدفین ہوتی رہی ہے۔وائلڈ لائف پوسٹ سے پہلے جو مسجد ہے یہ اسی گائوں کی قدیم مسجد ہے۔ ندی کے اس پار چلے جائیں تو گائوں کی باقیات آج بھی موجود ہیں۔اس درے کے راستے میں دو چشمے آتے ہیں۔ انجیر کا چشمہ اور بوہڑی کا چشمہ اور پھر یہ اوپر پہاڑ کی چوٹی سے تلہاڑ کی وادی میں موجود بستیوں سے گزرتا آگے ہزارہ کو جانے والے راستوں سے مل جاتا ہے۔اسی درے کے ایک نسبتًا متروک راستے پر بدھ مت کی گھپائیں بھی موجود ہیں اور اوپر ایک بڑا سا غار بھی ہے جس کے بارے میں روایت ہے کہ کسی زمانے میں یہاں باگھ رہا کرتے تھے۔ فیصل مسجد کے پہلو سے جو ٹریل سکس نکلتا ہے یہ اصل میں درہ کوانی ہے۔یہ درہ ٹیمبا نامی گائوں کو جبی سے اور پھر آگے تلہاڑ کی وادی سے ملاتا ہے۔ فیصل مسجد اسی ٹیمبا گائوں میں بنی ہے۔یہ بھی حسین درہ ہے۔ ندی ہے ، چشمہ ہے ، کھجور کے درخت ہیں اور گھنا جنگل۔اس جنگل کو بدھو بن بھی کہا جاتا ہے۔ بن تو جنگل ہو گیا بدھو جانے کون تھا۔ اس سلسلے میں مقامی لوگوں کی طرف سے تین روایات بیان کی جاتی ہیں ۔بوڑھے سیانوں کا ایک روایت پر اتفاق پایا جاتا ہے۔کبھی ان پر تفصیل سے بات کریں گے۔آج کل اسی جنگل میں چیتوں کی آمدو رفت بڑھ گئی ہے اور یہاں جانا خطرے سے خالی نہیں رہا۔ درہ کوانی سے جب آپ گھنا جنگل عبور کر کے پہلی پہاڑی چوٹی پر پہنچتے ہیں تو آگے درہ بولدار ہے۔روایت ہے کہ شیر شاہ سوری نے اسی درے پر سفر کیا تھا۔اسی درے پر چلتے جائیں تو کوٹ جنداں اور اس کی وادی میں اترا جا سکتا ہے۔درہ کوانی کا جنگل حسن مجسم ہے۔جس نے اسلام آباد میں رہ کر اس جنگل کی صبح ، دوپہر اور شام نہیں دیکھی اس نے گویا اسلام آباد نہیں دیکھا۔ ٹریل ون کا اصل نام درہ کالنجر ہے۔ یہ فیصل مسجد سے تھوڑا آگے کالنجر نامی گائوں سے نکلتا ہے اور اوپر کے پی کے کے سلسلے تک جا پہنچتا ہے۔یہ ای ایٹ اور ای نائن کے عقب کے پہاڑوں میں ہے۔یہاں سے درہ بولدر کی طرف بھی ایک پگڈنڈی جاتی ہے ۔ یہیں راستے میں ایک قبرستان بھی آتا ہے۔درہ کالنجر سے پہاڑ کے ساتھ ساتھ چلتے آئیں تو درہ کوانی پر پہنچا جا سکتا ہے۔ یہیں سے کوٹ جنداں کی طرف جا کر نیچے اسلام آباد کا نظارہ کرنا ہو تو درہ بالیماہ آتا ہے۔ اس درے پر انجیر کے درختوں تلے ایک چشمہ پھوٹ رہا ہے۔شمال مشرق کی طرف پگڈندی پر نکل جائیں تو آگے درہ سنیاری ہے اس پر بھی ایک میٹھے پانی کا چشمہ ہے۔ یہ دونوں درے کے پی کے تک بھی لے جاتے ہیں اور ہزارہ کی جانب بھی۔یہیں کچھ ہمت کر لی جائے تو وہ مقام آتا ہے جہاں سے ایک طرف دیکھیں تو راول ڈیم نظر آتا ہے اور دوسری طرف نگاہ دوڑائیں تو خان پور ڈیم دکھائی دیتا ہے۔ مرغزار سے ایک درہ اوپر تلہاڑ ٹاپ اور پیر سوہاوہ موڑ تک جاتا ہے۔ یہ درہ جیون ہے۔ یہ ڈھوک جیون نامی گائوں کو اوپر جبی اور تلہاڑ کی بستیوں سے ملاتا تھا۔ اسے اب ٹریل فور کہا جاتا ہے۔یہ دورہ کوانی کے پڑوس میں ہے۔ اس پر ایک پہاڑی عبور کر کے دم بخود کر دینے والے مناظر ہیں۔اس درے سے درہ کوانی تک سکون ہی سکون ہے اور یہ دونوں درے اب متروک ہو چکے ہیں۔ بس کچھ حال مست فقیر ہوتے ہیں جن کا شوق انہیں ان وادیوں میںلیے پھرتا ہے۔سازگار اور خاموش ماحول ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ جنگلی حیات یہیں پائی جاتی ہے۔ایئر بلیو کی فلائٹ اسی درہ کی ایک پگڈنڈی کے پاس گر کر تباہ ہوئی تھی۔ صدیوں پرانے ایک رستے کو اب ’’ مارگلہ رج ٹریل‘‘ کہتے ہیں۔درہ بالیماہ کے چاچا یعقوب نے اس درے کا نام بتایا تھا اب نام یاد نہیں آ رہا۔ یہ ان دروں میں بلاشبہ سب سے حسین درہ ہے۔ اسلام آباد سے شروع ہوتا ہے کے پی کے گائوں سما جا کر ختم ہوتا ہے۔ یہ پندرہ کلومیٹر اسلام آباد میںہے اور تیس کلومیٹر کے پی کے میں۔ ہمارے فیصلہ سازوں کے احساس کمتری نے مقامی تہذیب و ثقافت کے سارے نشان مٹا دیے۔ خود سے شرمندہ ایسی مخلوق دنیا میں صرف ہمارے ہاں پائی جاتی ہے۔ شہر بنایا تو اسے مقامی تہذیبی اور ثقافتی نام دینے کے بجائے سیکٹروں میں بدل دیا۔ یہ سیکٹر جی ہے ، وہ سیکٹر ایف ہے اور اس سے آگے وہ سیکٹر ای ہے۔ ذہنوں میں کنکریٹ لیے اس مخلوق نے جب جنگل کا رخ کیا تو قدیم زمانوں کے دروں کے نام بدل گئے۔ اب وہ ٹریل کہلاتے ہیں۔معلوم نہیں مارگلہ کا نام انہوں نے کیسے باقی رہنے دیا ہے؟ خود سے اور اپنی شناخت کے ہر حوالے سے شرمندہ اس مخلوق کا خیال جس دن ادھر چلا گیا ، کچھ بعید نہیں یہ اس کا نام ’’ کیپیٹل ہل‘‘ رکھ دیں۔