26 اپریل 2019ء کو’’ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان‘‘ لاہور میں علاّمہ اقبالؒ، قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے روحانی فرزندانِ و دُخترانِ ’’تحریکِ پاکستان ورکز ٹرسٹ‘‘ اور ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کی دعوت پر 27 ویں تقریب ’’عطائے گولڈ میڈل‘‘ میں جمع تھے ۔ صدر عارف اُلرحمن علوی مہمان خصوصی تھے ،اُن کے ساتھ سٹیج پر چیئرمین ’’ کارکنانِ تحریکِ پاکستان ٹرسٹ‘‘ چیف جسٹس (ر) ’’ فیڈرل شریعت کورٹ‘‘ میاں محبوب احمد۔ ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کی سرپرست محترمہ مجیدہ وائیں ، سینئر وائس چیئرمین ڈاکٹر پروفیسر رفیق احمد اور دو وائس چیئرمین جسٹس خلیل اُلرحمن خان اور میاں فاروق الطاف اور سینیٹر ولید اقبال رونق افروز تھے ۔قاری محمد رفیق نقشبندی نے تلاوتِ قرآنِ پاک کا اعزاز حاصل کِیا اور عالمی شہرت یافتہ نعت خواں حافظ مرغوب ہمدانی نے خوش اُلحانی سے میری لکھی نعت سُنائی۔ نعت کا مطلع اور مقطع پیش خدمت ہے … یوں ضَو فِشاں ہے ، ہر طرف ، کردار آپؐ کا! ارض و سماء ، ہے حلقۂ انوار ، آپؐ کا! …O… عاصی! اثر ؔچوہان کی جُرأت تو دیکھئے؟ یہ کم نظر ہے ، طالبِ دِیدار آپؐ کا! محترم حافظ مرغوب احمد ہمدانی صاحب نے مقطع پڑھا تو وہ ’’ روہانسے‘‘ ہوگئے اور مَیں بھی اپنی نشست پر بیٹھا ’’آبدیدہ‘‘۔عربی زبان کے لفظ عارفؔ کے معنی ہیں ۔’’ خُدا شناس ،صاحبِ معرفت ، ولی، درویش، صبر کرنے والا۔ ولیؔ کی جمع ہے ’’اولیاء ‘‘۔ قیام پاکستان میں جن قابل احترام عُلمائے اہل سُنّت و اثنا عشری قائدین، سجّادہ نشین اور گدّی نشین حضرات نے اولیا ء کرام ؒ ہی کی حیثیت سے قائداعظم محمد علی جناحؒ کواسلامیان ہند کا لیڈر تسلیم کر کے اُنہیں ملّت اسلامیہ کا ہیرو ؔبنا دِیا تھا۔ صدرِ پاکستان نے جب، 26 اپریل 2019ء کو ’’ وائیں ہال ‘‘ میں موجود ’’ کارکنانِ تحریکِ پاکستان‘‘ اور اُن کی اولاد سے مخاطب ہو کر بتایا کہ ’’ تحریکِ پاکستان کے دَوران میرے والد صاحب ڈاکٹر حبیب اُلرحمن علوی بھی "U.P" ( اُتر پردیش) میں مسلم لیگ کے صدر تھے ۔ پھر کیا ہُوا؟۔ سابق چیف جسٹس ’’ فیڈرل شریعت کورٹ‘‘ میاں محبوب احمد نے "Suo Moto" (از خود نوٹس) لِیا اور ڈاکٹر حبیب اُلرحمن صاحب کو ’’ گولڈ میڈل‘‘ سے نوازا اور صدر ِ محترم کے گلے میں ڈال دِیا۔ ’’کارکنانِ تحریک ِ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کی طرف سے 1987ء سے اب تک پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے 1400 سو سے زیادہ مجاہدین ؔ(عارفین) کو اُن کی زندگی میں یا وصال کے بعد "Gold Medals" سے نوازا گیا ہے ۔ 26 اپریل کو صدرِ پاکستان سے ماشاء اللہ دو حیات مجاہدوں 90/91 سالہ (پشاور کے ) میاں محمد اختر، اور (جھنگ کی محترمہ) رشیدہ بی بی نے اپنا اپنا گولڈ میڈل وصول کِیا اور ماشاء اللہ حیاتؔ چکوال کے 95 سالہ جناب غلام نبی بختاوری سمیت جو بزرگ تشریف نہیں لاسکے اُن کے اور عالمِ جاودانی میں بسنے والے مجاہدین کے وُرثا ء ، بیٹوں ، بیٹیوں اور اُن کی پوتوں ، پوتیوں نے ۔