کسی زمانے میں بچے بڑے ہو کر ڈاکٹر، وکیل یا انجینئر بننے کے خواب دیکھا کرتے تھے، اور ایسے ہی خواب اپنے بچوں کے لئے ان کے والدین چنا بھی کرتے تھے، پھر سن دو ہزار دو کے بعد بچوں اور نوجوانوں کے لئے برقی صحافت پسندیدہ ترین کیرئیر بن گیا‘ ٹی وی جرنلزم نے جہاں کئی اینکرز اور صحافیوں کو مالا مال کیا وہیں سب سے بڑی لاٹری نکلی کمرشل اشتہارات کیلئے کام کرنے والی ماڈل گرلز کی، اس لاٹری میں حصہ وصول کیا ماڈلنگ کرنے والے لڑکوں نے بھی، مگر بہت زیادہ نہیں۔ ماڈلنگ آج سینکڑوں، ہزاروں لڑکیوں کیلئے پسندیدہ ترین شعبہ بن چکا ہے، بے شمار ایسی بچیاں بھی دکھائی دیتی ہیں جن کا ماڈل گرلز کی شان و شوکت کے حوالے سے خبریں پڑھ پڑھ اور دیکھ دیکھ کر پڑھائی سے بھی جی اکتا گیا ہے، کئی طالبات تو ایسی بھی دیکھی گئی ہیں جو تعلیم ادھوری چھوڑ کر راتوں رات ماہرہ خان، مہوش حیات،عمیمہ ملک،مومل شیخ، ونیزہ احمد اور آمنہ حق جیسی کامیاب ماڈلز کی صف میں کھڑی ہونا چاہتی ہیں، ایسا کیوں نہ ہو۔ میڈیا کی ہی اطلاعات ہیں کہ حال ہی میں ایک ٹاپ ماڈل گرل نے اشتہار کے لئے کئی کروڑ روپے وصول کئے ہیں، ایسی خبروں کا مسلسل مشاہدہ رکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ پانچ سال پہلے ماڈل گرل ایان علی نے جو اب ڈالر گرل کہلاتی ہیں، پانچ کمرشلز کا ایک کروڑ روپیہ طلب کیا تھا۔ جب ایسی خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں تو آتش شوق تو بھڑکے گی ہی ناں، اور بنیادی بات یہ ہے کہ اپنے سینوں میں یہ آتش شوق بڑھانے والی زیادہ تر لڑکیوں کا تعلق نام نہاد مڈل یا لوئر کلاس سے ہوتا ہے، جنہیں ’’شکار‘‘ کرنا اس شعبہ میں موجود لا تعداد شکاریوں کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہوتااور ہمارے معاشرے میں مذکورہ طبقات کی بچیوں کے لئے ماڈل گرلز والے لباس، جیولری اور میک اپ کی کٹیں خریدنا کوئی آسان کام نہیں ہے، اس طبقے کی بچیوں کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ خود کو’’ماڈلنگ‘‘ کے نام پر بلوانے والوں کے ساتھ میٹنگ کے لئے ’’اوبر‘‘ پر سفر کر سکیں، ہمارے علم میں لایا گیا ہے کہ ماڈل گرل بننے کی شوقین بے شمار لڑکیاں جیسے خالی ہاتھ گھر سے نکلتی ہیں ویسے ہی خالی ہاتھوں کے ساتھ واپس گھروں میں لوٹ جاتی ہیں، انہیں ’’شکاری لوگ‘‘ کئی کئی گھنٹے پاس بٹھا کر میٹنگ یا شوٹنگ کینسل ہوجانے کا بہانہ کرکے واپس بھجوا دیتے ہیں اور پھر جب جی چاہے دوبارہ ’’طلب‘‘ کر لیتے ہیں۔ ایسے نام نہاد فنانسرز یا جعلی ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کے ’’مالکان‘‘ دراصل خود کنگلے ہوتے ہیں۔ وہ معصوم بچیوں سے پیسے بٹورنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ نئی ماڈل گرل بننے کی شوقین بچیوں کو اس وقت ملکی حالات کا بھی ادراک ہونا چاہئیے۔ پچھلے ایک سال سے معیشت کی حالت دگرگوں ہے، صنعتی حالات ابتر ہیں۔ سرمایہ کاروں نے جیبوں کو ’’زپیں‘‘ لگوالی ہیں۔ ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کی آمدن میں کئی گنا کمی ہوئی ہے، درمیانے سائز کی کمپنیوں کا کام ٹھپ ہے۔ زندگی کے دوسرے کئی شعبوں کی طرح گزشتہ بارہ چودہ مہینوں سے شدید مندی کا رحجان ہے، اور یہ حالات اگلے ایک دو سال تک برقرار رہ سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت کو مڈل کلاس کی حکومت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ مبینہ درمیانہ طبقے نے کثیر تعداد میں تحریک انصاف کو ووٹ دیے، اسی طبقے کی محترم خواتین، طالبات اور دوسری لڑکیوں نے حکمران پارٹی کو سپورٹ کیا، عمران خان کے دھرنے میں کثرت سے شریک ہونے والی عورتیں بھی بالا دست یا انتہائی غریب طبقے سے تعلق نہیں رکھتی تھیں۔ ہمارے خیال میں اگر نام نہاد مڈل کلاس کی کچھ تعداد میں لڑکیاں شو بز کی جانب رحجان رکھتی ہیں تو یہ کوئی بری بات بھی نہیں ہے، کیونکہ یہ بھی ایک انڈسٹری ہے جس کا ایک دو سال بعد تابناک مستقبل ہو سکتا ہے۔ موجودہ حکومت کو ایکٹنگ اور ماڈلنگ کی تربیت کے لئے سرکاری سطح پر اکیڈمیاں کھولنی چاہئیں جہاں برائے نام فیسیں لے کر اس ہنر کو فروغ دیا جا سکتا ہے اور اس شعبہ میں جانے کی خواہش مند لڑکیوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ سونے پر سہاگہ یہ ہوا ہے کہ جو ماڈل بھی روشن ہوتی ہے اسے فلموں کی ہیروئن بھی بنا دیا جاتا ہے، اور اسی بات پر جھگڑا چل رہا ہے۔ فردوس جمال کا ماڈل گرلز کے ایک جم غفیر کے ساتھ، فردوس جمال نے ایک دو ماڈلز کی اداکاری پر جو طنز کیا ہے اسے زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی، اگر شائقین فلم کسی ایسی ماڈل کی فلم کو کامیاب کرا دیتے ہیں جسے واقعی اداکاری نہ آتی ہو تو فردوس جمال کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئیے تھا، کیونکہ ’’دلہن وہی جو پیا من بھائے‘‘ ایک بات اور بھی سمجھنے والی ہے کہ آج کی ٹاپ ماڈل گرلز راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر نہیں پہنچی ہوں گی، سالہا سال کی جدوجہد ہوگی منزل تک پہنچنے کے لئے، حالات کے تھپیڑے کھائے ہوں گے۔ ٭٭٭٭٭ اب ہم آپ کو ایک لڑکی کی تین چار دہائیاں پہلے کی کہانی سناتے ہیں جو کسی دور دراز شہر سے ایکٹنگ کے شوق کی تکمیل کے لئے لاہور آئی تھی۔ ٭٭٭٭٭ وہ انیس سو اسی کے وسط میں ایک نیو ائر پارٹی میں آئی تھی، ہال میں داخل ہوتے ہی وہ سب کی توجہ کا مرکز بن گئی، رات کے دس بجنے کو تھے، پارٹی کا باقاعدہ آغاز ہونے میں ابھی دو گھنٹے سے زیادہ وقت باقی تھا، اس کے وہاں آجانے سے گویا وقت ٹھہر گیا، وہ شمع جسے رات ٹھیک بارہ بجے بجھایا جانا تھا اس کی لو تیز ہو گئی، اگرچہ اس پارٹی میں پہلے سے کئی خواتین موجود تھیں ،لیکن اس کے آ جانے سے سب کی روشنی ماند پڑ گئی تھی، تھوڑی دیر بعد اچانک چہ میگوئیاں شروع ہو ئیں کہ وہ لڑکی محفل سے غائب ہے، اسے تلاش کرنے کے لئے’’شائقین‘‘ کو زیادہ تگ و دو نہ کرنا پڑی، وہ بازو والے کمرے میں ایک نا معلوم نوجوان کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھی،پھر اس کے محفل میں واپس آنے کا جان لیوا انتظار شروع ہوا، لڑکی کو باہر بیٹھے مہمانوں میں واپس لانے کے لئے ہر جتن کیا گیا، لیکن سب کاوشیں بیکار رہیں، نیو ائر کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو چکا تھا، بارہ بجنے میں اب صرف دس منٹ باقی تھے،جو لوگ اس لڑکی کی ہال میں واپسی کے مشتاق تھے، انہوں نے بتانا شروع کیا کہ وہ دونوں تو اندر ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو رہے ہیں، کچھ ’’جاسوسوں‘‘ نے ان دونوں کی ہچکیاں بھی سنی تھیں، کسی کو سمجھ نہ آرہا تھا کہ ماجرہ کیا ہے؟ صرف دس سیکنڈ باقی تھے بارہ بجنے میں جب وہ دونوں کمرے سے باہر نکل کرآئے، ہال میں زور دار تالیاں بجیں، اس سے پہلے کہ شمعیں گل کردی جاتیں ہال میں ایک زور دار چیخ گونجی۔۔۔۔ ۔۔۔ یہ لڑکی اس پارٹی میں نہیں ناچے گی، کیونکہ یہ میری بہن ہے۔۔۔۔۔۔ محفل پر مکمل سکتہ طاری ہو گیا ، سب خود کو گنہگار سمجھ رہے تھے، اس محفل سے سب سے پہلے بھاگا وہ شخص جو اس لڑکی کو نہ جانے کہاں سے اپنے ساتھ لایا تھا، پھردوسرے آہستہ آہستہ کھسکنے لگے، یوں لگ رہا تھا جیسے نیو ائیر پارٹی تختہ دار پر لٹکا دی گئی ہو۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭ کئی دنوں کے بعد پتہ چلا کہ وہ لڑکی چیخنے والے نوجوان کی کچھ نہیں لگتی تھی ، وہ اداکارہ بننے کے شوق میں کسی چھوٹے شہر سے لاہور آئی تھی اور یہاں وہ ’’شکاریوں‘‘ کے ہتھے چڑھی رہی، ایک شکاری نے ترس کے نام پر اس سے شادی کر لی اور چھ ماہ بعد چھوڑ دی، اس لڑکی کا وہ سابق خاوند اس نوجوان کے بڑے بھائی کا دوست تھا، وہ اپنے ازدواجی دنوں میں اپنی بیوی کے ساتھ ان کے گھر جایا کرتا تھا، اور چیخنے والا نوجوان اس لڑکی کو باجی کہا کرتا تھا، اور وہ اس لڑکی کی طلاق اور اس کی نئی زندگی سے لا علم تھا۔