بھلا ہو ریاست مدینہ والوں کا‘ کم از کم اتنا تو ہوا کہ آج کل سیکولرازم کا فیشن ذرا کم ہوا ہے۔ کم از کم ہر سال یوم قائد اعظم کے موقع پر بڑے بڑے جغادری میدان میںنکل آتے ۔ ان کا کام ایک ہی ہوتا کہ ثابت کیا جائے قائد اعظم ایک سیکولر شخص تھے اور وہ پاکستان کو بھی ماشاء اللہ سیکولر دیکھنا چاہتے تھے۔ قائد اعظم کی 11اگست کی تقریر ہر بار زیر بحث آتی اور بتایا جاتا کہ ہم نے قائد اعظم کے نظریات کے ساتھ غداری کی ہے۔ ایک تو یہ بتایا جاتا کہ ہم نے سیکولر کا ترجمہ اردو میں غلط کر رکھا ہے۔ اسے لادینیت کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں حالانکہ اس ’مقدس‘ لفظ کے یہ معنی نہیں ہیں۔11اگست والی تقریر میں بہت کچھ ہے۔ بددیانتی‘ اقربا پروری اورکرپشن کی مخالفت۔ جمہوریت کے بعض سنہری اصول ‘ مگر ہم سب کچھ بھول بھال کر صرف یہ بتانے پر اکتفا کرتے کہ قائد اعظم نے اس تقریر میں مذہبی آزادی کا جو ذکر کیا تھا وہ سیکولرازم ہے۔ جواب میں لاکھ سمجھایا جاتا اس اللہ کے بندے نے زندگی بھر کبھی یہ لفظ استعمال نہیں کیا تھا حالانکہ اسے ایجاد ہوئے ایک صدی ہو چکی تھی۔ حتیٰ کہ ہمارے حکیم الامت جو ہر مغربی نظریے کے ساتھ نبرد آزما رہے‘ وہ بھی اس لفظ سے دور رہے۔ ایک بار یہ لفظ سیکولر استعمال ہوا تھا مگر وہ بھی دوسرے معنوں میں۔ یہ سیکولر والے اتنے ضدی تھے کہ نہ صرف قائد کی تقریر سے سیکولرازم نکالتے بلکہ اصرار کر کے کہتے کہ پاکستان کی مقتدرہ نے قائد اعظم کی تقریر سنسر کرنے کی بھی کوشش کی تھی اور یہ بھی کہ ادھر قائد اعظم نے آنکھیں موندی اور ادھر انہوں نے قائد اعظم کے نظریات سے انحراف شروع کر دیا اور قرار داد مقاصد پاس کرا دی جو گویا قائد کی اس تقریر سے بالکل الٹ تھی۔ بس اسی دن سے پاکستان کی سوچ میں ایک مذہبی جنونیت پیدا ہو گئی اور پاکستان اپنے مقاصد بھول گیا۔ اس بار‘ عرض کیا تھا کہ ریاست مدینہ کے چربے میں اس بات کے گم ہو جانے کی امید تھی۔ مگر یہ بات بھی ایک خواب رہی ایک تو اس بار اس کے لئے قائد اعظم کا کندھا استعمال کرنے کے بجائے‘ مودی کو آگے کیا گیا۔ بھارت میں مودی نے جو اودھم مچا رکھا ہے۔ اس کی آڑ لے کر کہا جا رہا ہے کہ دیکھا نا ہم نہ کہتے تھے سیکولرازم میں ایک کام کی چیز ہے‘ وگرنہ مذہبیت تو ایک جنونیت کا نام ہے۔ بھارت میں اب زور دیا جاتا ہے کہ سیکولرازم اختیار کرو۔ خاص کر وہاں کا مسلمان اس بات پر زور دیتا ہے کہ بھارت کو مذہبی ریاست نہ بنائو اسے سیکولرازم کے اصولوں پر استوار رکھو۔ یہ درست بھارت میں آج کل ہندوتا کا زور ہے۔ بعض دانشور یہ کہتے ہیں کہ آج کل وہاں جو کچھ ہوا‘ وہ سیکولرازم کو چھوڑنے پر ہوا اس کے مقابلے میں یہ سوچ بھی وہاں پروان چڑھ رہی ہے کہ جناح ٹھیک کہتے تھے کہ ہندو اور مسلمان ایک نہیں رہ سکتے۔ مسلم لیگ کی سوچ درست کہ سیکولرازم کی آڑ میں کانگرس مسلم دشمنی کی سیاست کر رہی ہے۔ یہ سیکولرازم ایک ڈھونگ ہے۔ جیسے دنیا میں سیکولرازم کی جتنی قسمیں گنواتے تھے۔ اس میں بھارت کے بارے میں دو ٹوک رائے دیتے تھے کہ یہ ایک ڈھونگ ہے۔ ایک منافقت ہے‘ ایسا اس وقت بھی تھا جب نہرو اور پٹیل کی کانگرس کا راج تھا۔ اس قسم کے مطالبے سے کتابوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور آج تو یہ سوچ اپنے عروج پر ہے۔ بھارت میں لوگ سر پیٹتے ہیں کہ جناح ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ یہاں تک کہا جانے لگا ہے کہ بھارت میں اب نئے پاکستان بنیں گے۔ ایک سے زیادہ پاکستان۔ یہ بات وہ خوشی سے نہیں کہتے‘ اس دکھ سے کہتے ہیںکہ ان کے اصول غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ اصول تو بہت چائو سے دہرائے جاتے ہیں جو ابوالکلام سے منسوب کر دیے گئے‘ مگر ان حقائق کا تذکرہ نہیں کیا جاتا جنہوں نے بتا دیا تھا کہ پاکستان بنناکیوں ناگزیر تھا۔ اس پر ایک نکتہ یہ اٹھایا جاتا ہے کہ یہ مذہبی انتہا پسندی کا نتیجہ ہے۔ ہم پاکستان میں مذہبی ریاست چاہتے ہیں تو اس کا بھی یہی انجام نکلے گا۔ اس بات کی تو خیر وضاحت کی جا چکی ہے اور کئی بار کی جا چکی ہے کہ پاکستان کا مطلب مذہبی انتہا پسندی نہیں بلکہ ایک طرح کی عملیت پسندی ہے۔ تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ ہندوئوں میں جو ایک طرح کی تاریخی طور پر تنگ نظری ہے‘ ان سے الگ ہو کر رہنا تو ممکن ہے ان سے گھل مل کر ایک ہونے کی کوشش کرنا انسانی فطرت سے بغاوت ہے۔ ایک بڑی اچھی مراد ہمارے قائد نے دی تھی اس طرح الگ ہو کر رہیں جیسے کینیڈا اور امریکہ رہتے ہیں۔ قائد اعظم کی فکر میں ایسی بہت سی باتیں تھیں جو الگ ہو کر دوستانہ طور پر کشادہ دلی کے ساتھ زندگی گزارنے کا سبق دیتی ہیں۔ ہماری قیادت نے بہت پہلے جو بیج ہندوستان کی مٹی میں نمو پاتے دیکھ لئے تھے‘ وقت نے ثابت کر دیا کہ وہ کس قدرے سچے لوگ تھے‘ مودی نے سیکولرازم کو طاقت نہیں بخشی بلکہ جناح کے نظریات کو تقویت دی۔ خیر جس بات سے میں خوش ہو رہا تھا کہ اب کی بار ریاست مدینہ کے چرچے کی وجہ سے سیکولرازم کی دھوم نہیں مچی‘ مگر مصیبت یہ ہے کہ جدید ذہن میں خرابی یہ ہے کہ یہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر ہر جگہ اپنے خیالات کا گھسیٹ لاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہماری ریاست کی طرف سے ہمیں سمجھایا گیا کہ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کا مطلب تم یوں سمجھ لو جیسے ہمارے ہاں سیکنڈے نیویا میں فلاحی ریاستیں ہیں‘ تو عرض کیا تھا کہ یہ ایک بڑا مغالطہ ہے ۔