کیا عمران خان کسی دبائو میں ہے؟اسامہ بن لادن کی شہادت کا ذکر اور مائنس ون کی تکرار ؟کیا یہ محض سبقت لسانی ہے‘ زبان کا پھسلنا؟ یا ایک چالاک سیاستدان کا سوچا سمجھا‘انداز بیاں؟دیوانہ بکار خویش ہشیار۔ عمران خان نے پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے دوران ایبٹ آباد واقعہ کا ذکر کیا تو کسی کو اُمید نہ تھی کہ وہ امریکہ کو اُسامہ بن لادن کی شہادت کا ذمہ دار قرار دے کر کسی نئی بحث کا دروازہ کھولیں گے‘ اُسامہ بن لادن آج بھی امریکیوں کے لئے ڈرائونا خواب ہے‘ عمران خان سے پہلے پاکستانی سربراہ ریاست و حکومت تو درکنار‘ کسی معمولی سرکاری اہلکار کو بھی یہ جرأت نہیں ہوئی کہ وہ امریکہ کے ہاتھوں ہلاک کئے جانے والے کسی شخص کو نجی محفل میںبھی شہید کہنے کی جرأت کرے کجا کہ سربراہ حکومت پارلیمنٹ میں کھڑے ہو اس کی شہادت کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دے اور حکومتی ترجمانوں کو وضاحتیں جاری کرنی پڑیں۔ ہمیں اعتبار مگر ترجمانوں پر کرنا چاہیے کہ یہ حساس قومی معاملہ ہے اور نیّتوں کا حال اللہ تعالیٰ جانتا ہے ‘ زبان پھسلنا اچھنبے کی بات بھی نہیںکہ عمران خان کی زباں پہلی بار نہیں پھسلی۔ گزشتہ روز اسمبلی میں کھڑے ہو کر عمران خان نے مائنس ون کا ذکر چھیڑ دیا جس سے اپوزیشن اور کپتان کے دیرینہ مخالف تجزیہ نگاروں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ اسلام آباد میں درون خانہ کوئی نہ کوئی کھچڑی پک رہی ہے ورنہ وزیر اعظم کو یہ کہنے کی ضرورت پیش کیوں آتی کہ میں چلا بھی گیا تو میرے بعد آنے والے احتساب کا عمل جاری رکھیں گے اور اپوزیشن کی جان نہیں چھوٹے گی۔ یار لوگوں نے پارلیمانی پارٹی میں وزیر اعظم کی تقریر پر بھی گرہ لگائی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’میرے سوا کیا آپشن ہے؟‘‘ سچی بات ہے کہ عمران خان کے اس بیان سے مجھے بھی تکبر اور غرور کی بو آئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو یہی غلط فہمی لاحق ہوئی تھی کہ ’’میری کرسی بہت مضبوط ہے‘‘ اور جنرل ضیاء الحق نے بھی معلوم نہیں کس ترنگ میں آ کر کہا تھا کہ میں اگلا الیکشن بھی غیر جماعتی کرائوں گا‘ میاں نواز شریف نے عمران خان کی طرف سے استعفے کے مطالبے پر پھبتی کسی کہ ’’ پلّے نئیں دھیلا تے کردی پھرے میلہ میلہ‘‘ اور آصف علی زرداری کی اینٹ سے اینٹ بجانے والی تقریر کا نتیجہ بھی عوام کے سامنے ہے مگر پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران عمران خان نے اپنے علاوہ کرسی کو بھی فانی قرار دے کر تلافی مافات کی اور اسی کے تسلسل میں مائنس ون کا ذکر بھی کر دیا۔ اُسامہ بن لادن کے بارے میں اظہار خیال پر امریکہ سے زیادہ بلاول بھٹو کو غصّہ ہے اور وہ بار بار عمران خان سے معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن مائنس ون کے ذکر سے مسلم لیگ‘ پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے اہم لیڈروں کے دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں‘ذاتی طور پر میرے علم میں نہیں کہ وزیر اعظم کی دونوں باتوں میں کوئی ربط ہے یا نہیں؟دونوں باتیں انہوں نے کسی کو سنانے اور اپنے حامیوں‘ کارکنوں کو جگانے کے لئے کیں یا برسبیل تذکرہ منہ سے نکل گئیں؟ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ مُنہ سے نکل کوٹھوں چڑھی اور کہیں چنگاری جلتی ہے تو دھواں اُٹھتا ہے‘ وزیر اعظم کی طرف سے مائنس ون کے ذکر کو اپوزیشن کی استعفیٰ مہم کا فوری اور موثر جواب سمجھ کر پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے‘ بجٹ کی بآسانی منظوری اور اتحادیوں کی چار روزہ شورا شوری کے بعد خاموشی سے اگرچہ راوی چین لکھتا ہے مگر وزیر اعظم کی زبان پر مائنس ون کا آنا معنی خیز ہو سکتا ہے۔ عمران خاں نے ایک بات البتہ پتے کی کہی کہ میرے بعد بھی احتساب کا عمل رکے گا نہ اپوزیشن کا بھلا ہو گا۔ یاد آیا کہ 1999ء میں 12اکتوبر سے قبل اپوزیشن نے ون پوائنٹ ایجنڈے پر احتجاجی مہم چلا رکھی تھی اور آج سے نسبتاً مضبوط اپوزیشن کا ایک ہی نعرہ تھا۔’’نواز شریف استعفیٰ دیں‘‘جملہ تو جناب حامد ناصر چٹھہ نے 1993ء میں بولا تھا کہ ’’نواز شریف جائے اس کی جگہ خواہ کھٹومل رام آئے یا کوئی اور‘ ہمیں کوئی اعتراض نہیں‘‘ مگر 1999ء میں بھی یہی بات مختلف پیرائے میں کہی جاتی تھی‘ جی ڈی اے کے نام سے ایک اتحاد بھی وجود میں آ چکا تھا جسے جنرل (ر) اسلم بیگ ازراہ تفنن ’’ گڈا ‘‘کہا کرتے‘ جی ڈی اے کے ایک اجلاس میں اسلم بیگ نے نوابزادہ نصراللہ خان اور دیگر جمہوریت پسند سیاستدانوں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ اس وقت ون پوائنٹ ایجنڈے کی تکمیل کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سپہ سالار مداخلت کرے اور نواز شریف کی چھٹی کروائے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ نواز شریف کی جگہ آپ میں سے کسی کو تخت اسلام آباد پر بٹھانے کے لئے مداخلت کی کالک اپنے مُنہ پر کیوں ملے گا؟ بات کسی کو سمجھ نہ آئی اور 12اکتوبر ہو گیا‘باقی تاریخ ہے۔ اب بھی اگر کسی سیاستدان یا تجزیہ کار کا خیال ہے کہ مائنس ون کا مطلب شاہ محمود قریشی‘ اسد عمر ‘ اسد قیصر ‘سردار ایاز صادق یا میاں شہباز شریف میں سے کسی ایک کو تخت اسلام آباد پر بٹھانا اور احتساب کی بساط لپیٹنا ہے تو یہ ویسی خوش گمانی ہے جیسی 1999ء میں 12اکتوبر سے قبل ہماری سیاسی اشرافیہ کو تھی۔ ویسے تو عمران خان کی حکومت سے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے محاذ پر ایسی کوئی بڑی غلطی ابھی تک سرزد نہیں ہوئی کہ اندرون خانہ ناراضی یا بدگمانی راہ پائے۔ وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے پائلٹوں کی جعلی ڈگریوں کا قصہ چھیڑ کر ریاست کی شرمندگی کا سامان کیا مگر یہ ایسا معاملہ نہیں کہ تبدیلی کی بنیاد بن سکے۔ عمران خان سے کسی کو شکوہ و شکائت اگر ہے بھی تو یہ نہیں کہ وہ احتساب کی بات کیوں کرتا ہے‘ جمہوریت کے نام پر قومی لٹیروں سے شیروشکر کیوں نہیں ہوتا اور اس نے ڈیڑھ سو ارب روپے غریبوں‘مزدوروں‘ دیہاڑی داروں میں کیوں بانٹے۔ بے چینی اگر واقعی کہیں موجود ہے تو عمران خان کے اردگرد موجود ان نالائق اور مفاد پرست مشیروں اور صوبوں میں اعلیٰ سطح پر نااہلی کے حوالے سے ہے جو بائیس ماہ میں مافیاز کی گردن دبوچ سکے نہ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ گراں فروشی‘ ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کا قلع قمع کرنے میں عمران خان کی مدد کرپائے۔ تبدیلی کی خواہش اگر کہیں موجود ہے تو اس کا مطلب ہے کہ 1999ء کی طرح یہ مداخلت کسی سیاستدان یا طالع آزما سیاسی ٹولے کی بے تاب تمنائوں کی تکمیل کے لئے نہیں ماضی کا وہ گند صاف کرنے کی خاطر ہو سکتی ہے جو 1997ء میں سردار فاروق لغاری کر سکے نہ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف اور نہ 2018ء کے انتخابات کے بعد عمران خان۔ عمران خان کے پاس تو پھر بھی کمزور مخلوط حکومت کابہانہ ہے لیکن جن کا اپنا دامن کرپشن اور اقربا پروری سے داغدار ہے انہیں اقتدار میں لانے کے لئے مداخلت کا بھاری پتھر کون اٹھائے گا؟ ہاں البتہ مخالفین نے اگر عمران خان کو محمد مرسی بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو جی بسم اللہ!یہ تبدیلی شائد مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کو سب سے زیادہ مہنگی پڑے‘1999ء میں جنرل اسلم بیگ کی نصیحت کسی نے نہ مانی سب پچھتائے‘کیا اب بھی؟