گزشتہ کالم ڈاکٹروں کی مجرمانہ غفلت کے ہاتھوں تباہ ہونے والی زندگیوں کے حوالے سے لکھا تو اس پر آنے والی فیڈ بیک سے اندازہ ہوا کہ بات صرف چند واقعات تک محدود نہیں ہے۔ ہر خاندان میں کوئی ایک نہ ایک کیس ایسا موجود ہے جو نام نہاد ڈاکٹروں کی کرم فرمائی کا شکار (victim) ہو۔ یا پھر شکار ہوتے ہوتے بچا ہو۔ یہاں کینال روڈ پر واقع لاہور کا ایک مہنگا پرائیویٹ ہسپتال ہے جو دو وجوہات کی بنا پر شہرت رکھتا ہے ‘ایک تو اس کی آسمان کو چھوتی ہوئی فیس اور دوسری اس کے ڈاکٹروں کی نااہلی! اس کے باوجود جن کی جیب میں پیسہ وہ اسی ہسپتال کا رخ کرتے ہیں اس کی سمجھ مجھے آج تک نہیں آئی۔ ہمارے ایک عزیز جو ہماری ایک بھابھی کے بھائی ہیں‘ چار سال پیشتر افریقی ملک تنزانیہ میں مقیم تھے کہ بیمار ہو گئے۔ ان کے گردوں نے اچانک کام کرنا چھوڑ دیا۔ واپسی پاکستان آ گئے اور کینال روڈ پر واقع اسی مشہور ہسپتال میں زیر علاج ہو گئے۔ ان کی بیگم صاحبہ بھی ڈاکٹر ہیں جو یو این کے ساتھ کام کرتی ہیں وہ بھی دیکھ بھال کے لئے واپس پاکستان آ گئیں۔ چونکہ وہ خود ڈاکٹر تھیں تو انہیں دوران علاج شک ہوا کہ یہاں کے ڈاکٹرز کی تشخیص اور علاج کی سمت درست نہیں ہے۔ یہی بات انہوں نے اپنے لندن میں مقیم ڈاکٹربھائی سے کی۔ علامات ‘ ٹیسٹ کی رپورٹیں ان کے ساتھ شیئر کیں تو ان کا خدشہ درست نکلا انہوں نے معالجین سے دلیل کے ساتھ اپنی بات منوائی اور علاج کی سمت درست کروائی۔ ظاہر ہے علاج کرنے والے ڈاکٹروں کو یہ سخت ناگوار گزرا۔ بدمزگی بھی ہوئی لیکن بالآخر انہیں اپنی غلطی تسلیم کرنا پڑی ! یوں ان کے بھائی ڈاکٹروں کی غلط تشخیص کا شکار ہوتے ہوتے بچے۔ سوال یہ ہے کہ ایک عام مریض اور اس کے لواحقین تو ان ڈاکٹروں کے سامنے سوال کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ کیونکہ بعض اوقات ان کا رویہ مریض کے لواحقین کے ساتھ بہت ہتک آمیز ہوتا ہے۔ فیڈ بیک میں چند ای میل بھی ایسی تھیں کہ جس میں پڑھنے والوں نے اپنے ساتھ بیتی ہوئی’’ڈاکٹر کہانی‘‘ لکھ بھیجی تھی۔ لیکن میں یہاں ذکر کروں گی محترم مرحوم و مغفور منو بھائی کی بہو فوزیہ کاشف کا جنہوں نے اپنے گھر سے ہی تین ایسے واقعات شیئر کئے جو ڈاکٹروں کی غلط تشخیص اور ان کی مجرمانہ غفلت کے حوالے سے تھے۔ منو بھائی کے اکلوتے صاحبزادے کاشف منیر بھی لڑکپن میں کسی ڈاکٹر کی غلطی کا شکار ہوئے تھے جس سے ان کی بیماری ٹھیک ہونے کی بجائے بڑھتی گئی۔ منو بھائی کو جاننے والے جانتے ہیں کہ انہیں بڑے سے بڑے مسئلے میں بھی افسردہ نہیں دیکھا گیا سوائے اپنے بیٹے کی بیماری کے حوالے سے۔ جس کے بارے میں وہ اکثر کہتے کہ مجھے پچھتاوا ہے کہ میں اپنے بیٹے کا بہتر علاج نہ کروا سکا۔ کاشف منیر ایک حوصلہ مند انسان ہے۔ وہ اپنی بیماری پر حیران کن حد تک قابو پا کر بہترین انداز میں زندگی گزار رہے ہیں۔ منو بھائی کے بیٹے کو ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ پرامید اور حوصلہ مند! ہمارے سماجی پس منظر میں ڈاکٹر کبھی بہت قابل احترام پیشہ ہوا کرتا تھا اسی لئے اس کے ساتھ سچائی کا لفظ جڑا ہوا تھا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اب بھی یقینا ایسے ڈاکٹر موجود ہیں جو صحیح معنوں میں بیمار کی مسیحائی کرتے ہیں۔ اس کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں اور فارما سوٹیکل مافیا کے تمام تر پریشر کے باوجود غیر ضروری دوائیں نہیں دیتے خواہ اس کے لئے انہیں بہت سارے ’’فوائد‘‘ سے ہاتھ دھونا پڑیں۔ ڈاکٹر اریب رضوی بھی اس تاریکی میں ایک چراغ کی صورت میں موجود ہیں اور مسیحائی کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ پھر ڈاکٹر انتظار بٹ جنہیں میں ذاتی طور پر جانتی ہوں کہ مسیحا نفس انسان ہیں ۔ذاتی غرض سے بے نیاز ہمہ وقت دکھی مریضوں کی تکلیف دور کرنے کے لئے کمر بستہ۔ وہ آج کی نسل کے لئے ایک رول ماڈل ہیں۔ ایسے بے لوث ڈاکٹرز یقینا موجود ہیں لیکن کتنے۔؟ آٹے میں نمک کے برابر‘ ان کی تعداد تھوڑی ہے۔ ہماری ستر فیصد آبادی دیہاتوں اور قصبوں میں مقیم ہے۔جہاں عطائی اور نیم حکیم معالج کے روپ میں انسانوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں استعمال ہونے والا سامان سرنجیں‘ اور دیگر جراحی آلات معیار کے مطابق صاف اور جراثیم سے پاک نہیں ہوتے اسی لئے یہاں ایسے خوفناک واقعات بھی ہوتے ہیں کہ تھیلیسیمیا کے مریض بچے جو پہلے ہی قدرت کی طرف سے ایک موذی مرض کا شکار ہیں انہیں خون لگوانے کے عمل کے دوران ہیپاٹائٹس ہو جاتا ہے۔ یہ کوئی دو سال پہلے کی خبر تھی۔ لاہور میں تھیلیسیمیا کے 25بچوں کو ہیپا ٹائٹس سی بھی ہو گیا۔ ایسے واقعات آپ ظلم اور ناانصافی کے کون سے درجے پر رکھیں گے؟ میرے نزدیک تو یہ سنگین جرم اور بڑی ناانصافی ہے لیکن بدقسمتی سے ایسی ناانصافیاں ہمارے معاشرے میں عام بلکہ سر عام ہو چکی ہیں۔ گردوں کا ڈائیلاسز کروانے والے مریض بھی ہیپاٹائٹس کے مریض بن رہے ہیں۔ یعنی یہاں صحت کا نظام یہ ہے کہ ایک بیماری کا علاج کروانے جائو تو دوسری بیماری کمپلیمنٹری آپ کو لاحق ہو جاتی ہے یا پھر لاحق کر دی جاتی ہے تاکہ مرض پھیلتے رہیں۔ مریض بڑھتے رہیں اور فارماسوٹیکل مافیا کے مذموم مقاصد پورے ہوتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت کہ جدید ہیلتھ سسٹم فارما سوٹیکل مافیا کے ہاتھوں میں ہے اور پھر جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے! ڈاکٹرز اب ان دوائیں بیچنے والی کمپنیوں کے غیر اعلانیہ ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ آپ انہیں فارماسوٹیکل مافیا کے سیلز پرموشنل ایجنٹ کہہ سکتے ہیں۔ ان خدمات کے عوض انہیں دوائی مافیا کی طرف سے بیرون ملک ٹورز کروائے جاتے ہیں۔ فائیو سٹار ہوٹلوں میں پروگرام اور فیملی ڈنرز کا اہتمام ہوتا ہے۔ ایک ڈاکٹر جتنا بڑا ایجنٹ ہو گا اس کے پرکس اینڈ پریویلج اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ مثلاً قیمتی اور بڑی گاڑیاں۔ استنبول‘ اور ملائشیا کے فیملی ٹرپ وغیرہ وغیرہ! پیارے قارئین! اس مافیا سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنی صحت کی حفاظت کریں۔ صحت مند غذائیں کھائیں۔ سیر اور ورزش کو معمول بنائیں‘ صدقہ دیں اور مثبت سوچیں۔ تاکہ حتی الامکان بیماریوں اور ڈاکٹروں سے بچے رہیں۔اس لئے ’’پرہیز علاج سے بہتر ہے۔