گزشتہ روز ذی وقار شخصیت ٹورزم کے حوالے سے خطاب کر رہی تھی۔ دوران خطاب ایک اطلاع ایسی دی کہ دل دہل گیا۔ اطلاع یہ تھی کہ ہمالیہ پہاڑ نے جگہ بدل دی ہے اور وہ دریائے سندھ کے مغرب میں چلا گیا ہے۔ یہ تو قیامت کی شروعات ہو گئی۔ یہ بھی خیال آیا کہ ہمالیہ مغرب میں چلا گیا ہے تو پھر قراقرم کا کیا بنا ہو گا‘ اسے ہٹا کر بھی وہ مغرب میں گیا ہو گا۔ مغرب میں ہندو کش کا پہاڑ تھا‘ وہ سرک کر کہاں چلا گیا؟ نیپال ؟ کیا پتہ بنگلہ دیش پہنچ گیا ہو۔ پریشان ہو کر گوگل میپ دیکھا‘ پتہ چلا سب پہاڑ اپنی اپنی جگہ موجود ہیں۔ قراقرم شمال میں ہے۔ ہمالیہ مشرق میں اور ہندو کش مغرب میں۔ تسلی ہوئی کہ ابھی قیامت کی شروعات نہیں ہوئی۔ مذکورہ ذی وقار شخصیت نے اطلاع ان الفاظ میں دی تھی کہ انڈس کے ویسٹ میں ہمالہ پہاڑ ہے جو بہت خوبصورت ہے۔ ٭٭٭٭٭ ذی وقار شخصیت معلومات اور علم کے باب میں بہت امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ تاریخ میں بھی انمول دریافتیں فرما چکے ہیں۔ بعض احباب کا کہنا ہے کہ دراصل وہ تاریخ کی درستگی فرما رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے انہیں نے بحر تاریخ کی غواصی کی اور یہ لعل بے بہا ڈھونڈ کر لائے کہ تاریخ میں حضرت موسیٰؑ کا ذکر تو ملتا ہے لیکن حضرت عیسی ؑ کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ یوں انہوں نے باز نطینی تاریخ‘ رومن تاریخ‘ کنعان کی تاریخ‘ شام و لبنان کی تاریخ سمیت بہت سی کتب تواریخ کی بیک جنبش زبان تصیح فرما دی۔ ان سب تاریخوں میں حضرت عیسیٰؑ کا ذکر ہی نہیں‘ ان کی حیات اور واقعہ صلیب کا احوال بھی درج ہے۔ ظاہر ہے یہ سب تاریخیں غلط فہمی میں لکھی گئیں اور ساتھ ہی قبل از عیسائیت کی رومن تاریخ کی اس کتاب کی تصحیح بھی ہو گئی جو اس دور کے مصنف اور سینیٹر طاسرطس نے لکھی تھی۔ اس میں بھی جو ڈاہ کے علاقے میں مسیح نام کے ایک مدعی بنوت(بقول مصنف) کا ذکر ہے اور پھر انہیں مصلوب کئے جانے کی خبر بھی۔ روم میں یہ پہلی کتاب تھی جس میں حضرت عیسیٰؑ کا ذکر آیا۔ ٭٭٭٭٭ انہی دنوں انہوں نے ایک اور نادر نکتہ دریافت کر کے جرمنی جاپان کو حیران کر دیا تھا۔ فرمایا‘ جنگ عظیم دوم میں دونوں ملک تباہ ہو گئے لیکن جنگ کے فوراً بعد کھڑے ہو گئے‘ صرف اس لئے کہ ان ملکوں کے ادارے باقی تھے۔ملک تباہ ہو گئے برباد ہو گئے لیکن ادارے باقی رہے۔ اس معجزے کی یہ دریافت بھی کسی معجزے سے کم نہیں۔ تاریخ میں البتہ کچھ اور لکھا ہے۔ یہ کہ ان ملکوں نے ‘ بالخصوص جرمنی کا کوئی ادارہ بچا نہ اس کی عمارت۔ کیا پارلیمنٹ‘ کیا عدلیہ‘ کیا فوج‘ حتیٰ کہ ریلوے ‘ ڈاک خانے اور تعلیمی ادارے بھی مٹی کا ڈھیر بن گئے۔ اداروں کے ساتھ ان میں کام کرنے والے بھی مارے گئے۔ سیاستدان‘ ارکان پارلیمنٹ‘ جج‘ وکیل‘ جنرل ‘ فوجی سب مارے گئے۔ جرمنی کی آدھی سے زیادہ فوج جنگ اور بمباری میں ماری گئی۔ آدھی سے کم جنگی قیدیوں کے کیمپ میں۔ ایک لاکھ جنگی قیدی تو امریکہ نے ہلاک کر دیے(دیکھیے ڈاکومنٹری: دی ٹروتھ ابائوٹ ورلڈ وارii) عمارتیں رہیں نہ لوگ‘ البتہ ادارے باقی رہے ان دونوں ملکوں کی تعمیر نو امریکہ نے کی۔ یہ ملک تعمیر نو کیا‘ زندہ رہنے کے قابل بھی نہیں رہے تھے۔ امریکہ نے انہیں برباد کیا‘ پھر تعمیر نو کی‘ انہیں باجگذار بنایا اور ان کی قومی نفسیات تک تبدیل کر کے رکھ دی۔ اب یہ دونوں ملک امریکہ اور اس کے نیو ورلڈ آرڈر کے حلیف ہیں۔ شاید آئندہ نہ رہیں لیکن ابھی تک تو ہیں۔ ٭٭٭٭٭ مذکورہ شخصیت سائنس پر بھی عبقری عبور رکھتی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ انہیں دستیاب سامعین ابھی سائنسی طور پر اتنے بالغ نہیں ہیں کہ ان کی بات سمجھ سکیں۔ ایک بار انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ چین میں ٹرینیں سپیڈ کی روشنی سے چلتی ہیں۔ سامعین یہ بات سمجھ نہیں سکے‘ ہنسنے لگے۔ ظاہر ہے کوئی عبقری وقت سے پہلے بات کر دے تو لوگ ہنستے ہی ہیں۔ آئن سٹائن نے انرجی کی مساوات پیش کی تو دنیا بھر میں لوگ ایک بار تو ہنسنے لگے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ سپیڈ کی روشنی والی دریافت بھی ایک روز ایسے ہی چمکے گی جیسے انرجی والی مساوات چمکی تھی۔ سپیڈ میں کسی غیر مرئی روشنی کا علم صدیوں بعد پیدا ہونے والے عبقری ہی رکھ سکتے ہیں۔ بعض احباب نے کہا‘ ان کی زبان پھسل گئی تھی۔ وہ کہنا چاہتے تھے کہ روشنی کی سپیڈ۔ لیکن یہ تو ایک بہت بڑے جینئس کی ذہانت پر حملہ ہے۔ چھٹی جماعت کا بچہ بھی جانتا ہے کہ روشنی کی سپیڈ ایک لاکھ 86ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔ کیا عبقری کو اس کا علم نہیں ہو گا؟ کیا وہ یہ بتا رہے تھے کہ چین میں ٹرینیں ایک لاکھ 86ہزار میل فی سیکنڈ لگ بھگ ایک کروڑ میل فی منٹ‘ ساٹھ کروڑ میل فی گھنٹے کی رفتار سے چلتی ہیں؟ ظاہر ہے کوئی بھی یہ بات ہوش میں رہ کر نہیں کر سکتا۔ مذکورہ شخصیت نے سپیڈ کی روشنی کہا تو سپیڈ کی روشنی ہی کہا۔ یہ سائنس اور مابعد الطبیعات کے درمیانی علم کا نکتہ ہے۔ ٭٭٭٭٭ کسی صوبے کے ایک وزیر نے مذکورہ ملک کی ذی وقار شخصیت کے بارے میں تازہ بیان دیا ہے کہ وہ ایک دن جوش میں آ کر مستعفی ہو جائیں گے۔بیان میں کہیں نہ کہیں یکے از غلطی ہائے بیان موجود ہے۔ زیر تذکرہ شخصیت پچھلے پانچ برسوں سے جوش میں ہیں اور اب تو نہایت ہی جوش میں ہیں۔ شاید وہ ’’ہوش‘‘ کہنا چاہتے تھے۔ یعنی یہ کہ ہوش میں آ گئے۔ استعفیٰ دے دیں گے۔ ٭٭٭٭٭ حکومت نے ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو یہ معلوم کرے گی کہ مہنگائی کیوں بڑھی۔ وزیر حضرات تو کہتے ہیں مہنگائی2008ء سے بھی کم ہے۔ پھر یہ کمیٹی کیوں۔ خیر اگربنانی ہی ہے تو کمیٹی نہیں‘ ٹاسک فورس بنائے ۔ اس لئے کہ پہلے سے بنی ٹاسک فورس کی تعداد 99ہے۔ ایک کی کمی دور ہونے سے سنچری ہو جائے گی۔ یہ ٹاسک فورسز کر کیا رہی ہیں۔ یہ معلوم کرنے کے لئے نئی ٹاسک فورس بنانے کی ضرورت نہیں‘ جے آئی ٹی کافی رہے گی۔