ہمارے پاس حیرانی نہیں تھی ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی ہمیں ہونا تھا رسوا ہم ہوئے ہیں کسی کی ہم نے بھی مانی نہیں تھی جتنی بھی ایجادات اور دریافتیں ہیں سب اسی حیرانی کی مرہون منت ہیں۔ ہمیں اپنے بارے میں تو یہ حیرت ہے کہ حیرانی ہمارا مسئلہ ہی نہیں۔ ہمیں تو کسی رویے پر بھی حیرت نہیں ہوتی کہ بقول غالب پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی۔ اب کسی بات پر نہیں آتی۔ سارا منظر نامہ آپ کے سامنے ہے کہ کس طرح کی سیاست چل رہی ہے اور کس طرح کا نظام روبہ عمل ہے۔ کبھی ہنسی آتی ہے تو کبھی رونا۔ پہلی بات تو یہ کہ حرف معتبر کے حساب سے یہ دنیا ویسے ہی کھیل تماشا ہے اور ہمارے حکمران اور رہنما واقعتاً عملی طور پر دکھا رہے ہیں کہ سب کچھ ایک کھیل اور تماشہ کے سوا کچھ نہیں۔ یعنی وہ ہمارے ساتھ ایسا ہی کھیل کھیل رہے ہیں کہ دل بیٹھنے لگتا ہے آپ ذرا ان کے رویے دیکھیں کہ کیا یہ اسمبلیوں میں بیٹھنے اور نظام چلانے کے اہل ہیں۔ آپ ایک لمحے کے لئے حالیہ واقعہ دیکھیں کہ جب اکتوبر میں سندھ کے آئی جی کو اٹھایا گیا اور شور مچ گیا کہ سندھ حکومت کو خبر ہی نہیں کہ یہ واردات ہو گئی۔ بالکل ایسے ہی جیسے امریکہ نے اسامہ کے حوالے سے کہا تھا۔ سندھ پولیس نے ردعمل میں چھٹیاں لیں اور کام کرنے سے انکار کر دیا حکومت کو تو کچھ علم ہی نہیں تھا۔ عمران خاں کا کلپ بار بار چلایا جا رہا ہے کہ اس تشویشناک واقعہ پہ وہ کس طرح سے ہنس کر تمسخر اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تو اک مذاق لگتا ہے، ایک ان ہونی اور ناقابل یقین واقعہ۔ اس قوالی کے ساتھ سنگت کرنے والے بھی یہی کچھ کہہ رہے تھے مگر اب کیا ہوا جب بلاول کی درخواست پر قمر جاوید باجوہ نے وعدے کے مطابق انکوائری کروائی تو نتیجہ بھی سامنے آ گیا کہ رینجرز آئی ایس آئی کے ذمہ دار افسر عہدوں سے الگ کر دیے گئے وجہ اس کی کچھ بھی ہو مگرآپ کہاں کھڑے ہیں۔ وہ تو اس پر بھی حیران ہوئے تھے کہ لاک ڈائون کیسے ہو گیا؟ پہلے تو آگ لگاتے ہیں تماشہ کے لئے پھر حال بھی وہ خندہ بہ لب پوچھتے ہیں بہت اچھی بات کبھی ایک اینکر نے کہی تھی ان میں تو کامل سینس بھی نہیں ہے اگر وہ اینکر انگریزی ادب دیکھتے تو انہیں مل جاتا کہ Common sense is not commonکیا یہ تماشا اور مضحکہ خیز بات نہیں ہے کہ فوج کے اس احسن کام کے بعد کہ جب فوج کی عزت اور بڑی ہے کہ انہوں نے باقاعدہ محاسبہ کیا ہے تو ہمار ے وزرا ء پریس کانفرنس داغ رہے ہیں اور سندھ حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ان پولیس افسروں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے چھٹیاں لینے اور کام نہ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ آپ خود ہی بتائیں کہ یہ کتنا نامناسب مطالبہ ہے۔ اب تو ثابت ہو چکا ہے کہ واقعتاً سندھ پولیس افسروں کی توہین ہوئی تھی اور ان کا ردعمل جائز تھا۔ میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ صفدر صاحب کا نعرے لگانا اور قائد کے مزار پر ہلڑ بازی کرنا بھی غلط تھا مگر اس پر ان آفیسرز کا بہانہ بنانا کہ عوامی ردعمل کے پریشر میں انہوں نے یہ کام کیا کہ پولیس سستی دکھا رہی تھی۔ اس مستعدی پر مجھے اپنے دوست عدیم ہاشمی کا شعر یاد آ گیا: اس نے کہا عدیم مرا ہاتھ تھامنا چاروں طرف سے ہاتھ نمودار ہو گئے گزارش یہ ہے کہ ہمیں اپنے رویوں پر غور کرنا چاہیے۔ دشمن ملک میں بھی ہمارے ایسے طرز عمل کا تمسخر اڑایا جاتا ہے اور وہ باقاعدہ ایسے بچے جموروں پر پروگرامز کرتے ہیں۔ چاند سے آگے نکل کر مریخ کی باتیں ۔ ایک اچھا خاصہ مزاحیہ پروگرام ہے ان کا اسمبلی میں پلوامہ کی کامیابی پر ان کا تفاخر انہیں پتہ ہی نہیں وہ کیا کہہ رہے ہیں پھر اس کی وضاحتیں اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز۔ شیخ رشید کو تو کوئی سنجیدہ نہیں لیتا کہ وہ تو جیب میں سمارٹ ایٹم بم لیے پھرتے ہیں اپنے محکمہ ریل کا تو انہوں نے بیڑہ غرق کر دیا ہے ۔ گدا سمجھ کے وہ چپ تھا جو میری شامت آئی اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے میرا خیال ہے کہ تحریک انصاف کو بھی اپنے طرز عمل پر اب غور کرنا چاہیے یہ بھینسیں بیچنا اور پھر بلٹ پروف گاڑیاں خریدنا۔ یہ کفایت شعاری اور پھر پرواز۔ یہ انڈوں اور مرغیوں والا منشور پیش کرنا اور کٹے پالنے کی ترغیب دینا۔ یہ وزارت عطمیٰ کے شایان شان نہیں۔حیرت ہوتی ہے کہ مہنگائی نے لوگوں کا کچومر نکال دیا ہے اور آپ معیشت کے سارے اشاریے افق کی جانب جاتے دکھا رہے ہیں۔ عوام کی سوچ سے متضاد بیانیہ یہ صرف جھوٹ اورچالاکی نہیں بلکہ بے بس عوام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے آپ سارے میڈیا کو غلط بتا رہے ہیں۔ لوگوں کے احتجاج کو پراپیگنڈا کہہ رہے ہیں آپ کے یقین دلانے پر رات دن تو ہونے سے رہی۔ بقول جلیل عالی: لوگوں نے احتجاج کی خاطر اٹھائے ہاتھ اس نے کہا کہ فیصلہ منظور ہو گیا آپ کی ہر ادا دلچسپ ہے لوگوں کو کورونا کے حوالے سے متنبہ کرتے ہیں اور خود جلسے کر رہے ہیں باقاعدہ اپوزیشن کے مقابلے پر اتر آئے ہیں۔ خدا کے لئے آپ اپنی کارکردگی دکھائیں۔آپ حکومت میں ہیں صاحبان اقتدار و اختیار ہیں۔ میں تو کسی اور بات سے ڈر رہا ہوں کہ خان صاحب نے ایک مرتبہ پھر ،نہ جانے کتنی مرتبہ نوٹس لیا ہے کہ انہیں مزید مہنگائی برداشت نہیں۔ خدا کے لئے چھوڑ دیں اس غصے کو مہنگائی برداشت آپ نے نہیں عوام نے کرنی ہے۔ گندم آٹے کا بحران آپ کا مسئلہ نہیں آپ کونسی یہ اشیا خریدیں گے دو شعروں کے ساتھ اجازت: دخل اس میں نہ کچھ سبب کا تھا دل کا آنا ہی بس غضب کا تھا رات دن ساتھ لے گیا میرے وہ جو مہمان ایک شب کا تھا