فلاحی ریاست کا مطلب ایک طرح کی اقتصادی سوشل ڈیمو کریسی نہیں ہے۔ فلاحی ریاست میں صرف اقتصادی خوشحالی نہیں ہے۔ فلاحی ریاست میں صرف اقتصادی خوشحالی نہیں ہوتی‘ بلک اور بہت کچھ ہوتا ہے۔ عرض کیا تھا اسلامی فلاحی ریاست میں جنسی کج روی نہیں ہوتی‘ نائٹ کلبیں نہیں ہوتیں۔ ایک طرح کا فقر ہوتا ہے‘ بورژوا طرز زندگی نہیں ہوتا۔ حضرت عثمانؓ کی دولت ریاست کے کام آتی ہے۔ پھر کہا گیا کہ ریاست مدینہ کا مطلب‘ ایشیائی ٹائیگر بننا نہیں۔ گویا اقتصادی ترقی کی بھی چھٹی ہو گئی۔ تب بھی عرض کیا تھا کہ اسلامی ریاست وہ ریاست تھی جو دنیا کی اس وقت کی دو سپر پاور کے مقابلے میں زیادہ طاقتور‘ زیادہ خوشحال‘ اور انتظامی طور پر زیادہ منظم ہوتی تھی۔ جہاں کوئی زکوٰۃ مانگنے والا نہیں ملتا تھا۔ ہم لفظوں کی آڑ میں مغالطے ترتیب دیتے رہتے ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ پرسوں24دسمبرکو میں ایک تعلیمی ادارے یوٹیک نے ایوان اقبال کے تعاون سے قائد اعظم پر ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ عارف نظامی صاحب نے مجھے ایوان کی طرف سے شمولیت کا حکم دیا۔25دسمبر کو ایوان کی طرف سے بھی تقریب ہے۔ وہاں تو حاضری گویا فریضے میں شامل ہے۔ ہم سیاست میں ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ اپنے مشاہیر کو بھولتے جا رہے ہیں۔مشاہیر کو بھولنا اپنے ماضی کو بھولنا اور اپنے ماضی کو بھولنا اپنی اصل کو بھولنا ہے۔ ہمارے ہاں 21اپریل کو یوم اقبال کی رسم بہت پرانی تھی۔ پھر ہم نے 9نومبر کا دن طے کیا۔ اس کی چھٹی ہوتی تھی۔ حکومت نے اسے ختم کر دیا۔ اس حکومت نے نہیں پہلی والی مسلم لیگی حکومت نے۔ یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں مبادا یہ سمجھا جائے کہ یہ کوئی سیاسی بحث ہے۔ بہت شور مچا‘ مگر کسی نے مان کر نہیں دیا۔ آج آپ اردگرد دیکھیں۔ آپ کو یوم قائد اعظم کی سرگرمیاں کم نظر آئیں گی۔ عمران خاں‘ نواز شریف‘ آصف زرداری‘ مریم نواز‘ بلاول بھٹو‘ شہباز شریف اب حوالے ہی بدل گئے ہیں۔ چلئے وقت کے ساتھ نئی قیادت آتی جاتی ہے‘ مگر نئی قیادت قوم کو تاریخ سے نہیں کاٹتی۔ ایک تسلسل قائم کرتی ہے۔ تاریخ کے ساتھ مسلسل الجھتے رہنا اور اسے من مانے طریقے کے مطابق تشکیل دینا قوم شکنی کے سوا کچھ نہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ آقائے نامدار کے بعد ہماری جدید تاریخ میں ہمیں ایسی قیادت ملی جو ہمیں مجتمع رکھ سکتی تھی۔ اقبال اور جناح پر امت کا اجتماع تھا۔ ان سے پہلے بھی‘ اختلافات کے باوجود ہمارا فکری سفر جوہر‘ سرسید سے ہوتا ہوا دور تک جاتا تھا۔ بدقسمتی یہی ہے کہ ہم نے ان پر بھی اختلافات ڈھونڈھ لئے۔ قوم مگر پھر بھی ڈٹی رہی۔ ہماری قیادت ہی ہماری طاقت ہے اور ہمارا اتحاد بھی۔