عظیم دانشور نے کہا تھا: شاگرد استاد کا عکس ہوا کرتے ہیںجبکہ بزرگ فرماتے ہیں: اساتذہ نیک تو طلبہ بھی نیک۔جو شخص اپنے استاد کی تکلیف کا باعث بنے، وہ علم کی برکت سے محروم رہے گا۔ سوشل میڈیا پر ایک سکول کی بچیاں ساتھی بچی کو زدوکوب کر رہی ہیں۔اس کے پیچھے کیا کہانی ہے،وہ اپنی جگہ پر۔مگر تعلیمی اداروں اور خصوصاً طالبات کی اس ویڈیو نے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک زمانے میں تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ بچوں کی تربیت کی جاتی تھی،انھیں اخلاقیات کا درس دیا جاتا تھامگر افسوس! اب نہ ویسے اساتذہ موجود نہ طلبہ و طالبات۔ تب استادکے قول و فعل میں یکسانیت، صداقت، شجاعت، قوت برداشت،معاملہ فہمی،تحمل مزاجی اور استقامت جیسے اوصاف نمایاں تھے۔ ویسے بھی استاد کی عظمت،مقام و مرتبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ صفاتِ حسنہ اور اخلاقِ حمیدہ کا جامع ، صبر واخلاص کا پیکر،علم و تحقیق کے خمیر میں گندھا ہوا ہو، اس کا مطمعِ نظر رضا خداوندی، انسانیت کی تربیت اور نونہالان قوم کو علم ومعرفت سے روشناس کرانا ہو۔ امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اپنے استاد کا اتنا ادب کرتے تھے کہ کبھی استادکے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے۔ فقہ حنفیہ کی مشہور کتاب ھدایہ کے مصنف، شیخ الاسلام برہان الدینؒ بیان فرماتے ہیں : آئمہ بخارا میں سے ایک امام دوران درس بار بار کھڑے ہو جاتے،شاگردوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا :میرے استاد کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے جب مسجد کے دروازے کے سامنے آتا ہے میں اپنے استاد کی وجہ سے ادب میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔ قاضی امام فخر الدین ارسابندیؒ ،اللہ نے ان کو علماء میں بڑا مقام عطا فر مایا تھا،بادشاہ ان کی بہت عزت کرتا تھا،بادشاہ ان سے کہا کرتا تھا: میں نے یہ عزت و مرتبہ اپنے استاد کی دعا اور خدمت سے حاصل کیا ہے ، میں نے تیس سال قاضی امام ابو یزید دبوسی ؒ کی خدمت اور ان کے لیے کھانا پکایا ہے اور اس کھانے میں سے کبھی نہیں کھایاتھا۔ امام ربیع ؒ فرماتے ہیں: اپنے استاد امام شافعی ؒکے سامنے مجھ کو کبھی پانی پینے کی جرات نہ ہوئی۔ امام احمد بن حنبل ؒ ادب کی وجہ سے اپنے استاد کا نام نہ لیتے تھے بلکہ ان کا ذکر ان کی کنیت سے کیا کرتے۔ علماء ہند میں حضرت شیخ الہند محمودالحسن ؒ علم و فضل ،تقویٰ و طہارت ،جہد و عمل ،تواضع و انکساری میں منفرد مقام کے حامل تھے، شیخ العرب و العجم حضرت حسین احمد مدنی ؒ کو دیکھا گیا کہ باوجود اتنے بڑے علمی منصب پر فائز ہونے کے اپنے استاد شیخ الھند ؒ کے گھر کا پانی اپنے سر پر اٹھا کر لے جاتے تھے۔ ہمارا نظام تعلیم کیسا؟ شاعر مشرق نے کہا تھا : اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف اب بھی آپ اگر ادب و احترام دیکھنا چاہتے ہیں تومدارس دینیہ کو دیکھیں ۔اس دور میں بھی طلبہ و طالبات اساتذہ کے سامنے بلند آواز سے بولنا تو دور کی بات ،ان کے سائے پر بھی پائوں نہیں رکھتے ۔ علامہ اقبال مغربی نظامِ تعلیم سے بہت نالاں تھے ۔ مغربی نظام تعلیم مادیت پرستی، عقل پرستی اور بے دینی و الحاد کا سبق دیتا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں آج وہی کچھ ہو رہا ہے۔ منشیات کا سر عام دھندہ۔خطرے کی علامت ہے، ڈپریشن ، نفسیاتی مسائل ، غربت اور ساتھی طلبہ و طالبات کا دباؤ۔ بچوں کے منشیات کا شکار ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں پارٹی کلچر آج کل سب سے نمایاں ۔کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات منشیات کا شکار ایسے ہی پارٹیوں میں شرکت کرکے ہو رہے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں میں کھیلوں کے میدان اورادبی و تخلیقی سرگرمیوں کا فقدان بھی نوجوان نسل کے منشیات کا شکار بننے کا سبب ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ منشیات سے نجات حاصل کرنے کے لیے مذہب کی جانب راغب ہو جاتے ہیں وہ دیگر افراد کی نسبت جلد نشے کی عادت سے چھٹکارہ پا لیتے ہیں۔ہمارے بچے قوم کا مستقبل، انہیں منشیات و دیگر جرائم سے محفوظ رکھنے کیلئے والدین ، اساتذہ، پولیس اور سول سوسائٹی سمیت معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا فریضہ اوراہم کردار ادا کرناہو گا۔ یہ ایک سازش تھی کہ ایسا نصاب تعلیم مدون کیا جائے کہ مسلمان اگر عیسائی نہ ہو تو وہ پکا مسلمان بھی نہ رہے۔ علامہ اقبال کایہ خیال حقیقت بن کر دنیا کے سامنے آیا اور سب نے دیکھا کہ موجودہ نظام تعلیم اسلامی اصولوں اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔ ایسا تعلیمی نظام رائج کیا گیا، ایسی کتابیں نصاب کا حصہ بنائی گئیںجن کو پڑھ کر مسلمان اپنے دینِ فطرت سے بیگانہ ہوجائے اور حسنِ اخلاق کی تعلیم کو پس پشت ڈال دے۔ اکبر الہ آبادی نے کہا تھا: ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں کوائف طلبی کے نام پر اہل مدارس کو ہراساں کیا جا رہا۔اس شوشہ بازی کامقصد امن پسندی اور قانون پسندی کا ریکارڈرکھنے والے پرامن اور باوقار اداروں کوبدنام اورایک دوسرے سے بدظن اوربداعتماد کرنے کے علاوہ اورکیاہوسکتاہے؟ راحت اندوری نے کہا تھا : لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے بھاری تنخواہوں پر بیرون ممالک سے لائے گئے ،ماہرین تو کل یہاں سے چلے جائیں گے،مگر ہماری نسل کو جو کلچر تھما کر جائیں گے‘ وہ ہم سب بھگتیں گے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ،ہمیں اپنے بچوں کے مستقبل کو اسلام کے ساتھ جوڑنا چاہیے ۔