اسلام آباد(خبر نگار،92 نیوز رپورٹ )چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ماڈل کورٹس میں مزید توسیع کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سستا ، فوری انصاف فراہم کرنا عدلیہ کی آئینی ذمہ داری ہے ، چند مہینے کے اندر تمام عدالتوں کو ماڈل کورٹس کا درجہ دیدیا جائیگا ،جہاں ملک ،ریجن سے اچھی خبریں نہیں آرہیں وہاں عدلیہ مسلسل اچھی خبریں دی رہی ہے ۔ 57مزید ماڈل کورٹس کے ججوں کی تربیتی ورکشاپ کے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ 24جون کو قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں سول ماڈل،رینٹ ،فیملی ،ر مجسٹریٹ ماڈل کورٹس کے قیام کی منظوری دیدی جائیگی جبکہ ہر ضلع میں ایک ایک صنفی تشدد اور چائلڈ کورٹ قائم کردی جائیگی ۔ اس سے قطع نظر کہ معیشت کی زبوں حالی کیلئے کون ذمہ دار ہے لیکن آنیوالی خبریں پریشان کن ہیں کیونکہ کبھی خبریں آرہی ہیں کہ معیشت آئی سی یو میں ہے ،کبھی کہا جارہا معیشت کو آئی سی یو سے نکال لیا گیا،جمہوریت کی یہ صورتحال ہے کہ پارلیمنٹ میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو تقریر کرنے نہیں دیا جاتا، افغانستان ، ایران کے حوالے سے خبریں بھی حوصلہ افزا نہیں ۔ جو نتائج 48دن میں ماڈل کورٹس نے دیے وہ ناقابل یقین ہیں۔ ماضی میں مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر پر توجہ نہیں دی گئی لیکن اب مقدمات کے فوری فیصلوں کیلئے ایک منصوبہ بناد یا گیا ہے ،ہر مہینے ہر ضلع میں ایک ایک ماڈل کورٹ کا اضافہ ہوتا جائیگا ۔ انصاف فراہم کرنے کیلئے سچی گواہیاں لازمی ہیں، گواہی کے دوران سچ کو جھوٹ کے ساتھ ملانے پر پورا کیس جھوٹا تصور ہوگا ، وہ روایت اب ختم ہوگئی ہے کہ گواہ بیان دے چاہے جھوٹ بولے یا سچ ۔چیف جسٹس نے سابق چیف جسٹس جسٹس ریٹا ئرڈ منیر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جو روایت قائم کردی تھی وہ ہم نے ختم کردی ہے ۔ جسٹس منیر نے 1951میں اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ گواہ عدالتوں میں سچ بولے یا جھوٹ ،انھیں بولنے دیا جائے ،وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ اس کا فیصلہ عدالت کرے گی، ہم نے یہ روایت ختم کردی۔چیف جسٹس نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افضل ظلہ نے 1992میں اپنے ایک فیصلے میں یہ آبزرویشن دی کہ اسلامی معاشرے میں جھوٹے گواہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا لیکن انہوں نے بھی جسٹس منیر کے فیصلے کو رہنے دیا ۔ اﷲ تعالی نے مجھے یہ روایت ختم کرنے کی توفیق دی ۔92 نیوز رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ بعض ملزمان برسوں تک بغیر کسی جرم کے جیلوں میں قید رہتے ہیں ،عدالتوں میں مقدمات کو زیادہ طول نہیں دینا چاہیے ، جیلوں میں قید افراد کے بچے بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں۔ جرائم کے خاتمے کیلئے نظام کو بہتر کر رہے ہیں، آج ہمیں مزید 57 چیتے ملے ہیں۔پارلیمنٹ میں صرف شور شرابہ ہوتا ہے ۔ نظام انصاف کی بہتری کیلئے ماضی میں توجہ نہیں دی گئی، لوگ کئی سال جیل میں پڑے رہتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، ہمیں سب سے پہلے فوجداری نظام عدل کو بہتر کرنا ہے ۔ ٹی وی لگائیں تو پارلیمان میں شور شرابا ہورہا ہوتا ہے ،ہم چینل تبدیل کرکے ورلڈ کپ دیکھتے ہیں پھر بھی اچھی خبر نہیں آتی ۔