آج کل ایک ویڈیو بڑی وائرل ہورہی ہے۔ انگریزی لفظ استعمال کرنے کی معذرت مگر جب ہی زبان رسم دنیا ہے تو کیا کروں۔ اس ویڈیو میں ایم آئی کا ایک نمائندہ وہاں پارلیمنٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہے، یہ ایم آئی 6 اور ایم آئی 5 وہاں کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں۔ اس سے سوال پوچھا جارہا ہے کہ یہ جو برطانیہ نے پاکستان کو اتنے ملین پائونڈ اس لیے دیئے ہیں کہ اس سے فلاں رعایت حاصل کی جائے تو اس کا جواز کیا ہے۔ میں نے رعایت کا لفظ بھی احتیاطاً استعمال کیا ہے۔ اکثر لوگوں نے یہ ویڈیو دیکھی ہوگی اور وہ جانتے ہوں گے کہ وہاں کیا کہا گیا ہے۔ خوف فساد خلق سے ہیں وہ لفظ استعمال نہیں کر رہا، حالانکہ اس میں حرج بھی کوئی نہیں ہے۔ خفیہ ایجنسی کا نمائندہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان سے ہمارے کس نوعیت کے تعلق ہیں اور اس میں اس طرح کی سب باتیں جائز اور روا ہیں۔ یہ بات میں نے اس لیے نقل نہیں کی کہ یہ بتا سکوں کہ کون سی بات کیوں ہوئی ہے بلکہ یہ بتانے کے لیے یہاں کی ہے کہ ہمارے ہاں کیا کیا ہوتا رہتا ہے اور عالمی سیاسی شاطر ہماری بساط پر کیا کیا چالیں چلتے رہتے ہیں۔ ہماری ہر ہر بات کے پیچھے کیا کچھ ہوتا ہے۔ وہ کام جو ہم نے کرنا ہی ہوتے ہیں بعض اوقات وہ بھی کرانے کے لیے عالمی طاقتیں حرکت میں ہوتی ہیں۔ بعض اوقات تو شک پڑتا ہے کہ اس کے لیے ہمیں پیسہ دینے کی کیا ضرورت تھی، یہ تو ہم کرنے ہی والے تھے۔ ایک نہیں درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ یہی دیکھئے جب ہمارے ہاں حدود آرڈیننس کے خلاف ایک بحث شروع کی گئی تھی، اس وقت بھی آیا تھا کہ عالمی اداروں نے اس معاملے میں پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان میں بعض میڈیا ہائوسز اور اینکر پرسنز نے اس کا جواز بھی پیش کیا تھا کہ ہم تو یہ خود ہی کرنا چاہ رہے تھے، وہ اگر اس پر اپنے خزانوں کا منہ کھولتے ہیں تو ان کی مرضی، ہم نے تو اپنا ایمان نہیں بیچا اور بہت سے حوالوں سے ہمارے ہاں روز اس طرح کی باتیں ہوتی رہتی ہیں اور ہم سنتے رہتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس، آسیہ بی بی کے حوالے سے کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ جس طرح امریکی جاسوس کو ہم نے جیل میں عدالت لگا کر رہا کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ شاید ہمیں ویسے بھی اسے رہا کرنا پڑتا۔ اس لیے کہ سفارتی تقاضے اس کا مطالبہ کرتے تھے یا اس لیے کہ ہم پر دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کے صدر کا براہ راست دبائو تھا یا اس لیے کہ ہم اس کو رکھ کر بھی کیا کرتے، ہمارے گلے کا ہار ہی بنتا۔ کچھ بھی کہہ لیجئے۔ بحث مگر یہ ہوتی رہی کہ آیا دیت ادا کی گئی۔ اور اگر اداکی تو کس نے؟ پاکستان نے یا امریکہ نے۔ دونوں کھلم کھلا اسے تسلیم نہیں کرنا چاہیے تھے مگر مقتولین کے خاندان کو جس طرح یہاں سے رخصت کروا کر پناہ دی گئی وہ بہت سی کہانیاں بتاتی ہیں۔ میں اس بات کو کس طرف لے جا سکتا ہوں۔ ہمارے ہر ادارے پر غیر ملکی قوتوں کے اثرات ہیں، وہ یہ اثرات بعض اوقات خریدتے ہیں۔ بعض اوقات ہم ان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ہم پر اثرات ڈالیں اور جواب میں ہمیں اس کی قیمت ادا کریں۔ یہی نہیں کہ ہمارے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات ہمارے ہی فیصلوں پر شاباشی کے طورپر ہمیں انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔ دیکھا نہیں کہ ہم پر آج کل انعامات کی بارشیں ہورہی ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ بات کو کسی تنگنائے تک محدود نہ کردیا جائے۔ کسی این آر او کی بات نہ شروع ہو جائے۔ آخر وہ اصلی والا این آر او بھی تو عالمی طاقتوں کی دخل اندازی کا کرشمہ تھا۔ اس وقت بھی کہا جارہا ہے کہ کسی ایسے سیاسی فیصلے کے لیے ہم پر دبائو ڈالا جا سکتا ہے۔ معاف کرنا ایسے فیصلے ہماری اپنی مجبوری بن چکے ہیں۔ جی، میں دوبارہ بیان کرتا ہوں کہ ایسے فیصلے اب ہماری مجبوری بن چکے ہیں تاہم میرا اشارہ کسی ایسی چھوٹی موٹی بات کی طرف نہیں ہے۔ مجھے تشویش ہے کہ یہ جو ہم پر مہربانیاں ہورہی ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے۔ یہ کسی این آر کی خاطر نہیں ہو سکتیں۔ امریکہ اچانک مہربان ہوگیا ہے۔ مشرق وسطیٰ نے ذرا مٹھی بھینچ کر بھی سہی، اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے ہیں۔ آخر کاہے کو۔ مہذب دنیا کا دستور ہے کہ تیس سال بعد وہ دستاویزات بھی پبلک کردی جاتی ہیں، جنہیں اس وقت خفیہ رکھا جاتا ہے۔ آج اگر 30 برس پرانی باتوں کو سرکاری راز رکھنے کے بجائے فاش کردیا جائے تو بہت کچھ کھل سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ 88ء کے بعد آج تک ہم نے کس ملک سے کیا کیا معاملات تھے۔ اگر یہ سب ہماری معلومات کا حصہ بن جائے تو بھی ہم جان جائیں گے کہ ہم نے ماضی میں کیا کچھ کیا ہے۔ اور اگر مزید دس بیس سال کے رازوں پر سے پردہ اٹھا دیا جائے تو بہت کچھ طشت ازبام ہو جائے گا۔ کس کس نے کس کس خاطر ہماری مدد کی اور ہم نے اس کے بدلے کیا کچھ دیا۔ یہ جان لینا گویا ہماری اب ضرورت بن گیا ہے۔ آج کئی سوالات ہمیں تنگ کر رہے ہیں۔ چلیے پرانی باتیں چھوڑیئے۔ کیا وجہ تھی کہ ہم نے سعودی عرب سے وعدہ کرنے کے بعد اچانک فیصلہ کیا کہ ہم یمن کے فیصلے پر اپنی فوج نہیں بھیجیں گے۔ ہم تو تیاریاں تک کرنے بیٹھ گئے تھے۔ پھر کیا ہوا اور کیسے ہوا۔ آخر بات پارلیمنٹ تک کیوں پہنچی اور اس طرح پہنچی کہ ہم نے اپنے پرانے حلیف کو ناراض کردیا۔ ہم سعودی سکیورٹی بندوبست کا حصہ رہے ہیں۔ یہ اب کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ پھر ہمیں اچانک یہ خیال کیسے آیا۔ ہم ایران اور سعودی عرب کی دوستی کرانے نکلے تھے، پھر یہ کیسے ہوا کہ ہم نے ایرانی صدر کے دورے کے موقع پر ایران کو ناراض کرلیا۔ اس پورے خطے سے ہمارے تعلقات کیوں بگڑے تھے۔ کیا متحدہ عرب امارات اس بات پر ناراض ہے کہ ہم نے انہیں ووٹ دینے کے بجائے ترکی کی حمایت کردی تھی یا پھر کوئی اور وجہ ہے۔ پہلے وہ ناراض ہوئے تھے یا ہمیں شکایت پیدا ہوئی تھی۔ نتیجے میں انہوں نے مودی کو بلوا کر بھارت کو غیر معمولی مراعات دینے اورسرمایہ کاری کا اعلان کردیا۔ ہوا کیا تھا۔ اور اب کیا ہوا کہ سب نے خزانوں کے منہ کھول دیئے ہیں۔ بھئی ہمیں تیار ہونا چاہیے کیونکہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ کوئی بات ہمارے فائدے میں بھی ہوتی ہے تو بھی ہم اس کے پیسے لیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں ہم بہت چالاک ہیں مگر اصل بات کچھ اور ہوتی ہے۔ یہ جو برطانوی جاسوس کا بیانیہ ہے، یہ ایک ایسے واقعے سے متعلق ہے جو ہم بھی کرنا چاہتے تھے۔ مگر وہاں یہ رپورٹ ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں ہم پر پیسے لگائے۔ ہم پر خرچہ کیا۔ یہ جاننا بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ یہ ملک ہمیں جو امداد دیتے ہیں یا قرضہ دیتے ہیں، اس کے پیچھے ان کی کیا نیت ہوتی ہے۔ ایک مثال دیتا ہوں۔ ہم نہ سمجھ پائے کہ امریکہ ہم سے اتنا لاڈ پیار کیوں کر رہا تھا۔ وہ ایوب خان کا ایسا استقبال کرتا ہے کہ صدر کینڈی اور ان کی اہلیہ جیکولین ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پہنچتے ہیں جبکہ نہرو کا سادہ سا استقبال ہوتا ہے۔ کوریا کی جنگ ختم ہوتے ہی سارے F-86 طیارے امریکہ واپس نہیں جاتے، ہمارے حوالے کردیئے جاتے ہیں۔ ہم نے ان طیاروں سے 65ء کی جنگ لڑی تو ہم حیران تھے امریکہ کیوں ناراض ہورہا ہے۔ اس نے ہماری امداد کیوں بند کردی ہے۔ وہ ہم سے کیوں پوچھ رہا ہے کہ ہم نے اس سے پوچھے بغیر بھارت سے جنگ کیوں چھیڑی۔ آخر وہ کون ہوتا ہے ہمیں ٹوکنے والا۔ وہ بھارت کو کیوں نہیں روکتا۔ اس نے ہمارے ساتھ دفاعی معاہدہ کرتے ہوئے یہ شرط رکھی ہوئی تھی کہ شمال کی جانب سے کرئسٹ حملے کی صورت میں وہ ہماری مدد کرے گا۔ یہ کیا بات ہوئی۔ خطرہ ہمیں مشرق سے تھا، بھارت سے تھا اور یہ شمال سے روس خطرے کی بات کررہے ہیں۔ آہستہ آہستہ اب سب باتیں راز نہیں رہیں۔ امریکہ ایک زمانے تک ہمیں اپنی طفیلی فوج اور پاکستان کو طفیلی ملک سمجھا رہا ہے۔ آخر اس کا پیسہ لگا ہوا جو تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اکثر اوقات امریکہ کے دبائو میں آنا ہوتا رہا ہے اور اب جو ہم اس کے شکنجے سے نکلنا چاہتے ہیں اور اس کے راستہ بھی ہمیں دکھائی دے رہا ہے تو امریکہ تلملا رہا ہے کہ ہم چین کی طرف کیوں جا رہے ہیں۔ یہ صرف سرمایہ کاری یا کاروباری کا معاملہ نہیں تزویراتی مسئلہ بھی ہے۔ اچھا ہو کہ ہم ہر بات کا اندازہ اور جائزہ لے سکیں کہ ہماری اصل پوزیشن کیا ہے۔ پیسہ مل رہا ہے تو کیوں مل رہا ہے۔ روکا جارہا ہے تو کس لیے۔ یہ بات امریکہ بھی کے لیے نہیں، آپ چین کے حوالے سے بھی ضرور دیکھئے، مگر ذرا آنکھیں کھول کر دیکھئے۔ کیونکہ دنیا بھر کا میڈیا اور شاید سرمایہ بھی ہمیں باور کرانا چاہتا ہے کہ چین بھی ہمیں اس طرح خرید سکتا ہے جس طرح سامراجی طاقتیں ہمیں خریدتی رہی ہیں۔