لندن ( نیٹ نیوز)ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع لاشوں سے بھری’ ’ڈھانچہ جھیل‘ ‘ اندازوں سے پرانی نکلی، معروف روپ کنڈ جھیل سے ملنے والی انسانی باقیات کے ڈین این اے کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ اس کی تاریخ اندازوں سے کہیں پرانی ہے ۔20ویں صدی کے وسط میں جھیل سے 500 انسانی ڈھانچے ملے تھے ۔انڈیا، امریکہ اور جرمنی کے سائنس دانوں کی تحقیق کے نتائج نے سا ئنسدانوں کے لیے مزید سوالات کو جنم دیا۔ہارورڈ میڈیکل سکول کے علم نسلیات (جنیاتی علم) کے ماہر ڈیوڈ رئیک کا کہنا ہے کہ ’ڈی این اے کے تجزیے اور باقیات کے مستحکم آئسوٹوپس کے تجزیے سے ان کی عمر، غذا اور ریڈیو کاربن کی تاریخ کا تعین کرنے سے یہ ممکن ہوا کہ روپ کنڈ جھیل کی تاریخ کا علم لگا سکیں جو ہماری توقع سے زیادہ پیچیدہ ہے ۔اس تحقیق کے دوران کل 23 مردوں اور 15 خواتین کے ڈھانچوں کے ڈی این اے کا جائزہ لیا گیا جو جھیل کے قریب سے ملے تھے ۔23افراد کا تعلق انڈیا ، 14 افراد کی باقیات کاتعلق جدید یونان کے جینیاتی قسم سے ہے ۔ جنوب مشرقی ایشیا کے لوگوں سے ملتی جلتی جینوم والی باقیات کی تاریخ سات سے دسویں صدی عیسوی پرانی تھی۔ سائنسدانوں کو اب تک اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ بحیرہ روم کے افراد اس جھیل پر کیوں آتے تھے ۔اگلے برس، ایک مہم اس جھیل کے لئے روانہ ہوگی، جو جھیل میں اور اس کے آس پاس سے موجود نوادرات کا مطالعہ کرے گی۔