اگر ہم اپنے سیاسی جھگڑوں کی وجہ سے ڈیم نہ بناپائیں‘ بارشوں کے پانی کو سٹور نہ کرسکیں یہاں تک کہ نکاسی آب کا بھی کوئی انتظام نہ کرسکیںتو اس کے نقصانات تو ہمیں بھگتنے ہی پڑیں گے۔ آخر اس کا ذمہ دار ہم قدرت کو کیوں ٹھہرائیں یا اس کا سارا دوش غریب اور مفلس خلقت کے گناہوں کے سر کیوں مونڈ دیں۔ ہاں ہم فتوے دینے میں بہت عجلت سے کام لیتے ہیں۔ ہمارے پاس بنے بنائے تیار شدہ فتوے پہلے سے رکھے ہوتے ہیں اور ہم سوچے سمجھے بغیر اسے جاری کردیتے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان فتوئوں کو اس طرح غوروفکر کے بغیر جاری کر نا زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم سیلاب زدگان کی مدد کریں اور خداوند تعالیٰ سے ان پر رحم کرنے کی دعا مانگیں۔ لیکن ہم ان کو مذہبی تناظر میں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ہم ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ ہمارے اس رویے اور اس تجزیے کے بارے میں خود خدا کیا سوچتا ہوگا اور ایسا کر کے ہم اس کی شان ربوبیت کی کیا خدمت رہے ہیں۔ وہ خدا جس کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ سترمائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے جس کے بارے میں ہم نے پڑھ رکھا ہے کہ انسانوں کو خلق کرنے سے پہلے ہی اس نے اپنے غضب پر اپنی رحمت کو غالب کرلیا تھا۔ روایات اور قرآنی آیات کی روشنی میں جو نہایت معاف کرنے والا‘ بخشنے والا‘ مہربان اور رحمان و رحیم ہے‘ اس مہربان خدا کی بابت ایسے فتوئوں سے ہم اسے راضی کر رہے ہیں کہ اس کے غضب کو آواز دے رہے ہیں؟ یہ سوچنے کی بات ہے اور ہم کچھ فیصلے صادر کرنے سے پہلے سوچتے ہی کب ہیں۔ خدا جس طرح فرد کو آزماتا ہے قوموں کی زندگی میں بھی آزمائش کے لمحات اور مقامات آتے ہیں اور یہ نشانی ہوتی ہے کہ خدا ان آزمائشوں کے بعد کچھ اچھا عطا کر کے اپنی آزمائش کی تلافی کر دے گا۔ دنیا کے مختلف ملکوں کی تاریخ اسی کی گواہی دیتی ہے۔ ایشیا میں چین اور جاپان مغرب میں برطانیہ‘ امریکہ‘ جرمنی‘ اٹلی اور دوسرے ممالک سب بڑے بڑے مصائب سے گزرے اور پھر انہوں نے خدا کی عطا کردہ توفیق سے اپنی تقدیر بدلی اور اپنے پائوں پہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اب اپنی تعمیروترقی کے مزے لے رہے ہیں۔ قوموں پہ آنے والی یہ آسمانی آفات جہاں پریشانیوں اور مصیبتوں کی گھڑی ہیں ،وہیں یہ اس بات کی خوش خبری بھی ہیں کہ خداوند تعالیٰ اپنے قانون تلافی سے جتنے نقصانات ہوئے ہیں ان کا ازالہ کردے گا۔ ملک میں سیاسی افراتفری اور انتشار اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا اور نہیں لگتا تھا کہ اس قوم میں کوئی نقطہ اتفاق و اتحاد بھی پیدا ہو سکے گا۔ اس سیلابی آفت نے کم از کم یہ تو کر ہی دیا کہ سیاسی جماعتوں میں اور ٹکڑیوں میں بٹی قوم میں ایک نقطہ اتفاق پیدا ہو گیا اور اب سب مل جل کر سیلاب زدگان اور مصیبت کے مارے پاکستانیوں کی مدد کے لیے کام میں مصروف ہو گئے ہیں۔ یہ رفاہی اور امدادی کام ہیں‘ یہ خدمت کے کام ہیں جن سے خدا خوش ہوتا ہے۔ فتوے جاری کرنے سے بہتر ہے کہ عمل کیا جائے کیونکہ اس کے آگے کہے گا وہ اعتبار نہیں ہے جو کہے کا اعتبار ہے۔ مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو لمبی لمبی زبانیں رکھتا ہے اور بڑی بڑی باتیں کرتا ہے لیکن جس کے اعمال صفر ہیں‘ خدا وند تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں صاف صاف بیان کر دیا ہے کہ تم وہ بات کہتے ہیں کیوں ہو جس پر عمل نہیں کرتے۔ تو ہمیں کہنے سے پہلے اپنے اندر جھانک کر ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں بلکہ جو کچھ ہم ہانک رہے ہیں ان پہ خود عمل کتنا کر رہے۔ اگر عمل نہیں کرسکتے تو انداہ مہربانی خاموش ہو جائیں۔ ملک کیا ہے ایک نقار خانہ بنا ہوا ہے۔ سب اپنی اپنی ہانک رہے ہیں اور کوئی یہ سوچنے پر تیار نہیں کہ جو ٹربو لائن ہماری زبانوں سے ظاہر ہورہا ہے اس کی تصدیق ہمارے اعمال سے ہو بھی رہی ہے یا نہیں۔ نصیحتیں‘ وعظ اور اصلاحی خطبات کی ماشاء اللہ سے کوئی کمی نہیں لیکن ان کا اثر کیا اور کتنا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ گھروں میں درس قرآن اور درس حدیث کی محفلیں سجانے کے باوجود اصلاحی خطبات ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور یوٹیوب اور فیس بک پر نظر ہونے کے باوجود‘ مسجدوں کے منبروں سے اٹھنے والیے ہر جمع کو ارشادات کے باوجود ہمارے اعمال ویسے کے ویسے ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ جتنی خوداحتسابی ہم مسلمانوں میں ہے شاید ہی کسی قوم میں ہو۔ ہم خود کو برا بھلا کہتے ہیں‘ اپنے آپ کو بدعمل بے عمل اور گمراہ سمجھتے بھی ہیں لیکن جو دل سوزی اور دل گرفتگی قوم کی حالت پہ ہونا چاہیے اس سے ہم محروم ہیں۔ ہاں لیکن ایک بات ضرور ہے۔ ہم اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی امداد کے لیے اپنے دامن دل کو ہمیشہ کشادہ رکھتے ہیں۔ اس قوم پر جب بھی زلزلہ آیا ہے‘ جب بھی کسی سیلاب نے آفت مچائی ہے‘ قوم نے پاکستانیوں نے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی امداد میں کبھی کوئی کمی نہیں کی۔ آج بھی سبھی لوگ‘ سارے عوام مل جل کر امدادی کام کر رہے ہیں۔ غذا‘ اناج‘ خیمے‘ بستر‘ لباس اور ضرورت کا ہر سامان مصیبت زدوں کے لیے جمع ہروہے ہیں اوران تک پہنچائے جا رہے ہیں۔ خدا خدمت خلق کے کاموں سے خوش ہوتا ہے اور یہ آفت کیا پتہ کہ اسی لیے آئی ہوئی ہو کہ ہم جو ٹکڑیوں میں بٹ گئے ہیں‘ نفرت کا زہر جو ہماری سیاست میں رچ بس گیا ہے‘ وہ سب دور ہو اور خدا ہمیں وہ کچھ عطا کر دے جو وہ عطا کرنا چاہتا ہے۔ ٭٭٭٭