چاچا غلام نبی بختاوری کا گولڈ میڈل اُن کے پوتے احسن بختاوری نے وصول کِیا تو، چاچا غلام نبی بختاوری کے فرزندان ۔ برادرانِ عزیز ظفر بختاوری اور زاہد بختاوری وہ منظر دیکھا اور مَیں نے بھی ۔ مختلف اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہ کر 2004ء میں(P.E.M.R.A) کے چیئرمین کی حیثیت سے با عِزّت ریٹائر ہونے والے برادرِ محترم میاں محمد جاوید نے اپنے والدِ مرحوم ( گوجرانوالہ کے ) میاں محمد ابراہیم کا گولڈ میڈل وصول کِیا ۔ معزز قارئین!۔ یوں تو منعقدہ تقریب میں شریک سبھی خواتین میری بہنیں تھیں / ہیں لیکن، جب مَیں نے اپنی دو بہنوں ’’مادرِ ملّت سنٹر‘‘کی سربراہ ، ڈاکٹر پروین خان کو گلے میں اپنے ماموں (ہوشیار پور کے) آغا عبداُلحمید خان نیازی کا گولڈ میڈؔل پہنے دیکھا تو، مجھے اُن کے سر پر ہاتھ رکھتے بہت اچھا لگا۔ اِسی طرح جب "Information Service Academy" کی ڈائریکٹر جنرل مسز ثمینہ وقار کے سر پربھی جب وہ ، اپنے گلے میں اپنے سُسر(حیدر آباد دکّن ) کے سیّد حاذق علی شاہ کا گولڈ میڈل ڈالے اپنے شوہر سیّد وقار حاذق علی شاہ کے ساتھ میرے پاس آگئیں۔ میرے پاس بیٹھے میاں عبدالوحید نے جب مجھے اپنے (گولڈ میڈلسٹ) والد صاحب میاں عبداُلکریم امرتسری کی تالیف ’’ محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وَسلم (غیر مسلموںکی نظر میں )‘‘ پیش کی تو، مَیں نہال ہوگیا!۔اردو اور پنجابی کے شاعر ، ادیب ، صحافی برادرِ عزیز محمد آصف بھلی نے اپنے والد ( سیالکوٹ کے ) چودھری محمد انور بھلی کا گولڈ میڈل وصول کِیا تو، مجھے بہت خوشی ہُوئی۔ حضرت ٹیپو سُلطان شہیدؒ! پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 28 فروری 2019ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے وزیراعظم عمران خان نے بھارت سمیت اقوامِ عالم کو با غیرت پاکستانی قوم سے متعارف کراتے ہُوئے کہا کہ ’’ موت کے بجائے غُلامی ‘‘ کو چننے والے ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر ؔنہیں بلکہ شیرِ میسور حضرت سُلطان فتح علی خان ٹیپو ’’پاکستان کے ہیرو ہیں ‘‘۔ وہ غلامی قبول کرنے کے بجائے انگریزوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوگئے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ اِس اعلان سے 10 ماہ پہلے 4 مئی 2018ء کو حضرت ٹیپو سلطان کے 219 ویں یوم شہادت پر (موجودہ چیئرمین "P.E.M.R.A" ) ۔اُن دِنوں "P.I.D" کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر کی حیثیت سے پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ نے "Whatsapp" اور سوشل میڈیا پر سُلطان فتح علی خان ٹیپو شہیدؔ کی آزادی کے لئے جدوجہد سے متعلق "Videos" ڈال دِی تھیں تو، بھارتی الیکٹرانک میڈیا میں کھلبلی مچ گئی تھی۔ ’’ ٹیپو سُلطان شہیدؔ ؒ ۔ پاکستان کے ہیروؔ!‘‘کے عنوان سے مَیں نے اپنے 4 مارچ 2019ء کے کالم میں وزیراعظم عمران خان سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ’’ جنابِ والا!۔ آپ نے بھارت سمیت اقوامِ عالم میں نشر کردِیا ہے کہ ’’ حضرت ٹیپو سُلطان شہید ؒپاکستان کے ہیرو ہیں ‘‘۔ مرحبا !صد آفریں ! پاک فوج کا سب سے بڑا ۔اعزاز (نشان) ہے ’’نشانِ حیدر ‘‘۔حیدر کے معنی ہیں شیرؔ اور یہ حضرت علی مرتضیٰ ؑ کا صفاتی نام ہے ۔ کیوں نہ آپ پہلی فرصت میں (4 مئی 2019ء کو) شیر میسور حضرت ٹیپو سُلطان شہیدؒ کے 220 ویں یوم شہادت پر اُن کی خدمت میں ’’ نشانِ حیدر‘‘ پیش کردیں؟ ‘‘۔ سپریم کمانڈر آف پاکستان آرمی ! معزز قارئین!۔ چیئرمین ’’ کارکنانِ تحریکِ پاکستان ٹرسٹ‘‘ میاں محبوب احمد کی طرف سے نہ صِرف صدر عارف اُلرحمن علوی کے والد صاحب کو گولڈ میڈل ؔسے نوازا گیا بلکہ صدر عارف اُلرحمن علوی کو بھی "Shield" پیش کی گئی۔ مَیں اُنہیں سابق صدر ممنون حسین کی طرح "Shield Marshl President" نہیں لکھوں گا؟ لیکن، اُن سے یہ ضرور عرض کروں گا کہ ’’ آپ اولادِ مولا علی ؑ ہیں اور پاکستان کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بھی۔ 4 مئی 2019ء سے پہلے ’’ پاکستان کے ہیرو ، شیر میسور حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ کے 220ء ویں یوم شہادت پر اُن کی خدمت میں ’’نشانِ حیدر ‘‘ پیش کردیں ؟۔ 26 اپریل 2019ء کی تقریب کوکامیاب بنانے میں "Two in One" (بیک وقت)’’کارکنان تحریکِ پاکستان ٹرسٹ‘‘ اور ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری سیّد شاہد رشید اور ’’ نظریۂ پاکستان‘‘ کے پانچ درویشوؔں ۔ ناہید عمران گِل، محمد سیف اللہ چودھری، علامہ نعیم احمد ، حافظ عثمان احمد اور حمزہ چغتائی نے اہم کردار ادا کِیا۔ محمد سیف اللہ چودھری کے بڑے بھائی احسن حبیب احسن سے میرا غائبانہ تعارف تھا ، جپھی ڈالنے کا بھی موقع مل گیا۔ مجھے اپنی ایک بہن محترمہ مہناز رفیع اور دو بیٹیوں غزالہ شاہین وائیں اور نائلہ عُمر کے چہرے بہت روشن نظر آئے۔ میر تقی میرؔ نہیں ، مرزا غالبؔ! ’’کارکنانِ تحریک ِ پاکستان ٹرسٹ‘‘ اور ’’ نظریۂ پاکستان ‘‘ ٹرسٹ کی طرف سے صدرِ پاکستان جناب عارف اُلرحمن علوی کا خیر مقدم کرتے ہُوئے ’’ خوبرو نبیرۂ حضرت ِاقبالؒ ‘‘ سینیٹر ولید اقبال نے مرزا غالب ؔکا شعر میر تقی میرؔ کے نام سے پڑھ کر داد وصول کی۔ شعر تھا /ہے … وہ آئیں گھر میں ہمارے ، خُدا کی قُدرت ہے! کبھی ہم اُن کو ، کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں ! ولید اقبال صاحب نے دو بار اِس شعر کو میر تقی میرؔ کا شعر کہا ۔ مَیں سوچ رہا ہُوں کہ اگر کبھی جنت اُلفردوس میں مرزا غالبؔ سے حضرت علاّمہ اقبالؒ کی ملاقات ہوگئی تو ، وہ کیا وضاحت پیش کریں گے؟ ۔