معزز قارئین!۔ جب بھی ہمارا کوئی حکمران اپنے ساتھیوں کو لے کر یا کوئی سرکاری / غیر سرکاری وفد عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر جاتا ہے تو ،مَیں اُن کے اِس دورے کو ثواب ؔہی سمجھتا ہُوں؟۔ اِس لئے کہ پیغمبر انقلابؐ نے ’’مدینۃ اُلعلم‘‘ ( علم کے شہر ) کی حیثیت سے مسلمانوں کو ہدایت کی تھی کہ ’’ علم حاصل کرو ، خواہ تمہیں چینؔ ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘۔ اُس وقت چین میں کاغذ ایجاد ہو چکا تھا اور وہاں لکڑی کے "Blocks" (ٹھپّوں) کے ذریعے کتابیں چھپنا شروع ہوگئی تھیں ۔ یقینا ’’ مدینۃ اُلعلم‘‘ کا اُس کا ادراک بھی ہوگا؟ ۔ جمہوریہ تُرکیہ کے بانی غازی مصطفیٰ کمال پاشا نے بے سرو سامانی کے باوجود یورپی ملکوں کی غُلامی کی زنجیریں توڑ کر تُرکیہ کو آزاد کرایا تو،1923ء میں علامہ اقبالؒ نے ’’ طلوع اِسلام‘‘ کے عنوان سے اپنی نظم ’’ انجمن حمایتِ اسلام‘‘ لاہور کے جلسے میں پڑھی ۔ نظم کے دو شعر یوں ہیں … ولایت، علم اشیا کی، جہانگیری! یہ سب کیا ہیں؟ فقط اِک نکتۂ ایماں کی تفسیریں! …O… براہیمی ؑ نظر پیدا، مگر مُشکل سے ہوتی ہے! ہوِس، چُھپ چُھپ کے، سِینوں میں ، بنا لیتی ہے ، تصویریں! صدر جمہوریہ تُرکیہ منتخب ہو کر اتا تُرک ؔنے اپنی ساری جائیداد قوم کے نام کردِی تھی۔ اتا تُرک ؔکو خلافت کا ناکارہ ادارہ ختم کر کے اُنہیں اپنا انقلاب ؔمکمل کرنے کا پورا موقع مِلا تھا اور عوامی جمہوریہ چین کے بانی چیئرمین ’’مائوزے تنگ ‘‘ (Mao Zedong) کو بھی۔ چیئرمین مائوزے تنگ نے جب 9 ستمبر 1976ء کو انتقال کِیا تو ، اُنہوں نے ترکے میں چند ڈالرز، 6 جوڑے کپڑے (Uniforms) اور ایک لائبریری چھوڑی تھی۔معزز قارئین!۔ بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے بھی گورنر جنرل آف پاکستان کا عہدہ سنبھالتے ہی اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا ۔ وہ بہت جلد 11 ستمبر 1948 ء کو خالق حقیقی سے جا ملے ۔ اُنہیں اپنا انقلابؔ مکمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ یہ محض اتفاق ہے یا باہمی ؔاتفاق کہ ’’ عُلمائے سُو ‘‘نے مِلّت اسلامیہ کے دونوں نامور قائدین اتا ترکؔ اور قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کے فتوے جاری کر کے رُسوائی حاصل کی‘‘۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران چیئرمین مائوزے تنگ کی قیادت میں عوامی جمہوریہ چین نے پاکستان کی بھرپور امداد کی اور پھر چین اور پاکستان کے عوام کی جذباتی اور گہری دوستی قائم ہوگئی۔ صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ’’پاک چین دوستی‘‘ کے بانی تھے لیکن ، جون 1966ء میں صدر ایوب خان کی حکومت سے الگ ہو کر اُن کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے ، عوامی جلسوں میں ’’پاک چین دوستی ‘‘۔ "Cash" کرانے کی کوشش کی۔ جنابِ بھٹو نے 30 نومبر 1967 ء کو پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی تو، وہ پارٹی کے چیئرمین (Chairman) منتخب ہوگئے۔ یعنی۔ عوامی جمہوریہ چین میں ’’چیئرمین مائوزے تنگ ‘‘ اور پاکستان میں ’’چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو‘‘ ۔ بھٹو صاحب جب بھی، چینی طرز کا بند گلے کا کوٹ / پتلون اور سر پر "Mao Cap" سجا کر چیئرمین مائوزے تنگ کے انداز میں اپنے دونوں ہاتھ بلند کر کے ، سوشلزم / اسلامی سوشلزم کو عوامی مسائل کا حل بتاتے تو جیالے ’’ بھٹو جئے ہزاروں سال‘‘ کے نعرے بلند کرتے اور دھمال ڈالتے۔ جنابِ بھٹو کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو ، دامادِ بھٹو ، جنابِ آصف زرداری اور نواسۂ بھٹو بلاول زرداری نے بھی عوامی جلسوں میں ’’ مائو کیپ‘‘ پہن کر عوام میں مقبول ہونے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے برادرِ خورد وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی عوامی جمہوریہ چین کے دوروں کے بعدعوامی جلسوں میں ’’ مائو کیپ‘‘ پہننا ضروری سمجھا۔ مجھے اپنے اخبار روزنامہ ’’ سیاست‘‘ کے ایڈیٹر اور مختلف قومی اخبارات کے کالم نویس کی حیثیت سے آدھی دُنیا کی سیر کرنے کا موقع مِلا اور میرا حاصل ِ زندؔگی یہ ہے کہ ’’ مجھے ستمبر 1991ء میں صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ خانہ ٔ کعبہ کے اندر دخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی اور پھر جون 2005ء میں اپنے جدّی و پشتی پیر و مرشد ’’ نائب رسولؐ فی الہند‘‘ خواجہ غریب نواز ، حضرت معین اُلدین چشتیؒ کی درگاہ ( اجمیر شریف) میں حاضری کا موقع ملااور دونوں بار مجھے نعت ِ رسول مقبول ؐ اور حضرت خواجہ غریب نواز کی منقبت لکھنے کی سعادت حاصل ہُوئی۔ اپنے دورہ ٔ عوامی جمہوریہ چین کے بارے میں ملتان کے بیر سٹر تاج محمد خان لنگاہ ، لاہور کے جناب ارشاد احمد حقانی اور کرامت علی خان اور کئی دوسرے مرحوم دوستوں نے کتابیں لکھیں اور ماشاء اللہ بقید ِ حیات ۔ روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کے گروپ ایڈیٹر برادرِ عزیز ارشاد احمد عارف نے (روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر کی حیثیت سے ستمبر 1999ء میں )اپنے دو ماہ کے دورۂ چین کے تجربات کو ’’ دیوارِ چین کے اُس پار ‘‘کے عنوان سے کتاب لکھی تو اُس کے اب تک کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔ نامور ادیبوں ، صحافیوں اور سیاستدانوں نے کتاب کی تعریف کی لیکن ، کئی (ناراض قسم کے ) احباب نے کہا ’’ یار ارشاد احمد عارف !۔ تمہیں چین میں ہر طرف خوبیاں ہی خوبیاں نظر آئیں کوئی خامی کیوںنہیں نظر آئی؟‘‘ تو، عارف صاحب نے کہا کہ ’’ مَیں تو دوست ملک میں خوبیاں تلاش کرنے اور کچھ سیکھنے گیا تھا ، خامیوں کی طرف تو میرا دھیان ہی نہیں گیا‘‘۔ کالعدم ہونے کے پہلے مجھے دو بار 1987ء اور 1988ء میں سوویت یونین کا دورہ کرنے کا موقع ملا تو، مَیں نے دسمبر 1988ء میں ’’ دوستی کا سفر‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی ۔مجھے دو بار عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر جانے کا موقع ملا۔ پہلی بار اگست 1991ء میں ( اُن دِنوں) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیخ رشید احمد کی قیادت میں 11 سینئر صحافیوں کی "Eleven" کے رُکن کی حیثیت سے اور دوسری بار وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے 1996ء میں ۔ اُن دوروں میں مَیں چینی صحافیوں اور غیر صحافیوں سے جو بھی علم حاصل کر سکا۔ دونوں بار شیشے کے ایک "Box" میں جناب ’’ مائوزے تنگ ‘‘ کے جسدِ خاکی کو بھی دیکھا تو، مجھے بہت سکون حاصل ہوا۔ مَیں نے اپنے دورۂ چین کے بارے میں کئی کالم لکھے ، کتاب نہیں لکھ سکا؟۔ البتہ 1996ء میں مَیں نے ’’ ہمالہ سے عظم تر ہے پاک چین دوستی‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی جو 1985ء سے میرے دوست چیئرمین ’’ پاکستان کلچرل فورم‘‘ اسلام آباد برادرِ عزیز ، ظفر بختاوری نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ دُنیا بھر کے سفارتخانوں میں پھیلا دِی۔ نظم کے تین بند پیش خدمت ہیں … خُلوص و بے ریائی کے ، حسِین گُل کِھلے ہُوئے! سدا سے ہیں ، عوام کے، دِلوں سے ،دِل مِلے ،ہُوئے! محبتّوں کی دُھن پہ ،رقص کر رہی ہے زندگی! ہِمالہ سے عظیم تر ہے ،پاک چین ،دوستی! …O… خُدا کی بارگاہ میں ، دانائی ہی قبول ہے! ’’ تم پائو عِلم چین سے‘‘ فرمودۂ رسولؐ ہے! اُس دَور میں بھی، چین تھا، مَنّبعٔ عِلم و آگہی! ہِمالہ سے عظیم تر ہے ،پاک چین دوستی! …O… کشمیر ہو ،یا ہو عراق ، یا سر زمینِ ،فلسطیں! چمکے گی شمّع حُریتّ ، ہوگا اُجالا بِالیقیں! عِفرِیت ظُلم و جَور کو، کرنا پڑے گی ،خُود کُشی! ہِمالہ سے عظیم تر ہے ،پاک چین دوستی! معزز قارئین!۔ ہمارے سابقہ حکمرانوں کی طرح وزیراعظم عمران خان کا دورہ ٔ عوامی جمہوریہ چین بھی بہت کامیابؔرہا ؟۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان کو داد دینا پڑے گی کہ اُنہوں نے عوامی جمہوریہ چین کے کسی لیڈر یا عام شخص کو خوش کرنے کے لئے سر پر ’’ مائو کیپ‘‘ نہیں سجائی؟۔ دونوں ملکوں میں دوستی کو مزید مستحکم کرنے کے لئے 15 معاہدے ہُوئے ۔ اچھی بات ہے۔ ایک دلچسپ خبر یہ ہے کہ ’’ ہمارا برادر اور دوست ملک سعودی عرب تو ہمیں امریکی کرنسی ڈالر ؔ کی شکل میں امداد دے گا لیکن، اب آئندہ چین اور پاکستان آپس میں اپنی اپنی مقامی کرنسی میں تجارت کریں گے ‘‘۔ کیا اِس طرح واقعی "Uncle Dollar" ٹکے ٹوکری ؔہو جائیں گے ؟۔